Mosaam E Sarma Main Haadiyon Ki Hifazat - Article No. 2075

Mosaam E Sarma Main Haadiyon Ki Hifazat

موسم سرما میں ہڈیوں کی حفاظت - تحریر نمبر 2075

بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ہڈیوں کی تکالیف کا پیدا ہونا ایک عمومی مسئلے کی صورت اختیار کر چکا ہے

ہفتہ 6 فروری 2021

نسرین شاہین
قدرت کے تخلیق کردہ انسانی جسم میں ہڈیوں کو وہی اہمیت حاصل ہے،جو کسی بھی عمارت کی تعمیر میں ستونوں کو حاصل ہوتی ہے۔ہڈیاں نہ صرف انسانی جسم کی خوبصورتی بڑھاتی ہیں،بلکہ ایک صحت مند جسم کی تعمیر بھی کرتی ہیں،لیکن بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ہڈیوں کی تکالیف کا پیدا ہونا ایک عمومی مسئلے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
سردیوں میں تو ہڈیوں کی تکالیف میں زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔حتیٰ کہ جوڑوں کی تکالیف تو چلنے پھرنے سے معذور کر دیتی ہے۔
عورتوں میں ہڈیوں کے مسائل کا تعلق بڑی حد تک ایک ہارمون کی کمی سے ہوتا ہے۔اس ہارمون کو ایسٹروجن (Estrogen) کہتے ہیں۔ایام کے بند ہونے کے بعد اس ہارمون کی پیداواری صلاحیت میں خاصی کمی واقع ہو جاتی ہے،جس کی وجہ سے ہڈیوں میں ایک خاص بیماری پیدا ہو جاتی ہے،جسے بھُربھُری ہڈیوں(Osteoporosis) کی بیماری کہتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس بیماری میں ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں اور ان میں کیلسیئم کی بہت زیادہ کمی ہو جاتی ہے ،جس کے باعث وہ پتلی ہو جاتی ہیں یا سوکھ جاتی ہیں اور ذرا سی چو ٹ لگنے سے ٹوٹ سکتی ہیں۔عموماً
50-45برس کی عمر کے بعد خواتین ہڈیوں کی بوسیدگی یا بھربھرے پن کی بیماری میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔یہ تکلیف اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب ہڈیوں میں لحمیات(پروٹینز)اور معدنیات(منرلز)،خصوصاً کیلسیئم کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہڈیوں کی مضبوطی میں کمی آجاتی ہے اور وہ کمزور ہو کر ٹوٹنے لگتی ہیں۔
عورتوں میں اس بیماری کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں،کیونکہ ان کا قد مردوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے،اس لئے ان کی ہڈیوں کی مجموعی لمبائی بھی شروع ہی سے کم ہوتی ہے۔عمر بڑھنے کے ساتھ عورتوں میں ہڈیوں کے ریشوں میں کمی،زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ہونے لگتی ہے ۔
عام طور پر عورتیں زندگی ہی میں اپنی ہڈیوں کی 30 سے 50 فیصد گنجانیت کھو دیتی ہیں،جب کہ مردوں میں یہ کمی صرف 20 سے 33 فیصد ہوتی ہے۔اس بیماری سے بچاؤ میں کیلسیئم بنیادی کردار ادا کرتا ہے،یعنی جسم میں اگر کیلسیئم کی مقدار پوری ہو تو اس تکلیف دہ بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔
بہ الفاظ دیگر جسم میں اگر کیلسیئم کی کمی نہ ہو تو بہت حد تک اس بیماری کے لاحق ہونے کا خطرہ نہیں ہوتا۔
کیلسیئم ہماری ہڈیوں کے لئے بہت لازمی جزو ہے،جو انھیں نہ صرف مضبوط رکھتا ہے،بلکہ ان کو جوڑے رکھنے میں مسالے کا کردار ادا کرتا ہے۔جسم میں کیلسیئم کی مقدار مناسب ہونے سے خواتین جوڑوں کے درد سے بھی بچ سکتی ہیں،لہٰذا وہ اپنے جسم میں کیلسیئم کی کمی نہ ہونے دیں،لیکن انھیں یہ بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ صرف کیلسیئم ہڈیوں تک نہیں پہنچتا،بلکہ اسے جز و بدن بنانے کے لئے حیاتین”د“(وٹامن ڈی)کی بھی ضرورت ہوتی ہے،لہٰذا انھیں کیلسیئم اور حیاتین”د“والی غذائیں زیادہ کھانی چاہییں۔

حیاتین”د“اور کیلسیئم کے علاوہ بھی ہڈیوں کی مضبوطی کے لئے غذائیت سے بھرپور دوسرے صحت بخش اجزاء کی بھی ضرورت ہوتی ہے،مثلاً میگنیزیئم،حیاتین ج(وٹامن سی)اور معدنیات وغیرہ۔یہ بھی ہڈیوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ان سب اجزاء کی جسم میں کمی نہ ہونے دیں، خاص طور پر 40 برس کا ہندسہ عبور کرنے والی خواتین اس بات کا خاص خیال رکھیں۔اس عمر میں خواتین اپنی غذاؤں میں دودھ،مکھن اور دہی وغیرہ کو ضرور شامل کریں۔
ان کے علاوہ پالک،پھلیاں،سلاد،انڈا اور مچھلی بھی کھائیں۔اس عمر میں ایسی غذائیں زیادہ کھائیں،جو امینو ترشے(امینو ایسڈ)سے بھرپور ہوں۔یہ بھی کیلسیئم جذب کرنے میں مدد دیتی ہے۔روزانہ ایسی غذائیں کھائیں،جس میں حیاتین ج کی مقدار بھی زیادہ ہو،مثلاً لیموں،کینو اور مالٹا وغیرہ۔حیاتین ج بھی کیلسیئم کو جز و بدن بنانے میں بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔
سردیوں کی دھوپ بھی ہڈیوں کے لئے بہت ضروری ہے،لہٰذا دھوپ میں ضرور بیٹھیں۔
موسم کی مناسبت سے سوپ بھی پییں اور مچھلی بھی کھائیں۔خود کو مصروف رکھیں اور ایسی سرگرمیوں میں حصہ لیں،جس میں ہاتھ اور پیروں کا زیادہ استعمال ہو۔روزانہ صبح و شام حسب استطاعت چہل قدمی کریں یا سائیکل چلائیں۔ہڈیوں کے بھربھرے پن کی بیماری میں چلنا پھرنا دوبھر ہو جاتا ہے،لیکن گھٹنے حرکت کرنے کے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں،گھٹنا،ران کی ہڈی اور پنڈلی کی ہڈی کے درمیان واقع ایک جوڑ ہے۔
یہ قدرتی طور پر اس طرح کی بناوٹ رکھتاہے کہ حرکت کے لئے زبردست لچک کا حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ جسم کو سہارنے کی بھی مستقل طاقت رکھتا ہے۔
اس مرض میں درد اور پٹھوں کا سخت ہو جانا عام ہے۔گھٹنوں کے جوڑ جسم کو سہارنے والے جوڑ ہوتے ہیں اور ان کی فعالیت جوڑ کے اردگرد کے عضلات کی مضبوطی پر منحصر ہے،خاص طور پر ان کے اگلے حصے کے عضلات پر۔ران کے ان عضلات کو مضبوط کرنے اور ان کو صحت مند بنانے والی ورزشیں کرنے سے درد سے کافی حد تک نجات مل جاتی ہے۔
گھٹنوں کا ہر وقت متحرک و فعال رہنا ضروری ہے۔حتیٰ کہ جب آپ کے گھٹنوں میں تکلیف ہو،تب بھی چلنا پھرنا بہتر ہے۔گھٹنوں کی تکالیف کا شکار ہو کر چلنے پھرنے کی کوشش کرنے سے بہتر ہے کہ وہ سب کیا جائے ،جس سے ان تکالیف سے بچا جا سکے۔گھٹنوں کے عضلات کو مستحکم کرنے کے لئے چہل قدمی یا سائیکل چلانا اچھی ورزش ہے۔اس طرح گھٹنے زیادہ دباؤ سہنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور ان کی صحت بھی بحال رہتی ہے۔

بھربھرے پن کی بیماری کی وجہ سے یوں تو جسم کی تمام ہڈیاں متاثر ہوتی ہیں،لیکن کچھ مخصوص ہڈیاں اور جوڑ ایسے بھی ہیں،جو سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں،جیسے گردن کی ہڈیاں(مہرے)،کندھے کا جوڑ اور ریڑھ کی ہڈیاں۔عرق النسا،جوڑوں کے درد،گھٹنوں کے درد، ران اور اس کے اوپری حصے کے درد،گٹھیا،کلائی،بازو،مہروں اور پسلیوں کے فریکچر وغیرہ میں بھی ہڈیاں ہی متاثر ہوتی ہیں۔
یہ درد سردی کے موسم میں شدت اختیار کر لیتے ہیں۔جوڑوں کا درد عموماً سب سے زیادہ وزن سہارنے والے جوڑوں کو متاثر کرتاہے،جس میں سرفہرست گھٹنوں کا جوڑ ہے۔گھٹنوں میں سوجن آجانا،گھٹنوں کی ہڈیوں سے آواز آنا،سیڑھیاں چڑھتے،اُترتے وقت درد کا بڑھ جانا،رکوع اور سجدے کی حالت میں درد کا بڑھ جانا،عموماً بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ عمر کا تعلق انسان کی اپنی سوچ سے ہوتا ہے،اگر ہم اپنے آپ کو ذہنی طور پر مثبت اور پُرسکون رکھیں تو جسمانی لحاظ سے بھی بہت بہتر محسوس کریں گے اور بڑھاپے کا مقابلہ بھی کر سکیں گے۔
اہم بات یہ ہے کہ ہم اندرونی طور پر اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتے ہیں۔مغربی ممالک میں لوگوں کی طویل العمری کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ نہ صرف ذہنی،بلکہ جسمانی طور پر بھی اپنے آپ کو مستعد و فعال رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں،جب کہ ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا،خصوصاً خواتین چالیس برس کی عمر کے قریب پہنچنے پر اپنے آپ کو بوڑھا محسوس کرنے لگتی ہیں۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ زندگی تو چالیس برس کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔انھیں چاہیے کہ باقاعدگی سے ورزش یا چہل قدمی کریں۔صحت بخش غذائیں کھائیں اور قدرتی ذرائع سے کیلسیئم کا حصول(جو ایک بالغ فرد کی یومیہ ضرورت کے مطابق 400 سے 800 ملی گرام ہے)یقینی بنا کر ہڈیوں کو شکست و ریخت سے بچا کر انھیں مضبوطی و پائیداری فراہم کریں۔

Browse More Joint Pain