سپریم کورٹ کا ہائیکورٹ کی جانب سے بھجوائی گئی تجاویز پبلک کرنے کا حکم

ملک میں بہت زیادہ تقسیم ہے، لوگ شاید عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتے، قاضی فائز عیسیٰ سابق چیف بھی کمیشن کا سربراہ بنے، ان پر بھی لوگوں نے دبائو ڈالا، میں اس عدالت کی ماضی کی تاریخ کا ذمہ دار نہیں ہوں، ریمارکس

منگل 30 اپریل 2024 13:53

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 اپریل2024ء) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے عدلیہ میں مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران ہائیکورٹ کی جانب سے بھجوائی گئی تجاویز پبلک کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ملک میں بہت زیادہ تقسیم ہے، لوگ شاید عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتے۔

منگل کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے دو صفحات پر مشتمل نوٹ میں بینچ میں شامل ہونے سے معذرت کر لی تھی۔

(جاری ہے)

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کمرہ عدالت میں کوئی کراس ٹاک نہ کرے، عدالتی وقار کا احترام کریں جس نے عدالت میں گفتگو کرنی ہے وہ کمرہ عدالت چھوڑ کر چلا جائے۔

انہوںنے کہاکہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ 184 تین کے تحت کیس کیسے لگایا گیا، کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ تمام موجود ججز پر بنچ تشکیل دیا جائے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کیس میں بیٹھنے سے معذرت کی اور وجوہات بھی دیں، گزشتہ سماعت پر فل کورٹ بنانے کا عندیہ دیا تھا تاہم 2 ججز موجود نہیں تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ملک میں بہت زیادہ تقسیم ہے، لوگ شاید عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتے، سابق چیف بھی کمیشن کا سربراہ بنے، ان پر بھی لوگوں نے دبائو ڈالا، میں اس عدالت کی ماضی کی تاریخ کا ذمہ دار نہیں ہوں۔

انہوںنے کہاکہ میں نے چیف جسٹس بننے کے بعد فل کورٹ بنائی، پارلیمنٹ کا شکر گزار ہوں جس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنائے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منصور اعوان سے مکالمہ کیا کہ آپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی سفارشات دیکھی ہیں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں ہائی کورٹ کی سفارشات ابھی نہیں دیکھیں۔چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ اب اس معاملے کو کیسے آگے چلائیں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل یہ سفارشات یا تجاویز نہیں بلکہ چارج شیٹ ہے۔

بعد ازاں اٹارنی جنرل نے عدالت میں ہائی کورٹ کی سفارشات پڑھ کر سنائی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ ہم نے ہائی کورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی، ماضی میں ہائی کورٹس کے کام میں مداخلت کے نتائج اچھے نہیں نکلے،جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کہہ رہے ہیں کہ مداخلت تسلسل کے ساتھ ہوتی ہے، کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویز متفقہ ہیں اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہاں بظاہر متفقہ نظر آرہی ہیںجسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ کسی جج نے اختلاف نہیں کیا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کی جانب سے بھجوائی گئی تجاویز پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب ہر چیز ہی میڈیا پر چل رہی ہے تو ہم بھی پبلک کر دیتے ہیں، انہوں نے دریافت کیا کہ کیا جو نکات بتائے گئے ان پر آئین کے مطابق ہائی کورٹ خود اقدامات نہیں کر سکتی اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے کہا کہ ہائیکورٹ بالکل اس پر خود اقدامات کر سکتی ہے ، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جسٹس اعجاز اسحق نے تجاویز کے ساتھ اضافی نوٹ بھی بھیجا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ جسٹس اعجاز کا اضافی نوٹ بھی پڑھیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون کون سے نکات ہیں جن پر ہائیکورٹ خود کارروائی نہیں کر سکتی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سب نکات پر خود ہائیکورٹ کارروائی کر سکتی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تو پھر کیا سپریم کورٹ ہائیکورٹس کو ہدایات دے سکتی ہی جسٹس اطہر من اللہ نے ریماکرس دیے کہ ہمیں ہائیکورٹ کی بھجوائی تجاویز کو سراہنا چاہیے، کوئی جواب نہیں ہو گا تو ججز بے خوف نہیں ہوں گے، ہمیں اس نکتے کو دیکھنا چاہیے جو ہائیکورٹ ججز اٹھا رہے ہیں، انہوں نے منصور اعوان کو ہدایت دی کہ آپ جسٹس اعجاز کا نوٹ پڑھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ہائیکورٹس کی تجاویز تک ہی محدود رہنا چاہیے ہر کسی کی بھیجی گئی چیزوں پر نہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل ججز کو سراہنے کے لیے اسے آن ریکارڈ پڑھ دیں۔بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ میں جب سے چیف جسٹس بنا ایک بھی مداخلت کا معاملہ میرے پاس نہیں آیا، ہم کسی صورت عدلیہ میں مداخلت نہیں کرنے دیں گے، جو ماضی میں ہوا سو ہوا اب ہمیں آگے بڑھنا ہو گا، ماتحت عدلیہ بارز کے صدور ججز کے چیمبر میں بیٹھتے ہیں، کیا یہ مداخلت نہیں اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک جج کی ذاتی معلومات سوشل میڈیا پر افشاں کی گئیں، ایک جج کے گرین کارڈ کا ایشو اٹھایا گیا۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ کے ججز کو چھوڑیں ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کا کیا جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2018 میں ہمارے اوپر تنقید ہوتی رہی لیکن ہم نے کبھی اس پر کچھ نہیں کہا، ججز کا ڈیٹا جو کہ حکومتی اداروں نادرا اور امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے وہ لیک ہو تو یہ درست نہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جج کو یہ کہنا کہ تمہارا بچہ کہاں پڑھتا ہے یہ صرف ایگزیکٹو کر سکتی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے بتایا کہ بینچ کے دو ممبران کو ٹارگٹ کیا گیا، ہم نے نوٹس لیا کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے، فیصلہ ایک نہیں دس دے دیں کیا ہو گا جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آج اس مسئلے کو حل نہ کیا تو بہت نقصان ہوگا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں