Mausam E Bahar Mein Pollen Allergy - Article No. 2421

Mausam E Bahar Mein Pollen Allergy

موسمِ بہار میں پولن الرجی - تحریر نمبر 2421

اس موسم میں جس دن تیز ہوا چل رہی ہو،پولن الرجی کے مریضوں کو ماسک پہن کر گھر سے باہر صرف انتہائی ضروری کام سے ہی نکلنا چاہیے

بدھ 20 اپریل 2022

حکیم راحت نسیم سوہدروی
ہمارے ہاں مارچ اور اپریل کے مہینوں میں موسمِ بہار بہت خوشگوار ہوتا ہے۔ان مہینوں میں نہ گرمی ہوتی ہے اور نہ سردی۔باغات اور پارکوں میں ہر طرف پھولوں کی مسحور کن خوشبو پھیلی ہوتی ہے۔طبیعت تفریحات سے لطف اندوز ہونے کے لئے مچلتی ہے۔پارکوں میں بچے،بوڑھے اور نوجوان خوش و خرم اور سیر و تفریح کرتے نظر آتے ہیں۔
طبیعت فرحت اور خوشگواری کے احساس سے ہشاش بشاش رہتی ہے۔بہار کا یہ موسم جہاں طبیعت میں فرحت و شادابی پیدا کرتا ہے،وہاں عمل کی صلاحیت میں بھی اضافہ کرتا ہے۔کچھ افراد کے لئے یہ موسم بڑی تکلیف کا باعث بھی بنتا ہے۔یہ وہ افراد ہیں،جنھیں زرِ گل یعنی پھولوں کے زیرے (Pollen) سے الرجی (حساسیت) ہوتی ہے۔ایسے افراد کے لئے یہ موسم و بالِ جان بن کر بہت اذیت و تکلیف کا باعث بنتا ہے،کیونکہ زرِ گل سے ہونے والی الرجی کے باعث ان افراد کا مدافعتی نظام متاثر ہوتا ہے اور وہ ان تکالیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں،مثلاً دم گھٹتا ہے،سینہ جکڑ جاتا ہے،گلے میں خراشیں ہوتی ہیں،چھینکیں آتی ہیں،آنکھوں سے پانی بہتا ہے،سانس لینے میں دقت ہوتی ہے اور کھانسی بھی تنگ کرتی ہے۔

(جاری ہے)

اگرچہ ان علامات کا عرصہ بہت مختصر ہوتا ہے،تاہم بہت پریشان کن اور اذیت ناک ہوتا ہے۔
کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں،جو پورے سال ان تکالیف میں مبتلا رہتے ہیں۔اگرچہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے،لیکن بہار اور خزاں کے موسموں کے آخری دنوں میں زیادہ لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں،اسے ”پولن الرجی“ یا ”الرجک دمہ“ کہا جاتا ہے۔الرجک دمے کی کیفیت میں موسم کی تبدیلی پر کسی خاص چیز سے الرجی کے باعث سانس لینے میں دقت پیدا ہو جاتی ہے۔
کسی چیز کے ناموافق ہونے کی وجہ سے اگر مذکورہ و بالا علامات ظاہر ہوں اور مریض تکالیف محسوس کرے تو اس چیز کو ”الرجن“ (Allergen) کہتے ہیں۔بہار کے موسم میں چونکہ زرِ گل سے الرجی کے باعث سانس کی تکالیف پیدا ہو جاتی ہیں،اس لئے اسے ”پولن الرجی“ کہا جاتا ہے۔اس کے علاوہ بعض لوگ خشک موسم،سرد ہواؤں،ماحولیاتی اور فضائی آلودگی کے باعث بھی سانس کی تکلیف میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
بہار کے موسم میں ہر طرف پھولوں،پودوں اور گھاس و سبزے کے مناظر آنکھوں کو ٹھنڈک و تازگی بخشتے ہیں۔ان سے زیرہ (جو سفوف کی شکل کا ہوتا ہے)،جسے پولن کہا جاتا ہے،جو پودوں کی افزائش کے لئے ضروری ہوتا ہے۔یہ پھولوں اور پودوں سے خارج ہو کر فضا میں شامل ہو جاتا ہے،جس سے کمزور مدافعت والے افراد متاثر ہوتے ہیں اور مذکورہ تکالیف کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اصل میں پولن کاؤنٹ (Pollen Countٌ) ہوا میں ایک کیوبک میٹر میں موجود پولن،یعنی زیرے کی مقدار ہوتی ہے۔اگر یہ مقدار زیادہ ہو تو کمزور مدافعت والے افراد ضرور متاثر اور پولن الرجی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس موسم میں جس دن تیز ہوا چل رہی ہو،پولن الرجی کے مریضوں کو ماسک پہن کر گھر سے باہر صرف انتہائی ضروری کام سے ہی نکلنا چاہیے۔تیز ہوا والے دن ان مریضوں کو اپنے کمروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھنے چاہییں۔
ایسے مریضوں کو دہی کھانا چاہیے،اس لئے کہ دہی میں معاون حیوی،یعنی پروبائیوٹکس (Probiotics) بیکٹیریا پائے جاتے ہیں،جو مفیدِ صحت ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ ادرک کی چائے پینے سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔پولن الرجی کے مریض کے بستر کی چادر اور کپڑے باقاعدگی سے گرم پانی سے دھونے چاہییں۔نیم کے تازہ پتے اُبال کر نیم گرم پانی سے یا نمک ملے پانی سے ناک کو خوب اچھی طرح دھونا چاہیے،جس طرح وضو کرتے وقت دھوتے ہیں۔
پولن الرجی میں مبتلا مریض کو چاہیے کہ وہ پندرہ دن تک گلِ بنفشہ چھ گرام،تخم میتھی (میتھی دانہ) چھ گرام اور دار چینی تین گرام لے کر آدھے گلاس پانی میں جوش دے کر اور چھان کر رات کو نیم گرم نوش جاں کیا کرے،اس سے بہت فائدہ ہو گا۔

Browse More Healthart