خواجہ سرا بچوں کیلئے قائم تحفظ درسگاہ میں داخلوں کے حوالے سے رجسٹریشن کا عمل جاری ہے، کوآرڈنیٹر حمزہ عتیق

پیر 29 اپریل 2024 22:47

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 29 اپریل2024ء) خواجہ سرا بچوں کے لئے قائم تحفظ درسگاہ میں داخلوں کے حوالے سے رجسٹریشن کا عمل جاری ہے،خواجہ سرا بچوں کو یہاں پرائمری سے او لیول تک تعلیم کے ساتھ مختلف ہنر بھی سکھائے جائیں گے جبکہ خواجہ سرا بچوں کو مفت رہائش بھی فراہم کی جائیگی،تحفظ درسگاہ برطانوی کریکلم اینڈ ایکریڈیشن بورڈ (یو کے کیب) نے پنجاب پولیس کی معاونت سے قائم کی ہے۔

یوکے کیب کے نمائندے اور تحفظ درسگاہ کے کوآرڈنیٹر حمزہ عتیق نے یہاں ''اے پی پی'' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تحفظ درسگاہ بنیادی طور پر ان خواجہ سرا بچوں کے لئے ہے جنہیں ان کے خاندان قبول نہیں کرتے،اس درسگاہ میں تین بلاک بنائے گئے ہیں،ایک بلاک میں سکول ہے،دوسرے میں ووکیشنل سنٹر اور تیسرے بلاک میں ہاسٹل بنایا گیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے توقع ظاہر کی کہ تحفظ درسگاہ ٹرانس کمیونٹی کے لیے تاریخی منصوبہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ گھر سے دور گھریلو خوبصورت مرکز ہے،یہاں پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے طلبا کے لئے بورڈنگ اور ٹریننگ کی سہولت ہے،تحفظ درسگاہ مرکز میں8 سے 18سال کی عمر کے خواجہ سرا بچوں کا اندراج کیا جا رہا ہے،تحفظ درسگاہ کا یہ منصوبہ پنجاب پولیس کے تعاون کا نتیجہ ہے جس نے مرکز کے لیے زمین فراہم کی،انہیں اے اور او لیول کی تعلیم دی جائیگی،درسگاہ میں جو اساتذہ منتخب کئے گئے ہیں ان میں ٹرانس جینڈر بھی شامل ہیں جو اپنی کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لئے طویل عرصہ سے جدوجہد کر رہے ہیں،ان کی خدمات بطور والینٹئرز حاصل کی گئی ہیں،تحفظ درسگاہ میں داخلہ کیلئے ان بچوں کے والدین کو اس بات پرآمادہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کو ٹرانس جینڈر کے اس سپیشل سکول میں داخل کروائیں۔

حمزہ عتیق کا مزید کہنا تھا کہ جب تک خواجہ سرا کی بچپن سے ہی تعلیم و تربیت نہیں کی جائیگی اس وقت تک خواجہ سرا کے روایتی گورو،چیلے سسٹم کو ختم نہیں کیا جاسکتا،ہم ان بچوں کو محفوظ ماحول فراہم کریں گے،وہ بچے ماہر اساتذہ سے آکسفورڈ سلیبس کے مطابق تعلیم حاصل کرسکیں گے اور سب سے بڑھ کر انہیں پنجاب پولیس کی سپورٹ حاصل ہوگی،کسی خواجہ سرا گورو کی جرات نہیں ہوگی کہ وہ کسی خواجہ سرا بچے کو اپنا چیلابنا سکے۔

انہوں نے کہا کہ جب یہ بچے آزادانہ ماحول میں پروان چڑھیں گے تو معاشرے کے مفید شہری بنیں گے اور اپنی صلاحتیوں کے مطابق زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔اس پراجیکٹ میں بطور والنٹیئرکام کرنیوالی زعنائیہ چوہدری جو پنجاب پولیس کے خدمت مرکز میں بطورکسٹمر سپورٹ آفیسر خدمات سرانجام دے رہی ہیں نے''اے پی پی'' سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ منتظمین کو یہ تجویز دی تھی کہ18 سال تک عمر کی حد ختم کرکے زیادہ بڑی عمر کے خواجہ سرائوں کو بھی داخل کرنے کی پالیسی بنائی جائے۔

انہوں نے کہا وہ کمیونٹی ممبران کی مدد سے خواجہ سرا بچوں کو تلاش کر رہی ہیں،بعض فیملیز سے رابطہ ہوا ہے ان کو اس بات پرآمادہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سکول میں داخل کروائیں۔زعنائیہ چوہدری کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ ٹرانس جینڈر بچوں کے لئے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت رکھی کی جائے کیونکہ یہ سکول ایسے علاقہ میں بنایا گیا ہے جو شہر سے کافی دور ہے جبکہ اس علاقہ میں خواجہ سرا کمیونٹی بھی نہیں ہے تاہم انتظامیہ سمجھتی ہے کہ یہاں چونکہ بچوں کے لئے ہاسٹل بھی بنایا گیا ہے تو اس لئے پک اینڈ ڈراپ کا مسئلہ نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ سب سے اہم ٹارگٹ بچوں کی رجسٹریشن ہے،خواجہ سرا نگاہیں کہتی ہیں کہ خواجہ سرا بچوں کو ہاسٹل میں رکھنا کافی مشکل ہوگا ، کسی گورو کے ساتھ رہنے والے ٹرانس جینڈر بچے کو اس کی رضا مندی کے بغیر سکول میں داخل نہیں کیا جا سکتا جبکہ ٹرانس جینڈر بچے اپنے گورو کو چھوڑنے پر جلدی آمادہ نہیں ہوں گے۔محکمہ پولیس کی معاونت سے لاہور میں ٹرانس جینڈرز کے لئے یہ پہلا سکول ہے۔

متعلقہ عنوان :

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں