Hadiyon Ki Boseedgi Aik Takleef Deh Marz - Article No. 2718

Hadiyon Ki Boseedgi Aik Takleef Deh Marz

ہڈیوں کی بوسیدگی ایک تکلیف دہ مرض - تحریر نمبر 2718

ہڈیاں جسم کا ڈھانچہ بناتی ہیں اور بون کی کرسٹل اسے مضبوط کرتی ہے

جمعرات 1 جون 2023

جسم کی بنیاد ہڈیوں پر قائم ہے جیسے کسی عمارت کو کھڑا کرنے میں سریوں کے تانے بانے ڈالے جاتے ہیں پھر انہیں سیمنٹ اور بجری کی مدد سے مضبوط کر دیا جاتا ہے بالکل اسی طرح ہڈیاں جسم کا ڈھانچہ بناتی ہیں اور بون کی کرسٹل اسے مضبوط کرتی ہے۔اسے Hydroxyapatite کہتے ہیں۔ان میں کیلشیم اور فاسفیٹ موجود ہوتا ہے۔
کسی نومولود بچے میں ہڈیوں کی نشوونما،لمبائی اور چوڑائی دونوں طرح سے ہوتی ہے یعنی وہ بڑھتی ہیں اور پھیلتی ہیں۔
عام طور پر لڑکیوں میں چودہ اور لڑکوں میں اٹھارہ سال کی عمر میں پختگی آ جاتی ہے۔
اس وقت کہا جاتا ہے کہ ان کا بون ماس (Bone Mass) تقریباً مکمل ہو گیا ہے۔دونوں اصناف میں ہڈیوں کی پختگی تیس سال کی عمر تک قائم رہتی ہے اس کے بعد ریموڈلنگ Remodeling کا دور شروع ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اس میں پرانی ہڈیوں کے حصے قدرتی طور پر ختم ہوتے اور نئی ہڈیوں کے حصے ان جگہوں کو پُر کرتے ہیں۔

نئی ہڈیاں بننے والے سیل کو Osteoblast اور پرانی ہڈیوں کو ختم کرنے والے سیل کو Osteoclast کہتے ہیں۔ان دووں کے درمیان Osteocytes ہوتے ہیں جو میچور سیل کہلاتے ہیں۔جسم جب ری موڈلنگ کے عمل سے گزرتا ہے تو آسٹیو بلسٹ سیل کی تعداد بڑھ جاتی ہے جس سے نئی ہڈیاں بننے کا عمل تیز اور آسٹیوکلاسٹ کی پیداوار کم رہتی ہے۔
جسم کا یہ پورا عمل منظم انداز میں ہوتا ہے مگر اس میں عام صحت مندی کا خاصا عمل دخل ہے۔
اگر عام صحت ٹھیک نہ ہو مثلاً متوازن غذا نہ لی جاتی ہو،ہارمونز ڈسٹرب ہوں تو اس صورت میں نئی ہڈیاں بننے کا عمل آہستہ اور ختم ہونے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔اگر کسی شخص میں تھائی رائیڈ کا مسئلہ ہو یا کوئی خاتون جلدی جلدی حاملہ ہو رہی ہو تو یہ عمل تیس سے پینتیس سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی متاثر ہو سکتا ہے۔اس دورانیے میں ہڈیوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل تھوڑا سا تیز ہو جاتا ہے۔
اکثر خواتین کو پینتالیس سے پچاس سال کی عمر تک سن یاس مینوپاز آ جاتا ہے۔
مینوپاز ہڈیوں کے گھلاؤ کا درد
خواتین میں جب مینوپاز کا عرصہ شروع ہو جائے تو جسم میں ایسٹروجن اور پروجیسٹرون کا عمل رک جاتا ہے۔اس عرصے میں آسٹیوکلاسٹ کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے اور آسٹیو بلاسٹ زیادہ تیز رفتاری سے ہونے لگتا ہے۔ہمارے جسم میں سالانہ ضائع ہونے والی ہڈیوں کا تناسب تقریباً اعشاریہ 224 فیصد ہے۔
بعض افراد میں یہ شرح ایک فیصد بھی ہوتی ہے۔عام الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ تیس سے پینتیس سال تک ری موڈلنگ کا عمل متوازن چلتا ہے اس کے بعد ہڈیاں کمزور ہونے کا عمل بڑھ جاتا ہے۔جس کی سالانہ شرح .25 سے .5 فیصد ہوتی ہے۔بعض افراد میں یہ شرح چھ فیصد بھی ہو سکتی ہے جس کی وجوہ میں غیر متوازن غذا،عمومی صحت کا اچھا نہ ہونا،جسمانی سرگرمیاں نہ ہونا اور ہارمونز کا نظام درست نہ ہونا ہو سکتا ہے۔
پچاس برس کی عمر کو پہنچ کر مینوپاز کا آغاز ہو جائے اور عمومی صحت بھی اچھی نہ ہو تو آسٹیو پوروسیس کا مرض لاحق ہو سکتا ہے۔ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ گوری رنگت والے افراد آسٹیو پوروسیس میں جلد مبتلا ہوتے ہیں یعنی افریقیوں کی نسبت امریکیوں میں یہ مرض بلند شرح میں پایا جاتا ہے۔پاکستانی خواتین میں یہ مرض بہت عام ہوتا جا رہا ہے۔اس کی بنیادی وجوہ میں متوازن غذا کی عدم فراہمی اور جسمانی سرگرمیوں کا فقدان شامل ہیں۔
اس مرض سے بچنے کے لئے سب سے پہلے تو ڈائٹنگ کا تصور بدلنا چاہیے۔دبلا پتلا نظر آنے کے شوق میں دودھ اور پروٹین کا استعمال ختم نہ کیا جائے۔متوازن غذا اور جسمانی ورزش پر خاص توجہ دی جائے تاکہ مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات کم ہو سکیں۔اوائل عمری ہی میں دودھ دہی اور پنیر کا استعمال زیادہ کیا جائے۔متحرک اور فعال زندگی کے لئے ورزش بہت ضروری ہے۔

BMD ٹیسٹ کب ہونا چاہیے․․․؟
جب کسی خاتون کو مینوپاز کا آغاز ہوئے دو سال ہو جائیں تو بی ایم ڈی (Bone Mass Density) ٹیسٹ لازمی کروائیں۔اوائل عمری ہی میں اپنا لائف اسٹائل صحت بخش بنائیں۔ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کیلشیم،وٹامن ڈی اور ورزش تینوں اراکین مل کر ہڈیوں کو مضبوط اور توانا کرتے ہیں۔اگر بچپن میں ان تینوں اجزاء کے باہمی ربط کو یقینی بنا لیا جائے یعنی بچے ورزش بھی کریں،دودھ بھی پئیں اور وٹامن ڈی سے بھرپور غذائیں بھی استعمال کرتے رہیں تو آگے جا کر ان کے جوڑوں میں درد کی شکایت ہو گی یا ان کی ہڈیاں چوٹ برداشت نہیں کر سکیں گی۔
اوسٹیو پوروسس (ہڈیوں کی بھربھراہٹ) کی بیماری بڑی خاموشی سے سرایت کرتی جاتی ہے۔اس مرض میں ہڈیاں گھلتی چلی جاتی ہیں۔اوسٹیو آرتھرائٹس بھی کیلشیم اور وٹامن ڈی کی مناسب مقدار نہ ملنے سے جڑ پکڑتی ہے۔
کیلشیم کیا ہے․․․؟
یہ ایسا معدنی جزو ہے جس کا ننانوے فیصد حصہ اعضاء ہڈیوں اور دانتوں کے لئے درکار اجزاء پر ہے۔
متوازن غذا سے کیلشیم کا بڑا حصہ دستیاب ہو جاتا ہے۔ڈیری مصنوعات اس معدنی جزو کا بنیادی عنصر ہے۔تاہم ماہرین غذائیت فل کریم مصنوعات سے پرہیز کی تلقین کرتے ہیں۔ایسے افراد جو نمک اور حیوانی پروٹین کا استعمال زیادہ کرتے ہیں ان کے جسم میں بھی کیلشیم کم ہو سکتا ہے۔
وٹامن ڈی کا بہترین قدرتی ذریعہ دھوپ ہے۔عمر کے چوتھے عشرے تک پہنچتے پہنچتے بیشتر خواتین اوسٹیو پوروسس میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔
اگر صرف دس منٹ تک روزانہ گردن،کہنی،گھٹنے یا ٹخنے پر بالواسطہ طور پر بھی دھوپ لگے تو وٹامن ڈی کی مخصوص مقدار حاصل ہو جاتی ہے تاہم وٹامن ڈی سے بھرپور غذاؤں کا استعمال کیلشیم کے ساتھ کیا جائے تو دونوں اجزاء کا جسم میں انجذاب یقینی ہو جاتا ہے۔ذیل میں WHO کی مختص کردہ یومیہ مقدار کا چارٹ شائع کیا جا رہا ہے۔
عمروں کے گروپ اور کیلشیم یومیہ خوراک کا پیمانہ
بالغ افراد مرد ․․․ پچاس برس کی عمر چار سو سے پانچ سو ملی گرام یومیہ،بالغ افراد خواتین․․․پچاس برس کی عمر چار سو سے پانچ سو ملی گرام یومیہ،1-3 برس کے بچے چار سو سے پانچ سو ملی گرام یومیہ،لڑکے 11-18 برس پانچ سو سے سات سو ملی گرام یومیہ،لڑکیاں 11-18 برس پانچ سو سے سات سو ملی گرام یومیہ،ماں بننے والی خواتین 1000-1200 ملی گرام یومیہ۔
اوسٹیو پوروسس کے مریضوں کے لئے چند غذائی ہدایات۔عمر کے کسی حصے میں اس مرض اور اس کے خطرات کو روکا جا سکتا ہے۔اس کے لئے روزمرہ کے معمولات میں چند تبدیلیاں لانا ہوں گی۔مناسب ورزش،ایسی غذا کا استعمال جس میں کیلشیم اور وٹامن ڈی کی مناسب مقدار شامل ہو۔وٹامن ڈی مچھلی کے جگر کے تیل میں بھی پایا جاتا ہے اور گولیوں کی شکل میں بھی لیا جا سکتا ہے۔
نیچے دیے گئے چارٹ کی مدد سے غذا میں کیلشیم کی مقدار کو مناسب حد تک پورا کیا جا سکتا ہے۔
غذا اور کیلشیم کی مقدار
سخت پنیر 30 گرام،ایک گلاس دودھ 150 ملی گرام،دہی 125 گرام،نرم پنیر کا حصہ 30 گرام،تازہ پنیر 75 گرام،ہری سبزیاں 150 گرام،آلو 100 گرام،گوشت 150 گرام،مچھلی 120 گرام،بریڈ اسٹک 100 گرام۔چند اہم نکات یاد رکھیے․․․نمک،سرخ گوشت اور کافی کا زیادہ استعمال کیلشیم کی کمی کا باعث بنتا ہے۔

کیلشیم کے غذائی ذرائع
دودھ،بروکلی،مورنگا،گری والے میوہ جات۔اگر ان غذاؤں کو استعمال نہ کر سکیں تو ڈاکٹر کی تجویز پر اضافی کیلشیم بہتر ہے کہ وٹامن ڈی کے ساتھ لیا جائے۔تاہم اس دوران سگریٹ نوشی اور کافی کا زیادہ استعمال نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

Browse More Healthart