افغان عوام مشکلات میں ہے اور دنیا کو ان کی مدد کرنی چاہیے،معیدیوسف

ملکی سلامتی کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور پاکستان کی معاشی سکیورٹی بہت اہم ہے،وفاقی مشیر برائے قومی سلامتی

بدھ 22 ستمبر 2021 23:55

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 ستمبر2021ء) وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ افغان عوام مشکلات میں ہے اور دنیا کو ان کی مدد کرنی چاہیے،معاشی استحکام اور ملکی سلامتی کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور پاکستان کی معاشی سکیورٹی بہت اہم ہے، قومی سلامتی کا مقصد عوام کو معاشی طور پر مستحکم کرنا بھی ہے۔ بھارتی حکومت کی پالیسیاں خطے کے مفاد میں نہیں اور بھارت کا رویہ تمام پڑوسیوں کے ساتھ مناسب نہیں ہے،وہ بدھ کو مقامی ہوٹل میں انگلش اسپیکنگ یونین کے زیر اہتمام پاکستان فیوچر ڈائریکشن کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کررہے تھے،اس موقع پر صدر انگلش اسپیکنگ یونین عزیز میمن ،سینئر نائب صدر کلیم فارقی ،سیکرٹری جنرل مجید عزیز ودیگر نے بھی خطاب کیا،سیمینار میں ممبران سمیت امریکہ ،جاپان ،ایران،روس ودیگر ممالک کے سفارتکاروں نے شرکت کی ،معید یوسف نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑی، پاکستان کی خطے میں اہم لوکیشن ہے ہمیں اس بات کا فائدہ اٹھانا چاہیے، ہمیں اپنی اہمیت سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

(جاری ہے)

پاکستان اور خطے میں امن بہت ضروری ہے، ہمیں وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ رابطے کے فروغ کی ضرورت ہے، پاک چین اقتصادی راہداری سے علاقائی روابط کے فروغ میں مدد ملے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان مشکلات میں ہے اور دنیا کو افغانستان کی مدد کرنی چاہیے، اگر افغانستان میں امن نہیں رہیگا تو اس کا اثر صرف پاکستان پر نہیں بلکہ پوری دنیا پر پڑے گا۔

بھارتی حکومت کی پالیسیاں خطے کے مفاد میں نہیں ہیں۔ پڑوسی ممالک سے برتاو کی وجہ سے بھارت پورے خطے کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے۔ معاشی استحکام اور ملکی سلامتی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ پڑوسی ممالک سے برتاو کی وجہ سے بھارت پورے خطے کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے اور دنیا جتنی جلدی آنکھیں کھول لے گی انہیں اس کا اندازہ ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہماری تمام قیادت مستقل پاکستان کی سوچ کی جیو پولیٹیکل سے جیو اکنامک منطرنامے کی جانب منتقلی کی بات کرتی ہے جو دراصل ہماری سوچ میں تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے۔

ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم اپنے اس جغرافیائی محل وقوع کو جیوپولیٹیکل سے جیو اکنامک محل وقوع کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں جس کے تین ستون ہیں جس میں پہلا کنیکٹیویٹی ہے، ہم جس جگہ بیٹھے ہیں وہاں سے ہم جنوب، شمال، مغربی دنیا اور مشرق سے خود کو مربوط رکھ سکتے ہیں اور پھر ہم اپنے اس محل وقوع کو استعمال کر سکتے ہیں۔مشیر برائے قومی سلامتی نے کہا کہ اسی طرح سی پیک بھی اہمیت کا حامل ہے اور اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ چین کو ان کی عالمی تجارت کے لیے ہمارے گرم پانیوں سے منسلک کرنا ہے اور پاکستان ٹرانزٹ کا علاقہ بن گیا ہے، سی پیک کے حوالے کافی باتیں کی گئیں لیکن اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ انفرااسٹرکچر بنانا، توانائی کا حصول اور پاکستان سے ٹرانزٹ بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسرا اہم ستون دنیا سے شراکت داریاں قائم کرنا ہے۔ ان سب کے لیے ہمیں ملک میں بھی کافی کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کم مزاحمت ہو گی، وہاں سرمایہ کار آئے گا اور ہمیں کوشش کرنی ہے کہ ہم اس پہلو میں بہتری لا سکیں۔انہوں نے کہا کہ ابتدائی دونوں پہلو اس وقت ممکن نہیں ہو سکتے جب تک ہم تیسرے ستون پر کام نہیں کرتے اور وہ اندرونی اور علاقائی امن و سلامتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں کی جا رہی ہیں۔

دہشت گردی کے انسداد کے لیے 2007 سے اب تک پاکستان کی کاوشیں سب کے سامنے ہیں اور علاقائی طور پر افغانستان سب سے بہترین مثال ہے بلکہ حتی کہ کے بھارت کی بھی مثال ہے کیونکہ ہم نے ان سے بات کرنے کی کوشش کی تھی کہ ہم کس طرح سے تعلقات میں پیشرفت کر سکتے ہیں لیکن بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے اور وہ جس راہ پر گامزن ہیں وہ بہت مایوس کن ہے۔انہوں نے کہا کہ آپ نے وسط ایشیا کی جانب ہماری تیزی سے منتقلی کے عمل کا مشاہدہ کیا ہو گا، وزیر اعظم نے اس خطے میں تین سے چار اہم دورے بھی کیے ہیں کیونکہ وسط ایشیا گرم پانیوں سے ہوتا ہوا افغانستان کے ذریعے ہم سے منسلک ہوتا ہے جو وسط ایشیا کے لیے معاشی لحاظ سے سب سے مو ثر راستہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح سی پیک بھی اہمیت کا حامل ہے اور اس کا مقصد چین کو ان کی عالمی تجارت کے لیے ہمارے گرم پانیوں سے منسلک کرنا ہے اور پاکستان ٹرانزٹ کا علاقہ بن گیا ہے، سی پیک کے حوالے سے کافی باتیں کی گئیں لیکن اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ انفرا اسٹرکچر بنانا، توانائی کا حصول اور پاکستان سے ٹرانزٹ بنانا ہے۔معید یوسف نے کہا کہ ہم اس رابطے کو مغرب تک بھی توسیع دے سکتے ہیں لیکن بھارت میں حکومت کے رویے اور صورتحال کے باعث یہ راستہ بند ہو گیا ہے، مذکورہ حکومت کی ہندوتوا سوچ کے باعث ان کے ساتھ بات چیت کی گنجائش بہت کم رہ جاتی ہے لیکن یہ راستہ بھی آگے جا کر کبھی نہ کبھی کھل جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسرا اہم ستون دنیا سے شراکت داریاں قائم کرنا ہے لیکن اس کا مطلب امداد نہیں ہے بلکہ اہم چیز یہ ہے کہ ہم ایکسپورٹ، تجارت، سرمایہ کاری، ایف بی آئی اور دیگر اہم چیزوں میں کس طرح سے پارٹنر شپ کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان سب کے لیے ہمیں ملک میں بھی کافی کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کم مزاحمت ہو گی، وہاں سرمایہ کار آئے گا اور ہمیں کوشش کرنی ہے کہ ہم اس پہلو میں بہتری لا سکیں۔

مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ ابتدائی دونوں پہلو اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتے جب تک ہم تیسرے ستون پر کام نہیں کرتے اور وہ اندرونی اور علاقائی امن و سلامتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں کی جا رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان اب اس تمام صورتحال کا مرکز ہے کیونکہ جب تک افغانستان میں استحکام نہیں ہو گا تو آپ ایک مربوط راہداری کیسے بنا سکیں گے جو وسط ایشیا کو ہمارے گرم پانیوں سے منسلک کر سکے لہذا افغانستان بہت اہمیت کا حامل ہے۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں