Maholiyati Dehshatgardi Or Sabz Jihad - Article No. 1623

Maholiyati Dehshatgardi Or Sabz Jihad

ماحولیاتی دہشتگردی اور سبز جہاد - تحریر نمبر 1623

یہ بات تقریباً تمام قارئین پر عیاں ہے کہ ہر دور سے زیادہ آج کے دور میں ماحولیات معرضِ خطرہ و نابودی میں ہیں۔ مٹی، پانی اور ہوا کی آئے دن بڑھتی آلودگیاں، ماحولیات کے لئے ہمیشہ سے زیادہ خطرہ بنی اور اسے ناقابلِ تلافی نقصان پنہچا رہی ہیں

ہفتہ 20 جولائی 2019

یہ بات تقریباً تمام قارئین پر عیاں ہے کہ ہر دور سے زیادہ آج کے دور میں ماحولیات معرضِ خطرہ و نابودی میں ہیں۔ مٹی، پانی اور ہوا کی آئے دن بڑھتی آلودگیاں، ماحولیات کے لئے ہمیشہ سے زیادہ خطرہ بنی اور اسے ناقابلِ تلافی نقصان پنہچا رہی ہیں۔ یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں ہے کہ طبیعی ماحولیات، انسان کی روح اور اس کے بدن، نیز اسکی زندگی اور حیات پر گہرا اثر چھوڑتی ہیں۔

دوسری طرف، بہت سے ماہرین، بالخصوص ماہرینِ نفسیات کے مطابق عصرِ حاضر میں انسان کی عام مایوسی اور بہت سے روحانی اور نفسیاتی امراض، ماحولیاتی آلودگی سے ربط رکھتے ہیں اور ماحولیات کی تخریب نے لوگوں کے رویوں پر منفی اثر چھوڑا اور افراد اور معاشروں کے اخلاق پر بھی تخریبی اثرات مرتب کیے ہیں۔

(جاری ہے)

قرآنِ کریم میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے کہ: "پاکیزہ زمین کا سبزہ اللہ کے حکم سے اُگتا ہے اور شورے والی زمین سے بے سود اور بے ارزش سبزے کے سِوا کچھ نہیں اُگتا۔

" (سورہ اعراف:58)
اس آیۃ کریمہ سے استفادہ ہوتا ہے کہ جسطرح پاک طبیعت اور زمین، سبزے اور کھیتوں کے بہتر اُگنے میں مؤثرہے، اسی طرح یہ انسان کے رشد و کمال میں بھی مؤثر ہے اور جسطرح شورے سے مرکب مٹی، بے ارزش گھاس پھوس کے سِوا کچھ نہیں اُگاتی، اسی طرح آلودہ ماحولیات بھی انسان کی تربیت پر منفی تاثیر اور بُرے اثرات چھوڑتی ہیں۔ حضرتِ مولا علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنی خلافت کے آغاز میں ایک خطبے میں ارشاد فرمایا کہ: "اللہ تعالٰی کے بندوں اور آبادیوں کے معاملے میں اللہ تعالٰی (کی مخالفت) سے بچو۔
کیونکہ تمہیں تو مختلف سر زمینوں اور چوپایوں کی (حفاظت کی) بھی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔"
اللہ تعالٰی اسکے رسولؐ و اہل بیتؑ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اس قسم کے بہت سے احکامات قرآن و کتبِ احادیث میں موجود ہیں جن کے ذریعے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلام ماحولیات کے عملی اُصولوں کی پابندی کی ضرورت اوراسے انسانی زندگی اور عالمِ ہستی کی بقاء کے ایک اساسی رکن کی حیثیت سے اُجاگر کرتا ہے۔

صنعتی انقلاب جہاں انسان کو چاند، ستاروں اور بلیک ہولز تک لے گیا، علمِ فلکیات کے میدان میں حیران کُن انکشافات کر کے انسانی عقلوں کو خیرہ کرنے میں بھی کافی حد تک کامیاب ہوا لیکن افسوس! کہ آسمان کی جانب نگاہ میں انسان اپنے قدموں میں بچھی زمین سے بے پرواہ ہوگیا، بقول شاعر:
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
اس لاپرواہی اور جدتی بےراہ روی کا نتیجہ آئے روز مختف اخبارات کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے مثلاً جون 2019ء میں ایک خبر شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ایک وہیل مچھلی کے پیٹ سے 40 کلو گرام وزنی پلاسٹک آلائشوں کا گولہ برآمد ہوا۔
ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کے دس میں سے چار ممالک دنیا بھر میں سب سے زیادہ پلاسٹک آلودگی کا شکار ہیں، انمیں انڈونیشیا، فلپائین، ویتنام اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔ 15 مارچ 2019ء کو پیٹرک گیلے کی شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں پلاسٹک کی سالانہ پیداوار 300 ملین ٹن ہے، جس میں سے تقریباً 5 ٹرلین پلاسٹک کے ٹکڑے ہمارے سمندروں میں تیرتے ہیں۔
یہ سائنسدانوں کا اندازہ ہے۔ سکیری سٹیٹسٹکس 18 دسمبر 2018ء کو ایک سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسی سال 2018ء میں کیے گئے ایک عالمی سروے کے مطابق پتہ چلا کہ دنیا میں پیدا ہونے والا ساڑھے نوے فیصد پلاسٹک ریسائیکل نہیں ہوتا۔
آسیان کانفرنس میں دنیا کی تیزی سے اُبھرتی طاقت چین پرالزام عائد کیا گیا کہ سمندروں میں پلاسٹک کا کچرا سب سے زیادہ پھینکنے والا یہی ملک چین ہے۔
دوسری جانب عصرِ حاضر میں سفاکیت، ظلم اور بارود کی بُو کو عام کرنے والے ملک امریکہ کے متعلق 25 جون 2019ء کو PHYS.org پر شائع ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ امریکی فوج نے 2017ء میں یومیہ 2،69،230 بیرل آئل خریدا، اور اس تیل کو جلا کر تقریباً 25000 کلو ٹن سے زائد کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کیا۔
موجودہ اور مستقبل کی کہی جانے والی عالمی طاقت اپنے اپنے انداز میں کرۂ ارض کے جگر یعنی ماحول کو جسطرح زہرِ قاتل سے مُردار بنا رہی ہیں اس کا نتیجہ ہم لاتعداد صورتوں میں دیکھ رہے ہیں کہ انسان جسمانی اور روحانی بیماریوں کی وہ چِتا بن چُکا ہے کہ قریب لگنے والی آگ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے جائے۔
یہاں امجد اسلام امجد کی ایک تحریر کا ٹکڑا ذکر کرنا چاہوں گا کہ ایک تختی پر لکھا تھا کہ کوئی بھی پھول مت توڑے مگر آندھی تو اَن پڑھ تھی۔۔۔ آج کی عالمی طاقتیں عوامِ عامہ کے لئے تو کانفرنسوں میں تختی لگا رہی ہیں لیکن خود اندھی آندھی کی طرح پھولوں (ماحولیات) کو تباہ کرتی جارہی ہیں۔
اب ہمیں اپنے دور کی طاغوتی طاقتوں کے خلاف اور ماحولیات کے دفاع میں سُرخ جہاد نہیں بلکہ سبزجہاد کرنا ہے، اس جہاد کے دو آسان طریقے میں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں، ایک یہ کہ اپنے معاشرہ کو پلاسٹک مصنوعات سے اعراض برتنے کی آگہی دینے کے ساتھ ہمیں خود بھی کچھ عملی قدم اُٹھانا ہوگا، دوسرا یہ کہ اپنی ہر سالگرہ کے موقع و نسبت سے ہر سال کم سے کم ایک درخت اس انداز میں زمین کو تحفہ دیں کہ اُس کے تناور ہونے تک اس کی حفاظت کی جائے۔
اگر اس زمین پر بسنے والا ہر انسان اس قسم کے عمل کو اپنی زندگی کی مشقوں اور مشغلوں میں شامل کر لے تو نہ صرف ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ میں مؤثر قدم ہوگا، بلکہ دنیوی زندگی میں جسمانی و روحانی راحت،اطمینان و سکون کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ روزِ قیامت اپنے رب سے بہتر جزا بھی پائے گا. جیسا کہ حضرتِ امام جعفر صادقؑ کا فرمان ہے کہ: "درخت لگاؤ! خدا کی قسم ان تمام کاموں میں سے جو لوگ اپنی زندگی کے لئے انجام دیتے ہیں کوئی بھی کام اس سے پاک تر نہیں ہے۔"

Browse More Healthart