اے این پی کا ضم اضلاع انتظام فوری طور پر سول انتظامیہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ

100ارب روپے سالانہ دینے کے وعدے کے مطابق ابھی تک ایک روپیہ نہیں دیا گیا، ایمل ولی خان مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں وزیراعلیٰ نے بجلی رائلٹی بارے بات تک نہیں کی،مرکز کے ذمے صرف بجلی کی مد میں 550ارب روپے واجب الادا ہے، فوری طور پر ادا کئے جائیں،اٹھارہویں آئینی ترمیم کو چھیڑا گیا تو وہی بات دہراتے ہیں کہ احتجاج کا میدان لیاقت باغ ہوگا،شیخوپورہ حادثے میں مرنے والے سکھ برادری کے لواحقین کیلئے پیکج کا اعلان کیا جائے،صوبائی صدر عوامی نیشنل پارٹی

پیر 6 جولائی 2020 22:31

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 جولائی2020ء) عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ ضم اضلاع خیبرپختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں لیکن ابھی بھی وہاں انتظام سول انتظامیہ کے حوالے نہیں کیا گیا ہے اور مطالبہ کیا کہ فوری طور پر ان اضلاع کا انتظام سول انتظامیہ کے حوالے کیا جائے۔ باچاخان مرکز پشاور میں صوبائی کابینہ کے اجلاس کے بعدمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایمل ولی خان نے کہا کہ ہر جگہ ترقیاتی کاموں کا اختیار منتخب نمائندوں کے پاس ہوتا ہے لیکن ضم اضلاع میں انہیں یہ اختیار نہیں دیا جارہا۔

اسکے ساتھ ساتھ 100ارب روپے سالانہ دینے کا وعدہ صرف وعدہ ہی رہا ہے، ابھی تک اس ضمن میں ایک روپیہ تک فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ترقیاتی منصوبوں کا اختیار ضم اضلاع کے منتخب نمائندوں کو دی جائے۔

(جاری ہے)

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے کہا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم پر بحث صدرمملکت کا دائرہ اختیار نہیں۔

اس حکومت کو جب سے اقتدار دیا گیا ہے، اٹھارہویں آئینی ترمیم کے خلاف سازشیں شروع ہوچکی ہیں لیکن ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر اس ترمیم کو چھیڑا گیا تو پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ احتجاج کا میدان راولپنڈی کا لیاقت باغ ہوگا۔ انہوں نے یکساں نصاب و نظام تعلیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ ہے لیکن وفاق یکساں نصاب تعلیم نافذ کرنے کے غیرآئینی اقدامات اٹھانے کا سوچ رہی ہے جسے ہر گزبرداشت نہیں کیا جائیگا۔

صوبائی حقوق پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ اس صوبے کی بدقسمتی یہ ہے کہ موجودہ حکومت مرکز سے اپنا حصہ اور حق مانگنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ مرکز کے ذمے اس وقت صرف بجلی رائلٹی کے مد میں 550ارب روپے واجب الادا ہے لیکن ایک روپیہ ادا نہیں کیا جارہا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب اگر اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے خیبرپختونخوا کو گندم فراہمی روک سکتی ہے تو بجلی کا پیداواری صوبہ ہونے کے ناطے خیبرپختونخوا کا حق ہے کہ وہ پہلے اپنی ضرورت پوری کرے اور اگر زیادہ ہو تو دوسرے صوبوں کو دے۔

انہوں نے کہا کہ ڈیڑھ روپے فی یونٹ بجلی پیدا کرنیوالے صوبے کو اپنی بجلی 18اور 20روپے میں فروخت کی جارہی ہے جبکہ ناروا لوڈشیڈنگ نے عوام کا جینا مشکل کردیا ہے۔ کورونا وبا اور تعلیمی اداروں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ تعلیمی نظام بند پڑا ہے، ایس او پیز کے تحت اگر بازار، دفاتر کھل سکتے ہیں تو تعلیمی ادارے کیوں نہیں تعلیمی اداروں کو فوری طور پر ایس او پیز کے ساتھ کھول دیا جائے۔

ضم اضلاع کو ابھی تک انٹرنٹ سہولت تو کیا موبائل سروس بھی فراہم نہیں کی جارہی، ایسے حالات میں حکومت کس طرح آن لائن کلاسز کی بات کرسکتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ضم اضلاع کے طلبہ و طالبات کیلئے فوری طور پر انٹرنٹ سروس فراہم کی جائے۔ ضم اضلاع میں سیکیورٹی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ایمل ولی خان نے کہا کہ صوبہ بھر میں ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے اور ہم پہلے ہی متنبہ کرچکے ہیں کہ دہشتگرد ایک بار پھر منظم ہورہے ہیں، ایک سی ایس پی آفیسر کو مارا جاتا ہے لیکن ان کے قاتلوں کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔

انتظامیہ کہاں ہی انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اس بار آگ لگی تو گھر کسی کا نہیں بچے گا لیکن اس بار آگ لگانے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جائیگی۔انہوں نے شیخوپورہ ٹرین حادثے میں مرنے والے سکھ برادری کے لواحقین کیلئے حکومت سے پیکج کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سکھ برادری اس ملک کا حصہ ہے ۔ انکے لئے نہ صرف پیکج کا اعلان کیا جائے بلکہ شمشان گھاٹ کا بندوبست بھی کیا جائے۔

پشاور میں شائع ہونے والی مزید خبریں