باڈی بلڈنگ ریسلنگ اور دیگر کھیلوں کے بعد کرکٹ بھی ڈوپنگ کی لپیٹ میں آگئی

منگل 17 اکتوبر 2006 15:37

اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین17اکتوبر2006) پاکستانی فاسٹ بالروں شعیب اختر اور محمد آصف کے ممنوعہ ادویات کے ٹیسٹ پازیٹو آنے کی خبر نے کرکٹ کی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستانی فاسٹ بالر 2003ء میں ممنوعہ ادویات کے استعمال پر شین وارن پر پابندی لگائے جانے کے بعد سے ڈوپنگ تنازعہ کی لپیٹ میں آنے والے سب سے اہم کھلاڑی ہیں۔کرکٹ کی دنیا سے منسلک کچھ عناصر اس بات پر شک کا اظہار کر رہے ہیں ایک کرکٹر جان بوجھ کر کارکردگی بڑھانے والی ادویات کا استعمال کرے گا کیونکہ کرکٹ کے میدان میں بین الاقوامی سطع پر نام کمانے کے لیے صرف طاقت کی ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی پیچیدہ صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

برطانیہ میں ہر سال ہونے والے ڈوپنگ ٹیسٹوں کے نتائج سے اس بات کی ہرگز نشاندہی نہیں کرتی کہ ممنوعہ ادویات کا استعمال کرکٹ کے میدان میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔

(جاری ہے)

گزشتہ تین سال میں برطانیہ میں صرف تین کرکٹ کھلاڑیوں پر ممنوعہ ادویات کے استعمال کا الزام ثابت ہوا ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں ہی کھلاڑیوں نے فرحت بخش یا پر تفریحی مقاصد کے لیے مخصوص ادویات کا استعمال کیا تھا۔

مثال کے طور پر کیتھ پائپر پر حشیش کے استعمال کی بنا پر پابندی لگائی گئی جبکہ عاصم بٹ پر ایکسٹسی اور گراہم ویگ پر کوکین کا استعمال ثابت ہوا تھا۔تاہم ایک کرکٹر کے لیے نینڈرولون کے استعمال کے بڑے جواز ہو سکتے ہیں۔ برطانیہ میں ڈوپنگ معاملوں کے ایک بڑے ماہر پروفیسر رون موہن اس کی وضاحت کچھ یوں کرتے ہیں-نینڈرولون ایک اینابولِک سٹیرائڈ ہے۔

یہ پٹھوں کو بناتا ہے اور ان کی مرمت کرتا ہے۔ یہ کسی شخص کے جوش و خروش میں اضافے کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ایک فاسٹ بالر کو نینڈرولون استعمال کرنے کے بہت فائدے ہوتے ہیں۔ وہ زیادہ تیز بالنگ کر سکتا ہے اور زخمی ہونے کی صورت میں اس کے پٹھے زیادہ تیزی سے بنتے ہیں اور وہ جلد تندرست ہو جاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں اگرچہ نینڈرولون ایک فاسٹ بالر کو جادوئی طریقے سے ریورس سوئنگ کرانے کے قابل نہیں بناتا، نہ اس کی لائن لینتھ کو ایک دم زبردست کر دیتا ہے لیکن یہ اسے زیادہ دیر تک پریکٹس کرنے اور اس کا بالنگ کو زیادہ تیز اور خطرناک بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔

یہ زخمی ہونے کی صورت میں ان کی جلد صحت یابی میں بھی مدد دے سکتی ہے۔شعیب اختر اور محمد آصف دونوں ہی زخمی ہونے کے بعد کچھ عرصہ کھیل سے باہر رہے ہیں اور حال ہی میں کھیل میں واپس آئے ہیں۔شاید اسی لیے آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹو میلکم سپیڈ نے کہا ہے کہ عام طور پر کرکٹ کو ایک نسبتاً کم خطرناک کھیل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن کرکٹ کو ہمیشہ ہی ایسے کھلاڑیوں سے خطرہ رہا ہے جو انجری کے مسائل سے جلد چھٹکارہ پانے کے لیے کوئی ایسی دوائی کھا لیتا ہے جو اسے نقصان پہنچاتی ہے۔

نینڈرولون دوسری ممنوعہ ڈوپنگ پراڈکٹس کے اس لیے مختلف ہے کہ اسے نادانستہ طور پر کھایا جا سکتا ہے۔جیسا کہ پروفیسر رون موہن کی ریسرچ نے ثابت کیا ہے، اس کے ذرات کئی قانونی طور پر جائز دواوٴں اور پروٹین پاوٴڈروں میں ہو سکتے ہیں۔اس لیے شعیب اختر اور محمد آصف یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ نینڈرولون نادانستہ طور پر کسی ایسی گولی کے ذریعے ان کے جسم میں چلی گئی جسے وہ کسی بھی ممنوعہ مواد سے پاک سمجھتے تھے یا یہ کہ انہیں یہ گولی کسی ٹیم آفیشل نے دی تھی۔

لیکن اگر پاکستان کرکٹ بورڈ آئی سی سی کے قوائد وضوابط پر سختی سے کاربند رہے تو یہ دونوں دلائل غیر موثر ہوجاتے ہیں۔ عالمی اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کے کوڈ سے ماخوذ آئی سی سی ریگولیشنز کے تحت جرم یہ ہے کہ آپ کا یورین سیمپل مثبت آیا ہے، یہ نہیں کہ آپ نے جان بوجھ کر ممنوعہ دوائی استعمال کی تھی۔اس مرحلے پر شعیب اور محمد آصف میں سے کوئی بھی ڈرگ ٹیسٹ میں فیل نہیں ہوا۔

جب تک بی سیمپل ٹیسٹ نہیں ہو جاتے اور اے سیمپل کے نتائج کی تصدیق نہیں کر دیتے، دونوں ہی تیکنیکی طور پر بے قصور ہیں۔حالیہ دنوں میں کئی مرتبہ ایسا ہو چکا ہے کہ اے سیمپل پازیٹو آیا ہو لیکن بی سیمپل نے اس کے نتائج کی تصدیق نہ کی ہو یا نیگیٹو آیا ہو۔ جیسا کہ ماریون جونز کے کیس میں ہوا تھا جب ان کے بی سیمپل میں ای پی او کے وہ ذرات نہیں ملے تھے ان کے اے سیمپل میں پائے گئے تھے۔

لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ نینڈرولون ای پی اور نہیں ہے جس میں چند حالات میں غلط طور پر پازیٹو نتیجہ دینے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کبھی بھی انینڈرولون میں ایسا بی سیمپل سامنے آیا ہو جس نے اے سیمپل کے نتائج کی تصدیق نہ کی ہو۔ہم یہ مفروضہ قائم کر سکتے ہیں کہ ایسا ہی ہونے کی توقع ہے۔دونوں کھلاڑیوں کی سب سے بڑی امید یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ان سے رعایت کرے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدے دار سلیم الطاف نے عندیہ دیا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر آئی سی سی ریگولیشنز کی پابندی کریں گے۔ در حقیقت پی سی بی کے پاس اپنا کوئی سرکاری ڈوپنگ کوڈ موجود نہیں ہے۔ یہ بات پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے اس بات کو ممکن بنا سکتی ہے کہ وہ دونوں کھلاڑیوں کے خلاف آئی سی سی کی لازمی دوسالہ پابندی سے کم سزا پر اکتفا کرے۔
وقت اشاعت : 17/10/2006 - 15:37:03

مزید متعلقہ خبریں پڑھئیے‎ :

متعلقہ عنوان :