قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کابڑھتی ہوئی مہنگائی کا نوٹس ،آئندہ اجلاس میں مشیر خزانہ، سیکرٹری خزانہ، گورنر اسٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف بی آر طلب

جمعرات 21 اکتوبر 2021 16:29

قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کابڑھتی ہوئی مہنگائی کا نوٹس ،آئندہ اجلاس میں مشیر خزانہ، سیکرٹری خزانہ، گورنر اسٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف بی آر طلب
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 اکتوبر2021ء) قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا نوٹس لیتے ہوئے آئندہ اجلاس میں مشیر خزانہ، سیکرٹری خزانہ، گورنر اسٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف بی آر کو بریفنگ کیلئے طلب کر لیا۔جمعرات کو ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ایف بی آر کے 10مئی 2019کی ہدایات کو واپس لینے کے فیصلے، کمشنر اپیل کی رپورٹنگ کے میکنزم، کارپوریٹ سیکٹر کیلئے ڈیجیٹل پیمنٹ کے علاوہ فلور مل اسوسی ایشن کی 2015سے 2018کی ادائیگیوں کے حوالے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور وزارت خزانہ سے بریفنگ کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا نوٹس لیتے ہوئے آئندہ اجلاس میں مشیر خزانہ، سیکرٹری خزانہ، گورنر اسٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف بی آر کو آئندہ اجلاس میں بریفنگ کیلئے طلب کر لیا۔

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا معاملہ ممبر قائمہ کمیٹی برائے خزانہ سینیٹر سعدیہ عباسی نے اٹھایا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ ملک میں جتنی مہنگائی ہو چکی ہے لوگ انتہائی پریشان حال ہیں۔پورے ملک میں مہنگائی کی وجہ سے احتجاج کی صورتحال پیداہ ہو چکی ہے۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ایف بی آر کے 10مئی 2019کی ہدایات کو واپس لینے کے فیصلے کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

ممبر آپریشن ایف بی آر قیصر اقبال نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلات کرتے ہوئے بتایا کہ قانون کے مطابق بینک اکاؤنٹ اٹیچ کرنے کے اختیار ات کمشنر کے پاس تھے اس کا ایک باقائد ہ ایک میکنزم ہے بغیر پوچھے کوئی اکاؤنٹ بند نہیں کیا جاتا سابق چیئرمین ایف بی آر نے کمشنر کے اختیارات اپنے پاس رکھے۔ چیئرمین و اراکین کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں سابق چیئرمین ایف بی آر کو طلب کر کے معاملے کو واضح کیا جائے گا۔

اراکین کمیٹی نے کہا کہ قانون واضح ہے اختیارت کمشنر کے پاس ہوتے ہیں پھر خلاف قانون کام کیوں کیا گیا۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ اگر ٹیکس کلچر کو فروغ دینا ہے تو پہلے والی صورتحال کو برقرار رکھنا ہو گا۔ قائد ایوان سینیٹ سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ ایف بی آر کے ورکنگ پیپر کے مطابق مئی 2019کے فیصلے کو واپس لینے کا فیصلہ بورڈ نے کیا تھا اور قانون کے مطابق بھی بورڈ نے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے مگر قائمہ کمیٹی کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ سابق چیئرمین ایف بی آر نے کیا ہے۔

قائمہ کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ جو پہلے والا سیٹ اپ تھا اٴْس کو برقرار رکھا جائے قائمہ کمیٹی کی رائے کو ہاؤس سے اختیار کرایا جائے گا غلط فیصلوں کی وجہ سے بے شمار لوگ پریشان ہیں ایف بی آر کے فیصلے کو فوراً واپس لیا جائے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ لوگوں کو بے شمار غیر ضروری غلط نوٹسز جاری کئے جاتے ہیں جس سے ملک میں بزنس متاثر ہو رہا ہے۔

غلط نوٹسز جاری کرنے والوں کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے۔ بزنس کمیونٹی کو کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کیلئے فر ینڈ لی ماحول فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کمشنر اپیل کی رپورٹنگ کے میکنزم کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو تفصیلی آگاہ کیا گیا۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ ایک انتظامی معاملہ ہے کمشنر اپیل ممبر لیگل کو رپورٹ کرتا ہے۔ 33فیصد کیسز کنفرم ہوتے ہیں 67فیصد کنفرم نہیں ہوتے۔

کمشنر اپیل میں ایف بی آر کبھی بھی مداخلت نہیں کرتا۔ ایف بی آر واحد ادارہ ہے جس کی ہمیشہ گروتھ رہی ہے۔ جس پر اراکین کمیٹی نے کہا کہ اٴْن چیزوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جن کی بدولت لوگ ٹیکس پیئرز بننے سے ڈرتے ہیں تاکہ اٴْن مسائل کو حل کیا جا سکے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ جلد ہی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ایک پبلک ہیرنگ کا انعقاد کرے گی جس میں سرمایہ کار وں تجاروں اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کو طلب کر کے معاملات کا جائزہ لیا جائے گا۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایسے افسران کے خلاف کارروائی کی جائے جو لوگوں کو غلط ٹیکس نوٹس جاری کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس نوٹس جاری کرنے والوں کی تنخواہیں 1.5لاکھ تک ہوتی ہیں مگر وہ کروڑوں کی گاڑیوں میں گھوم رہے ہوتے ہیں۔ ایف بی آر اپنے ملازمین کا احتساب یقینی بنائے۔ انہوں نے کہا کہ ایک عام ٹیکس گزار جس کی دس کروڑ آمدن ہوتی ہے اسکو 65 کروڑ کا ٹیکس نوٹس بھیج دیا جاتا ہے اسطرح کی ناانصافیوں کی وجہ سے ملک میں بزنس تباہ ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا میکنزم بنایا جائے کہ جس میں انصاف یقینی ہو اور میرٹ پر فیصلے کئے جائیں۔ کارپوریٹ سیکٹر کیلئے ڈیجیٹل پیمنٹ کے حوالے سے قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ستمبر میں ترمیمی آرڈینس کے ذریعے فیصلہ کیا گیا ہے کہ کسی بھی ایک ہیڈ میں 2.5لاکھ سے اوپر ڈیجیٹل پیمنٹ کی جائے گی 15ستمبر سے یہ نافذ ہو اور سیکشن 21میں ایک کلاذ کا اضافہ کیا گیا۔

چیک کی بجائے بینک سے ڈیجیٹل پیمنٹ کی جائے گی جس پر سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ کارپوریٹ سیکٹر اس کی کسی صورت اجازت نہیں دے گا۔ اس سے بے شمار مسائل پیدا ہونگے۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آرڈینس لانے کی کیا ایمرجنسی تھی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ تمام اراکین کمیٹی اس آرڈینس کی حمایت نہیں کرتے۔ فلور مل اسوسی ایشن کی 2015سے 2018کی ادائیگیوں کے حوالے سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور وزارت خزانہ سے معاملے پر تفصیلی بریفنگ حاصل کی گئی۔

چیئرمین فلور اسوسی ایشن نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ 30ملوں کے 54کروڑ کے واجبات ہیں جو اسٹیٹ بینک ادا نہیں کر رہا۔ویٹ ایکسپورٹ کی گئی تھی اور 90دن کے اندر اسٹیٹ بینک نے کاغذات جمع کرانے کا کہا تھا ہم نے اپنے بینکوں کو وقت پر ادا کر دئے تھے بینکوں میں تاخیر کی وجہ سے اسٹیٹ بینک ادا نہیں کر رہا۔ اسٹیٹ بینک حکام نے کہا کہ جن ملوں کے کاغذات مکمل نہیں تھے وہ متعلقہ بینکوں کو واپس بھیج دیئے گئے تھے۔

ایک کمیٹی بھی بنائی گئی تھی جو ٹائم بار کیسز کا جائزہ لیتی تھی۔ جس پرقائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ تین ہفتوں کے اندر فلور اسوسی ایشن کے تمام کیسز کو کلیئر کر کے قائمہ کمیٹی کو رپورٹ دی جائے اگر معاملہ حل نہ کیا گیا تو گورنر اسٹیٹ بینک کو طلب کر کے جائزہ لیا جائے گا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں قائد ایوان سینیٹ سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم، سینیٹرز سلیم مانڈوی والا، سعدیہ عباسی، فاروق ایچ نائیک، محسن عزیز، کامل علی آغا، انوار الحق کاکڑ، سید فیصل علی سبزواری، فیصل سلیم رحمن کے علاوہ وزارت خزانہ، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، وزارت قانون کے حکام نے شرکت کی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں