پائیدار ترقی کے لیے ہمیں بوم اور بسٹ سائیکل سے دور جانا ہوگا ، معیشت کو ڈیجیٹلائز اور دستاویزی کرکے مسائل حل کرسکتے ہیں، مقررین کا خطاب

بدھ 24 اپریل 2024 16:28

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 اپریل2024ء) لیڈر بزنس سمٹ مقررین نے کہا ہے کہ پاکستان کو طوفانی بارشوں اور سیلاب کا سامنارہا ہے ،ان بارشوں سے دبئی بھی نہ بچا ،امریکا اور یورپ میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ ہے 680 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا، صرف یورپ میں یہ نقصان 330 ارب ڈالر تھا۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گرمی کی لہریں، سیلاب، ڈوبتے شہر اور برستی باریشیں ہیں، پیرس معاہدے میں طے پایا تھا کہ موجودہ سطح سے 1.5 فیصد درجہ حرارت میں اضافہ ہو مگر بعض شہروں 4 فیصد تک درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔

بدھ کولیڈر بزنس سمٹ اسلام آباد میں خطاب کرتےہوئے چیف بزنس آفیسر پی ٹی سی ایل گروپ ضرار ہاشم خان نے کہا کہ جب انٹرنیٹ آیا تو اس نے پی ٹی سی ایل کو متاثر کرنا شروع کیا۔

(جاری ہے)

1947 سے 1975 تک پی ٹی سی ایل سمیت تمام ادارے ترقی کررہے تھے۔ 1975 میں نیا صنعتی انقلاب شروع ہوا۔ مگر پاکستان میں سست روی سے تبدیلی آئی اور 1991 کے بعد تیزی سے تبدیلی آئی ہے۔

تیسرے صنعتی انقلاب میں تعلیم تبدیلی میں اہم ترین تھی۔ پاکستان 80 دہائی میں پیچھے رہ گیا۔ آج پاکستان مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سال 2020 کے بعد پی ٹی سی ایل ایک نئے دور میں داخل ہوا ہے۔ اب ہم چوتھے صنعتی انقلاب میں داخل ہورہے ہیں۔ صنعتی ملکوں میں خاندانی ڈھانچہ تباہ ہورہا ہے۔ سمارٹ فونز کی وجہ سے بچوں کا والدین اور بہن بھائیوں سے تعلق ختم ہورہا ہے۔

کامیاب معاشرے وہ ہیں جہاں ذرائع ابلاغ کی دستیابی ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ پر کلاوڈ خدمات بہت کم ہے۔ مصنوعی ذہانت کے بعد سافٹ ویئر کی تیاری اور برآمد میں بڑی تبدیلی آئے گی۔ سمٹ سے خطاب کرتےہوئے سی ای او این بی پی فنڈ ڈاکٹر امجد وحید نے کہا کہ پانچ کروڑ بچوں میں سے ڈھائی کروڑ بچے سکول جاتے ہی نہیں ہیں ، سکول جانے والے ڈھائی کروڑ بچوں میں سے ڈیڑھ کروڑبچے سرکاری سکولوں میں جاتے ہیں اور وہ اپنا نام تک نہیں سکتے ہیں۔

ریاست اور معاشرے میں تعلق میں وقت کے ساتھ ساتھ کمزوری آرہی ہے۔ پاکستان میں ہم اپنے عوام کو بنیادی شہری سہولیات دینے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر قانون کی عملداری اشرافیہ میں نہیں ہوگی تو عوام میں بھی نہیں ہوگی۔ پاکستان میں ذہن کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سمٹ سے خطاب کرتےہوئے منیجنگ ڈائریکٹر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان ارشد حسین نے کہا کہ پاکستان میں تعلیم نظام بہتر بنانے اور فرسودہ نظام ترک کرتے ہوئے بہترین عالمی طریقوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔

تفریح پر مبنی تعلیمی سرگرمیوں کے لیے گیمفی کیشن ، ڈیجیٹل سمیت تمام سہولتیں فراہم کی جانی چاہیے۔ دنیا بھر میں تعلیمی نظام بدل چکا ہے، اب لوگ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی بات کرتے ہیں۔ ہمیں جنریٹواے آئی کے لیے پڑھانے کے طریقوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ سکول میں تعلیم حاصل کرنےوالے 55 ملین بچے پاکستان کا اثاثہ ہیں، ہمیں ان کے مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

چیئرمین اور سی ای او انٹریٹو گروپ آف کمپنیز ڈاکٹر شاہد محمود نے اپنے خطاب میں کہاکہ اگلے 76 برسوں میں پاکستان کو ایک بالکل نئی نسل یعنی الفا جنریشن کے ساتھ منسلک ہونے کے چیلنج کا سامناہوگا ۔ اس انوکھی تبدیلی کے لیے تعلیم ، طرز حکمرانی اور سماجی اقدمات کے لیے جدید نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کو آبادی اضافہ اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔

ہیڈ آف ریسرچ بزنس ریکارڈر علی خضر نے اپنے خطاب میں کہا کہ گزشتہ 30 سال میں پاکستان کا میکرو اکنامک ماڈل بری طرح ناکام ہوا ،پائیدار ترقی کے لیے ہمیں بوم اور بسٹ سائیکل سے دور جانا ہوگا۔ ہماری محصولات کم اور گورننس ناقص ہے، ہم معیشت کو ڈیجیٹلائز اور دستاویزی کرکے مسائل حل کرسکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے پاس بار بار جانے سے بچنےکے لیے معاشی اقدامات پر عملدرآمد کرنا پڑے گا۔

سمٹ سے خطاب کرتےہوئے چیف ایگزیکٹو آفیسر شفا انٹرنیشنل ہاسپٹل ڈاکٹر ذیشان بن اسحاق نے کہا کہ چیلنجز مواقع لاتے ہیں، مستقبل کے پیچیدہ مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے، مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے ٹیم ورک ضروری ہے۔سمٹ سے خطاب کرتےہوئے کنٹری منیجنگ ڈائریکٹر، سیپ، پاکستان، عراق، بحرین اور افغانستان ثاقب احمد نے کہا کہ پاکستان جیسا ملک جہاں مذہب اور ثقافت کا کافی اثر و رسوخ ہے، ٹیکنالوجی کا استعمال معاملات کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔

ہم ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ٹیکنالوجی کے استعمال کی وجہ سے سامنے آتے ہیں۔ جیسے جیسے رکاوٹیں بڑھ رہی ہیں ویسے ویسے یہ ہماری قیادت پر سوالیہ نشان لگتا جارہا ہے۔ محرم گروپ کے چیئرمین مصطفیٰ محرم نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی بہت سی کہانیاں ابھی تک سنائی نہیں گئی ہیں۔ جن کو دنیا کو بتانا ہے۔ پاکستان آکر مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں اپنے گھر آیا ہوں ۔

مصر اور پاکستان مشرق وسطی کا حصہ ہیں۔ ہمیں ایشیا سے ملانے کے لئے پاکستان ہی راستہ ہے۔ پاکستان کے ساتھ یکساں ثقافت کو اپناتے ہیں۔ محرم اینڈ پارٹنرز پبلک پالیسی کمپنی بنائی تھی۔ ایسی کمپنیاں یورپ اور امریکا میں کام کرتی ہیں۔ یہ پہلی کمپنی تھی جو مصر میں بنائی گئی۔ محرم اینڈ پارٹنرز حکومتوں کے ساتھ نجی شعبے کی نمائندگی کرتے ہیں۔

مصری حکومت ہماری کاوشوں کو اہمیت دیتی ہے کیونکہ پہلی مرتبہ انہیں کسی نے پالیسی پر مشورہ دیا ہے۔ ہماری سفارشات پر گوگل، ایمازون نے مصر مین سرمایہ کاری کی ہے۔ کمپنیوں کو پہلی مرتبہ حکومت کے ساتھ قابل عمل اور تعمیری مذاکرات کا موقع ملا ہے۔ ڈائریکٹر، نٹ شیل کمیونی کیشنز؛ چیئرمین، پرو پاکستانی، ریجنل انٹرپرینیور اینڈ انویسٹر عثمان یوسف نے کہا کہ بعض اوقات میں ہم مثبت تبدیلی پر کم اور منفی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

ہم سب کے الگ الگ مسائل ہیں۔ بحیثیت انسان ہمیں اپنا کردار بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم اپنی برادری اور اردگرد کے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔ کاروبار منافع کمانے اور زندگی بہتر بنانے کا ذریعہ ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ اپنے کیریئر کو ترقی دیتے ہیں اور کامیابی حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، جس کی وجہ سے منافع کا حصول پیچھے رہ جاتا ہے۔

منیجنگ ڈائریکٹر ایس اینڈ پی گلوبل پاکستان مجیب ظہور نے کہا کہ اے آئی ٹولز کی لوگوں تک رسائی اُن کا حق ہے۔ آگاہی پیدا کرنے اور صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے اے آئی ٹولز لازمی جزو ہیں۔ ان صلاحیتوں کو ورک فلو میں شامل کرنے کی صلاحیت جتنی زیادہ ہوگی ، اتنا ہی ہم انفرادی اور ادارتی سطحوں پر پیداواری صلاحیت بڑھا سکتے ہیں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں