صحافیوں کو پیشہ وارانہ طور پر مضبوط ہونا چاہیے ، پیشے سے گہری وابستگی اور فرض شناسی انتہائی ضروری ہے، آر آئی یو جے کے زیر اہتمام منعقدہ ورکشاپ سے سینئر صحافی مظہر عباس کا خطاب

ہفتہ 11 مئی 2024 00:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 مئی2024ء) پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس(پی ایف یو جے) کے سابق سیکرٹری جنرل ، صحافی و تجزیہ نگار مظہر عباس نے کہا ہے کہ صحافیوں کو پیشہ وارانہ طور پر مضبوط ہونا چاہیے جبکہ اپنے پیشے سے گہری وابستگی اور فرض شناسی انتہائی ضروری ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس(آر آئی یو جے) کے زیر اہتمام نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں "صحافتی ٹریڈ یونینز کا زوال اور اسباب"کے موضوع پر منعقدہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ورکشاپ سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ، راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے صدر طارق علی ورک ،جنرل سیکرٹری آصف بشیر چوہدری نے بھی خطاب کیا جبکہ ورکشاپ میں صدر نیشنل پریس کلب اظہر جتوئی، سابق صدر نیشنل پریس کلب شکیل انجم، راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری فنانس ندیم چوہدری سمیت صحافیوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

مظہر عباس نے ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت ملک بھی چلتے ہیں اور تنظیمیں بھی چلتی ہیں۔ پی ایف یو جے نے صحافیوں کے حقوق کےلیے بے پناہ جدوجہد اور بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں ۔ آئین میں صحافی کی مکمل تعریف کی گئی ہے اور اسی آئین کے تحت آج تک پی ایف یوجے کی تنظیم موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو میڈیا مالکان اپنی طاقت سمجھیں انہیں کمزور کریں گے تو میڈیا ہائوسز کمزور ہوں گے ۔

میڈیا مالکان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ صحافی ہوں گے تو میڈیا ہائوس بھی چلیں گے ۔صحافی اور میڈیا ہائوس لازم و ملزوم ہیں۔ صحافیوں کو نظر انداز کرنے کی کوششیں خود میڈیا ہاؤسسز کےلیے نقصان دہ ہیں ۔ مظہر عباس نے کہا کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے کچھ عرصہ بعد تک پی ایف یو جے متحد رہی لیکن بعد میں تقسیم ہوگئی۔ چھٹے ویج بورڈ کا جب ہم کیس کررہے تھے تو پیرزادہ پی ایف یو جے کے وکیل تھے لیکن جب ساتویں ویج بورڈ کا کیس چلا تو پیرزادہ میڈیا مالکان کے وکیل تھے یہ افسوس ناک صورتحال تھی۔

اس وقت بہت زیرک اور متحرک صحافی راہنما موجود تھے جو دن رات صحافیوں کے حقوق کےلیے کام کرتے تھے ۔انھوں نے کہا کہ 1978کی تحریک میں ہمارے بہت سارے صحافیوں نے گرفتاریاں دیں اور جیلوں میں رہے۔ لیڈر شپ سب سے پہلے گرفتاریاں دیتی تھی۔ انڈر گراؤنڈ رہ کر تحریک کو منظم کیا گیا۔ نثار عثمانی نے جب گرفتاری دی تو گھر والوں کو نہیں بتایا کہ میں گرفتاری دینے جارہا ہوں ۔

انہوں نے قید بامشقت کاٹی اور وہ اتنے نحیف ہوچکے تھے کہ جب گھر گئےتو صرف انکی بیگم ان کی آواز پہچان سکی تھیں۔ اس زمانے میں بہت عزم و ہمت کے ساتھ صحافیوں نےجیلیں کاٹیں اور تکالیف برداشت کیں ۔ ایبٹ آباد کے سینئیر صحافی علی احمد خان کا سارا خاندان بنگلہ دیش نامنظور تحریک میں شہید ہوگیا تھا۔ وہ بہت زبردست زمانہ تھا ۔ انھوں نے کہا کہ یہاں کوئی موروثی سیاست نہیں تھی ۔

ہردو سال بعد الیکشن ہوتے اور کوئی آدمی خواہش کا اظہار نہیں کرتا تھا کہ میں امیدوار ہوں ۔ اس سے بہت ساری خرابیوں سے بچ جاتے تھے۔ مظہر عباس نے کہا کہ دو سال کے بعد الیکشن میں نئے لوگوں کو سامنے لائیں ، تنظیمی تجربے کےلیے کافی عرصہ تنظیموں میں نیچے رہ کر کام کریں تاکہ تجربہ حاصل ہوسکے۔ ہم نے طے کیا تھا کہ ایک ہی دن میں پورے پاکستان میں الیکشن ہوں۔

یونین کو اہمیت دینا ہوگی۔ پریس کلب کی وجہ سے یونین پر اثرات مرتب نہیں ہونے چاہیے ۔ پریس کلب کی اپنی حیثیت ہے اس کا سب کو ادراک ہونا چاہیے ۔ مظہر عباس نے کہا کہ آج پی ایف یو جے اور ار آئی یوجے کو قربانی دینے اور جدوجہد کرنے والے کارکنوں کی ضرورت ہے۔ آج چیلنجز بہت زیادہ ہیں ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کےلیے عزم و ہمت کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں