آڈٹ ‘ فنانس‘ این ایل سی اور وزارت منصوبہ بندی و ترقی ایک ماہ میں حتمی فیصلہ کرکے رپورٹ پیش کرے، پبلک اکائونٹس کمیٹی

7 دنوں میں ریکارڈ کی فراہمی کے لئے خط لکھ کر ذاتی طور پر متعلقہ حکام کے حوالے کیا جائے، سیکرٹری منصوبہ بندی وترقی کو ہدایت

پیر 27 جنوری 2020 16:15

آڈٹ ‘ فنانس‘ این ایل سی اور وزارت منصوبہ بندی و ترقی ایک ماہ میں حتمی فیصلہ کرکے رپورٹ پیش کرے، پبلک اکائونٹس کمیٹی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 جنوری2020ء) پبلک اکائونٹس کمیٹی نے وزارت منصوبہ بندی و ترقی کی آڈٹ رپورٹ کا جائزہ لیکر این ایل سی کے منافع میں حکومت سمیت تمام شیئر ہولڈرز کے حصہ کے حوالے سے ہدایت کی ہے کہ آڈٹ ‘ فنانس‘ این ایل سی اور وزارت منصوبہ بندی و ترقی ایک ماہ میں اس کا حتمی فیصلہ کرکے پی اے سی کو رپورٹ پیش کرے۔

پیر کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کے فیصلوں پر عملدرآمد اور مانیٹرنگ کیلئے قائمہ کمیٹی کا اجلاس پیر کو پارلیمنٹ ہائوس میں کمیٹی کے کنوینر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے رکن سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور خواجہ آصف کے علاوہ متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران نے شرکت کی۔ کمیٹی نے وزارت منصوبہ بندی و ترقی اور ریاستوں و سرحدی امور کی وزارت کے 1999-2000ء‘ 2005-06 ء‘ 2006-07ء اور 2008-09ء کے آڈٹ اعتراضات پر عملدرآمد کی صورتحال کا جائزہ لیا۔

(جاری ہے)

وزارت منصوبہ بندی و ترقی کی آڈٹ رپورٹ کا جائزہ لیتے ہوئے این ایل سی کے منافع میں حکومت سمیت تمام شیئر ہولڈرز کے حصہ کے حوالے سے پی اے سی نے ہدایت کی کہ آڈٹ ‘ فنانس‘ این ایل سی اور وزارت منصوبہ بندی و ترقی ایک ماہ میں اس کا حتمی فیصلہ کرکے پی اے سی کو رپورٹ پیش کرے۔ 2004-05ء این ایل سی کی سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ہونے والے نقصانات کے حوالے سے پی اے سی کو بتایا گیا کہ جی ایچ کیو کی تحقیقات کے نتیجہ میں 4 افسران کو سزا دی گئی ہے، آڈٹ نے کہا کہ سزا تو دی گئی مگر ریکوری نہیں ہوئی۔

نیب حکام نے کہا کہ ہمیں ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔ این ایل سی کے نمائندے نے کہا کہ سزا یافتہ لوگوں کی پنشن اور مراعات روک لی گئی ہیں، یہ رقم نقصانات سے کہیں زیادہ بنتی ہے۔ پی اے سی نے کہا کہ فوج کے افسران کو تو سزا دے دی گئی ہے مگر ایک سویلین شخص کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ سول شخص کے خلاف کارروائی کیلئے نیب کو ریکارڈ فراہم کیا جائے۔

خواجہ محمد آصف نے کہا کہ اس سکینڈل میں بروکرز کو 38 کروڑ کی کمیشن بھی دی گئی تھی۔ این ایل سی کے نمائندے نے کہا کہ این ایل سی کو اس سرمایہ کاری میں منافع ہوا ہے۔ سردار ایاز صادر نے کہا کہ این ایل سی سرمایہ کاری کرنے کا مینڈیٹ ہی نہیں رکھتی تھی۔ سیکرٹری منصوبہ بندی و ترقی نے کہا کہ اس حوالے سے تمام ریکارڈ جی ایچ کیو میں ہے۔ پی اے سی کے استفسارپر این ایل سی حکام نے کہا کہ ہم اسی حوالے سے مزید کوشش کرتے ہیں۔

سردار ایاز صادق نے کہا کہ فوج نے تو اپنے لوگوں کو سزا دے دی ہے مگر اس سکینڈل میں ملوث سعید الرحمن اور دیگر سول افراد کے خلاف کارروائی تو اس وقت ہوگی جب ریکارڈ ملے گا۔ پی اے سی نے سیکرٹری منصوبہ بندی و ترقی کو ہدایت کی کہ 7 دنوں میں ریکارڈ کی فراہمی کے لئے خط لکھ کر ذاتی طور پر متعلقہ حکام کے حوالے کیا جائے اور پی اے سی کو پیش رفت سے آگاہ کیا جائے۔

آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ فروری 2006ء میں این ایل سی نے جاپان پاور لمیٹڈ کے 19 فیصد حصص 11کروڑ روپے میں خریدے۔ خواجہ محمد آصف نے کہا کہ جاپان پاور لمیٹڈ 1994ء سے ٹیرف کے جھگڑے کی وجہ سے نقصان میں جارہی تھی۔ این ایل سی کا 2006ء میں اس میں سرمایہ کاری کرنا سمجھ میں نہیں آتا۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ معاہدے میں کون کون لوگ شامل تھے اور این ایل سی کو یہ مینڈیٹ حاصل تھا یا نہیں اور جاپان پاور لمیٹڈ کی گزشتہ تین سالوں کی بیلنس شیٹس بھی 7 دنوں میں فراہم کی جائیں تاکہ ہم سرمایہ کاری کی وجوہات کا تعین کرسکیں۔ سیفران کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیتے ہوئے پی اے سی نے ہدایت کی کہ مالیاتی نظم و نسق کو ہر ممکن طریقے سے یقینی بنایا جائے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں