Dimagh Chatty Amrazz - Article No. 1207

Dimagh Chatty Amrazz

دماغ کو چاٹتے امراض - تحریر نمبر 1207

ترقی کے دعووں کے باوجود ایسے افراد کی تعداد میں روز افزوں ہوتا اضافہ اس حد تک پریشان کن بن چکا ہے کہ ہر سال ان امراض کی روک تھام کا شعور پیدا کرنے کے لئے ذہنی بیماریوں کے موضوع پر عالمی دن منایا جاتا ہے

منگل 26 دسمبر 2017

دماغ کو چاٹتے امراض:
دنیا میں کروڑوں انسان دماغی، ذہنی، اعصابی، اور نفسیاتی امراض کا شکار ہیں۔ غربت کی شرح میں کمی اور ہمہ جہت ترقی کے دعووں کے باوجود ایسے افراد کی تعداد میں روز افزوں ہوتا اضافہ اس حد تک پریشان کن بن چکا ہے کہ ہر سال ان امراض کی روک تھام کا شعور پیدا کرنے کے لئے ذہنی بیماریوں کے موضوع پر عالمی دن منایا جاتا ہے۔
دنیا کی بہت بڑی آبادی کسی نہ کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہے، جن میں بڑی تعداد اضمحلال وافسردگی (ڈپریشن)، نسیان (الزائمر)، فتورِ دماغ اور مرگی کے مریضوں کی ہے، جب کہ شیزو فرینیا (پراگندہ ذہنی)جیسے ذہنی مرض میں گرفتار افراد کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں ان مریضوں کے درست اعدادو شمار نہیں ہیں، کیوں کہ ایسے افراد کا سروے اس صورت میں ممکن ہے، جب وہ خود، ان کے گھر والے یاعزیز واقارب خصوصی ماہرین و معالجین یا مراکز سے رابطہ کریں، تاہم پاکستان کے نفسیاتی معالجین متفق ہیں کہ ملک میں ایسے مریضوں کی تعداد مغربی ممالک میں موجود مریضوں کے برابر پہنچ چکی ہے۔

(جاری ہے)

شہروں کے علاوہ پاکستان کے دیہات میں بھی تشدد کی برھتی ہوئی وارداتوں کے باعث ذہنی مریضوں کی کثیر تعداد اس کا ثبوت ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہروں میں درپیش معاشی، سماجی اور اخلاقی مسائل اور ان سے پیدا شدہ مشکلات کی وجہ سے ایسے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ نوجوان نسل کی جرائم کی طرف رغبت اور غیر ممالک ہجرت کرنے کے شوق نے ان کے بوڑھے ماں باپ کو شدید ذہنی کرب میں مبتلا کررکھا ہے۔
بڑھتی ہوئی ہوش رُبا مہنگائی، بے روزگاری، قتل وغارت گری، لوٹ مار، خودکشی ، غیر معیاری تعلیم، قابلیت وصلاحیت کی پامالی ، عصمت دری،ہم جنس پرستی، اخلاقی ومذہبی اقدار کی روز افزوں پامالی ، غیر مساویانہ سلوک، عصبیت پرستی، انصاف کی عدم فراہمی، رشوت خوری، شراب نوشی اور ان مسائل کے ضمن میں صحیح قیادت کے فقدان نے نوجوان نسل کو ذہنی امراض میں مبتلا کردیا ہے۔
جدید طرز کی بُودوباش ، پُر تعیش زندگی کی جھوٹی جھکا چوند اور ” جو بڑھ کر اٹھالے ہاتھ میں مینا اُسی ہے“ کے اندرز فکر وعمل نے نئی نسل کے ذہن وضمیر کو پراگندا کردیا ہے۔ برطانوی دور (1912ء) میں ذہنی امراض کے ضمن میں پہلی مرتبہ قانون نافذ کیا گیا تھا۔ طویل ترین عرصے میں مذکورہ مسائل پچیدہ ترین ہوتے چلے گئے، لیکن پاکستان میں ان سے نمٹنے کے لئے اسی محدود اور ناکافی قانون کا بدستور سہارا لیا جارہا ہے۔
1962ء سے اس کی جگہ ایک جدید قانون کے نفاذ کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے، لیکن موجودہ بانجھ نظام اس میں بہت بڑی رکاٹ ہے۔ ان نظام کا خاتمہ کیسے ہوگا اور کون کرے گا؟ثناخوان تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟ دیہی علاقوں میں ذہنی ونفسیاتی مریض مست وملنگ قرار دے کر کسی مزار ودرگاہ یا پھر کسی عامل کے رحم وکرم پر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ اس کا ایک اہم سبب شعور کے فقدان کے علاوہ ملک میں قابل ماہرینِ نفسیات کی کمی بھی ہے۔
پورے ملک میں ذہنی امراض کے اسپتالوں کی تعداد بھی بہت کم ہے ۔ معاشرے میں ہرروز انسان اور اس کے حقوق کی پامالی کی جارہی ہے۔ اس معاشرے میں تہذیب وشعور کون پیدا کرے گا؟ کیا یہ ذمے داری سرکاری اداروں کی ہے یا سماجی تنظیموں کی؟ یا اساتذہ اس کے ذمے دار ہیں؟ آخر کون ہے، جو اس ذمے داری کو قبول کرے؟ تھوڑی دیر کے لئے تمام مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف صحت کے مسئلے کو ہی لے لیجئے۔
اچھی صحت کس طرح حاصل ہوگی؟ اچھی صحت کے لئے کون سے عوامل ضروری ہیں؟ اچھی صحت کی معاشرے میں کیا اہمیت ہے؟ کیا اچھی صحت کے لئے خالص غذائیں کھانی چاہییں؟ لیکن اس معاشرے میں کون سے غذاخالص ہے اور کہاں ملتی ہے؟ ہر ترقی یافتہ ملک میں عوام کی صحت ، جان ومال کی حفاظت کی جاتی ہے اور اچھی صحت کا مطلب ہے اچھی ذہنی صحت، لیکن کیا ہم ذہنی طور پر صحت مند ہیں؟ اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس نہ ہو۔

Browse More Healthart