طارق شفیع کا بیان حلفی قانون کے مطابق تصدیق شدہ نہیں، طارق شفیع کا بیان حلفی شہادت کے طورپرپیش نہیں کیا جاسکتا ،ْخواجہ حارث

نوازشریف کیخلاف دائر فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کے دور ان جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کا بیان مکمل نہ ہوسکا ،ْ (آج )منگل کو بھی بیان قلمبند کیا جائیگا پتہ لگانا تھا کہ قطری خطوط حقیقت تھے یا افسانہ، ایون فیلڈ اپارٹمنٹ سے متعلق بھی معلوم کرنا تھا ،ْ واجد ضیاء کا عدالت میں بیان

پیر 15 اکتوبر 2018 21:04

طارق شفیع کا بیان حلفی قانون کے مطابق تصدیق شدہ نہیں، طارق شفیع کا بیان حلفی شہادت کے طورپرپیش نہیں کیا جاسکتا ،ْخواجہ حارث
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 اکتوبر2018ء) احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف کے خلاف دائر فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کے دور ان پیر کو جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کا بیان مکمل نہ ہوسکا ،ْ (آج )منگل کو بھی بیان قلمبند کیا جائیگا جبکہ واجدضیاء نے کہاہے کہ پتہ لگانا تھا کہ قطری خطوط حقیقت تھے یا افسانہ، ایون فیلڈ اپارٹمنٹ سے متعلق بھی معلوم کرنا تھا ۔

پیر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کی۔اس موقع سابق وزیر اعظم محمد نوازشریف عدالت میں پیش ہوئے۔عدالت میں سماعت کے آغاز پر ٹرائل کی مدت میں توسیع سے متعلق حکم نامے کی کاپی جج کو موصول ہوئی ،ْمعزز جج ارشد ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس کے بعد مزید وقت نہ دینے کا کہا ہے۔

(جاری ہے)

سماعت کے دوران پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے اپنا بیان قلم بند کراتے ہوئے کہا کہ ریفرنس سے متعلق سوال یہ تھا کہ فلیگ شپ کے لیے رقم کہاں سے آئی، پتہ لگانا تھا کیا نوازشریف کے ایسے اثاثے ہیں جو آمدن سے زیادہ ہوں۔

استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ جے آئی ٹی کواپنا کام مکمل کرنے کے لیے محدود وقت دیا گیا تھا، 5 مئی 2017 کو سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی ممبرزکا اعلان کیا۔ واجد ضیاء نے کہا کہ ایف آئی اے سے ایڈیشنل ڈائریکٹرسطح کا نام جے آئی ٹی کے لیے طلب کیا گیا، ایس ای سی پی، نیب، اسٹیٹ بینک، ایم آئی ، آئی ایس آئی سے انتخاب ہوا۔ انہوں نے کہا کہ تمام اداروں کے سربراہان سے جے آئی ٹی کے لیے نام طلب کیے گئے، ایف آئی اے کی طرف سے بھیجے گئے ناموں میں میرا نام شامل تھا۔

جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ یہ بھی پتہ لگانا تھا کہ قطری خطوط حقیقت تھے یا افسانہ، ایون فیلڈ اپارٹمنٹ سے متعلق بھی معلوم کرنا تھا۔ واجد ضیاء نے کہا کہ حسین نواز کی قائم کمپنی ہل میٹل سے متعلق بھی تفتیش کرنا تھی، طارق شفیع، شہبازشریف، نوازشریف،حسن اور حسین نواز کے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے۔ استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ سے بھی ریکارڈ حاصل کیا تھا، سپریم کورٹ کوجمع کرائی گئی متفرق درخواستیں حاصل کی تھیں۔

واجد ضیاء نے بتایا کہ حاصل کی گئی تمام دستاویزات ایک ایک کرکے لکھوا دیتا ہوں، نیب آرڈیننس کی شق21 کے تحت ایم ایل اے کی درخواست کی۔جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ وزارت قانون کے نوٹیفکیشن میں ہی 21 جی کے اختیارات دیے گئے، ریفرنس سے متعلق ایم ایل ایزکا جواب صرف یواے ای سے آیا۔استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے ایس ای سی پی، ایف بی آراوردیگراداروں سے ریکارڈ لیا۔

خواجہ حارث نے واجد ضیاء کی جانب سے طارق شفیع کا بیان حلفی پیش کرنے پراعتراض کرتے ہوئے کہا کہ طارق شفیع نہ اس کیس میں گواہ ہیں نہ ہی ملزم ہے۔محمد نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ طارق شفیع کا بیان حلفی قانون کے مطابق تصدیق شدہ نہیں، طارق شفیع کا بیان حلفی شہادت کے طورپرپیش نہیں کیا جاسکتا۔جے آئی ٹی سربراہ نے 1978 میں اہلی اسٹیل مل کے 75 فیصد شیئرزکی فروخت کا معاہدہ پیش کیا، 1980میں اہلی اسٹیل کمپنی کے شیئرز کی فروخت کا معاہدہ بھی پیش کیا۔ استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے کہا کہ مزید شواہد پیش کرنے میں 2 دن لگ جائیں گے۔ عدالت نے فلیگ شپ کیس کی مزید سماعت منگل تک ملتوی کردی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں