Kango Virus Se Ahtiyat ! - Article No. 1657

Kango Virus Se Ahtiyat !

کانگو وائرس سے احتیاط !۔۔تحریر:رانا اعجاز حسین چوہان - تحریر نمبر 1657

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کے ٹکس مختلف جانوروں مثلاًبھیڑ، بکریوں، بکرے، گائے، بھینسوں اور اونٹ کی جلد پر پائے جاتے ہیں۔ ٹکس ( چیچڑ) کا کام جانور کی کھال سے چپک کر اس کا خون چوستے رہتا ہے

ہفتہ 24 اگست 2019

لاہور میں کانگو وائرس کے شعبہ میں زیر علاج مریض کی ہلاکت کے بعد ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز پنجاب کی جانب سے کانگو الرٹ جاری کردیا گیا ہے جبکہ محکمہ صحت سندھ کے مطابق رواں برس صرف کراچی شہر میں 13 افراد کانگو وائرس کی وجہ سے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ کانگو بخار کا باعث بننے والے خطرناک کانگو وائرس سے بچاؤ کے لئے حکومتی سطح پر کوششیں جاری ہیں، مگر شہریوں میں اس خطرناک مرض سے آگاہی اور اس سے بچاؤ کے لئے مناسب احتیاطی تدابیر کے بغیر اس مرض کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔
اس خطرناک مرض سے بچاؤ کے لئے معلوم ہونا چاہئے کہ کانگو وائرس جانوروں کی کھال پر موجود خون چوسنے والے ٹکسTick ( ایک قسم کا جراثیمی کیڑا ، جسے عام طور پر چیچڑ کہا جاتا ہے ) کے ذریعے پھیلتا ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کے ٹکس مختلف جانوروں مثلاًبھیڑ، بکریوں، بکرے، گائے، بھینسوں اور اونٹ کی جلد پر پائے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

ٹکس ( چیچڑ) کا کام جانور کی کھال سے چپک کر اس کا خون چوستے رہتا ہے۔

لیکن چند ایک چیچڑ وں میں کانگو وائرس موجود ہوتا ہے اور جب کوئی انسان اس کے کنٹریکٹ میں آتا ہے یہ انسانوں میں منتقل ہوجاتا ہے ، یعنی اگر متاثرہ چیچڑ کسی انسان کو کاٹ لے تو وہ انسان فوری طور پر کانگو بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے، اور یوں کانگو وائرس جانوروں سے انسانوں اور ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے چھوت کا مرض بھی خیال کیا جاتا ہے اور یہ کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
کانگو وائرس جس کا سائنسی نام کریمین کانگو ہیمریجک فیور(Crimean congo hemorrhagic fever) ہے دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والی بیماری ہے۔اس وائرس کی چار اقسام ہیں، ڈینگی وائرس(Dengue)، ایبولا وائرس(Ebola)، لیسا وائرس(LASSA)، ریفٹی ویلی وائرس(RiftVally)۔ یہ وائرس زیادہ تر افریقی اور جنوبی امریکہ ،مشرقی یورپ ، ایشاء اورمشرقی وسطی میں پایا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے کانگو سے متاثرہ مریض کا پتہ افریقی علاقوں سے چلا اسی وجہ سے اس بیماری کو افریقی ممالک کی بیماری کہا جاتا ہے۔
یہ بیماری سب سے پہلے1944ء میں کریمیاء میں سامنے آئی اسی وجہ سے اس کا نام کر یمین ہیمرج رکھا گیا۔ پاکستان میں کانگو وائرس کی پہلی شکار آزاد کشمیر کے علاقے باغ کی سلمیٰ بیگم تھی جو 6 فروری 2002 ء کو ایک مقامی کلینک پر معمولی بخار کی شکایت کے ساتھ گئی، جب 9 فروری کو اس کے بخار میں کوئی خاطر خواہ کمی واقع نہ ہوئی تو 11 فروری کو اسے مین ڈریسنگ سینٹر لے جایا گیا جہاں پر اس کے جسم سے شدید قسم کا اخراج خون شروع ہو گیا، صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر ڈاکٹروں نے اسے ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی بھجوا دیا، 12 فروری کو اسے راولپنڈی بھیجا گیا جب کہ 13 فروری کو اس کی موت واقع ہو گئی۔
کانگو وائرس کی وجہ سے موت کا پاکستان میں یہ پہلا واقعہ تھا۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ مریضہ کانگو وائرس کا شکار ہو کر زرد بخار میں مبتلا ہوئی جس کی وجہ سے وہ جانبر نہ ہو سکی اور ایک ہفتے کے اندر اندر اس کی موت واقع ہو گئی۔ بعد ازاں ہولی فیملی ہسپتال کی لیڈی ڈاکٹر فرزانہ جس نے سلمیٰ کا علاج کیا تھا، وہ بھی دو ہفتے کے بعد 25 فروری کو موت کے آغوش میں چلی گئی۔
اس کے بعد اس مرض کی دہشت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ کانگو وائرس کی واضع علامات یہ ہیں کہ جب کسی کو کانگو وائرس ہو تو اس انفیکشن کے بعدکانگو وائرس کا مریض تیز بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسے سردرد، متلی، قے، بھوک میں کمی، نقاہت، کمزوری اور غنودگی، منہ میں چھالے، اورآنکھوں میں سوجن ہوجاتی ہے۔ تیز بخار سے جسم میں وائٹ سیلس کی تعداد انتہائی کم ہوجاتی ہے جس سے خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
اورکچھ ہی عرصے میں اس کے پھیپھڑے تک متاثر ہوجاتے ہیں، جبکہ جگر اور گردے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، متاثرہ مریض کی جلد کے مساموں سے خون رسنے لگتا ہے۔ خاص کر مسوڑھوں، ناک اور اندرونی اعضاء سے خون خارج ہونے لگتا ہے ، اور یوں خون بہنے کے سبب ہی مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ یہ مرض اس قدر تیزی سے پھیلتا ہے کہ کانگو میں مبتلا ہونے والا مریض ایک ہفتہ کے اندر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
جبکہ صفائی کی ناقص صورتحال کے سبب جانوروں میں پیدا ہونے والے خطرناک چیچڑ اس بیماری میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ جانوروں کی بڑی تعداد کھیت کھلیانوں ، کھلے میدانوں اور پہاڑی علاقوں میں پرورش پاتی ہے ، جہاں ان کی بڑی تعدا د میں سے چند ایک بیمار بھی ہوتے ہیں ۔اگر جانوروں کی شہروں میں منتقلی کے دوران جراثیم مار سپرے اور مناسب احتیاطی تدابیر نہ اپنائی جائیں تو جانوروں سے انسانوں میں خطرناک بیماریوں کی منتقلی کا اندیشہ موجود رہتاہے۔
اس بخار کا سب سے زیادہ خطرہ ان لوگوں کو ہوتا ہے جو لائیو اسٹاک اور ذبیحہ خانوں سے منسلک ہوتے ہیں، ایسے تمام لوگوں میں یہ بخار عام افراد کی نسبت زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ کانگو بخار ایک انسان سے دوسرے انسان میں، خون، متاثرہ شخص کے اعضاء، رطوبت اور جسمانی تعلقات سے پھیلتا ہے، جبکہ طبی عملے نے اگراپنا حفاظتی لباس نہ پہنا ہو انکو متاثرہ شخص کا علاج کرتے ہوئے یہ مرض لاحق ہوسکتا ہے، متاثرہ مریض کے لئے استعمال کئے گئے طبی آلات بھی اگر کسی اور شخص کے لئے استعمال کئے جائیں تو وہ بھی اس مرض کا شکار ہو سکتا ہے۔
جبکہ کانگو کے ٹیسٹ نہایت اعلیٰ کوالٹی بائیوسیفٹی لیب میں ہی ممکن ہو سکتے ہیں۔ جانوروں میں اس خطرناک مرض کی علامات بظاہر نظر نہیں آتیں تاہم چیچڑوں کو ختم کرنے کے لیے کیمیائی دواء کا اسپرے کیا جا نا چاہیے ۔ اور اگر کسی بھی شخص میں کانگو فیور کی علامت نظر آئے تو اس کو فوری طور پر اسپتال منتقل کرنا چاہئے ، بلاشبہ بروقت علاج سے بہت سی جانیں بچ سکتی ہیں۔
اس مرض سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ ہر ممکن احتیاطی تدابیر احتیار کی جائیں۔ مریض کی دیکھ بھال کرتے وقت دستانے پہنیں، لمبی آستینوں والی قمیص پہنیں۔ مویشیوں کا رخ کرتے وقت احتیاطی طور پر کپڑوں اور جلد پر چیچڑوں سے بچاوٴ کا لوشن لگائیں، جانور کو باندھنے والی جگہ پر چونے کا چھڑکاؤ کر تے رہیں۔ بلاشبہ ہر ممکن احتیاط اور بروقت علاج سے ہی اس جان لیوا بیماری سے نجات ممکن ہے۔

Browse More Healthart