Episode 18 - Uran By Prof.Muhammad Yaseen

قسط نمبر 18 - اُڑان - پروفیسر محمد یاسین

 ایک دن میں کام میں مصروف تھا کہ پروفیسر صاحب میرے پاس آئے ۔ویسے تو اکثر وہ میرے پاس آتے تھے لیکن اس دن ان کا انداز مختلف تھا۔ ۔۔ان کے ہاتھ میں ایک قاعد ہ تھا۔ کچھ دیر خاموش کھڑے اس کے ورق آ گے پیچھے کرتے رہے ۔۔۔ میں اپنے کام سے انہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔اچانک وہ بولے:
 "رفیق میاں ،ادھر آؤ۔۔"
 میں کام چھوڑ کر ان کے پاس چلا گیا۔
" یہ میں تمہارے لئے لے کر آیا ہوں۔۔۔آپ کو یہ پڑھنا ہے۔"
"پر ۔۔۔ سر، میری عمر دیکھیں۔۔"
"رفیق میاں ،پڑھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ "پروفیسر صاحب نے کہا۔
" پر ۔۔۔سر ،میں نے پڑھ کر اب کیا کرنا ہے"۔میں نے پروفیسر صاحب سے کہا۔

(جاری ہے)

"پگلے۔
۔۔تمہیں زندگی مل جائے گی!۔۔۔چھوڑ فضول باتیں۔۔۔ادھر آ۔میرے ساتھ۔"
وہ مجھے اپنے گھر کے اندرلے گئے۔۔۔ہاتھ دھلوائے۔۔۔اور بیٹھک میں اپنے ساتھ ہاتھ پکڑ کر لے گئے۔۔۔میں بہت شرمارہا تھا۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولے:
"رفیق میاں۔۔۔دیکھو!۔۔۔ کوئی کام بھی معمولی یا حقیر نہیں ہوتا،جوشوق اور جذبے سے کیا جائے۔
۔۔اور تم تو پڑھنے جا رہے ہو بھئی!۔۔۔علم تو پیغمبروں کی میراث ہے ی"
میں ان سے روزانہ دو سطریں سیکھتا تھا۔۔۔اس طرح میرا وہ قاعدہ ،زندگی کے سنہرے اصول، میری زندگی بن گئی۔۔۔ مجھے وہ قاعدہ مکمل ازبر ہے ۔اب مجھے پروفیسر صاحب کے اس جملے کی اہمیت اور گہرائی کا پتہ چلتا ہے "پگلے۔۔۔! تمہیں زندگی مل جائے گی!۔۔۔ "واقعی مجھے زندگی مل گئی۔
۔۔“
 " واہ !۔۔۔ابا جان۔۔۔وہ تو بہت اچھے آدمی تھے "بیٹے نے انسپائر ہوتے ہوئے کہا
 "ہا ں بیٹا!۔۔۔وہ بہت بڑے انسان تھے۔مجھے انہوں نے زندگی بخش دی"
 "بیٹا !۔۔۔میری خواہش ہے کہ تم بھی بڑے آدمی بنو۔ "باپ نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔
 "جی۔۔۔ میں بڑا آدمی بننے کے لئے جدوجہد کروں گا "بیٹے نے اثبات میں سر ہلایا۔
 اب باپ نے کام کرنا شروع کردیا۔
لڑکا کام کرتے ہوئے اپنے والد کو دیکھ رہا تھا۔۔۔اس طرح وہ کام سیکھ رہا تھا۔۔۔کل اسے یہ کام خود کرنا تھا۔
شاید۔۔۔ لڑکا آج سوچ کی وادیوں میں کھو چکا ہواورسوالات کا نہ ختم ہونے والا لامتناہی سلسلہ اس کے دماغ میں موجزن ہو:
"یہ تو وہی جگہ ہے جہاں سے کبھی اسے نکالا گیا تھا۔۔۔!"
"جہاں اس کے ساتھ ایک لڑکی کھیلنے آئی تھی۔
۔۔!"
"امی نے تو کہا تھا کہ آپ کے ابا نے بنگلے کا کام چھوڑ دیا ہے۔۔۔!!!"
"کیا امی نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا۔ !؟ 
یا ۔ ۔۔
ابا جان نے یہاں کام دوبارہ شروع کیا ہے۔۔۔ ! ؟"
 لڑکے کے سوا ،ان سوالات کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔یہ بھی لڑکے کے دل تک محدود تھاکہ ۔
۔۔کیا اب اسے اس لڑکی سے ملنے کی حسرت و یاس تھی۔۔۔؟ یا ،پھروہ ان ساری باتوں سے بے نیاز تھا۔۔۔؟
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 اس کی چھٹیاں ختم ہونے کو تھیں۔۔۔دو یا تین دن باقی تھے۔
سبھی کھانا کھا چکے تو، لڑکے کے والد نے اس سے پوچھا: 
"تمہیں کام کیسا لگا ۔۔۔؟"
"کچھ مشکل نہیں۔
۔۔!"بیٹے نے جواب دیا
 "کام کرتے وقت تمہیں عار تو محسوس نہیں ہوئی۔۔۔؟"
"آپ نے ہی تو کہا تھا کہ کوئی کام بھی معمولی یا حقیر نہیں ہوتا،جوشوق اور جذبے سے کیا جائے"
"ہاں بیٹا ۔۔۔پروفیسر صاحب مجھے یہی کہا کرتے تھے۔۔۔"
"آ پ نے کبھی ان سے پوچھا کہ وہ آپ پر اتنے مہربان کیوں تھے۔
۔۔؟"
"پوچھا تھا۔۔۔"
"کیا کہا انہوں نے۔۔۔"
کہنے لگے۔۔۔رفیق میاں ہر سوال کے اندر اس کا جواب پوشیدہ ہوتا ہے اور اس میں ایک بھید چھپا ہوتا ہے۔ اس بھیدکے کھلنے کا ایک وقت ہوتا ہے ۔۔۔اور وقت آنے پر تمہیں پتہ چل جا ئے گا۔۔۔اور وہی صحیح سمے ہوگا بات سمجھنے کا۔
۔۔!!
اور ہاں سنو۔۔
 بیٹا ! تم بڑے ہوگئے ہو۔۔۔میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں "
"جی۔"بیٹے نے کہا
"بیٹا ۔۔۔میرے پھیپھڑے زیادہ مضبوط نہیں رہے۔۔۔میں زیادہ مشقت نہیں کر سکتا۔۔۔ سانس پھولنے لگتی ہے ۔۔۔ مجھے ٹی بی ہے ۔۔۔تمہیں میرے کام میں میری مدد کرنا 
ہو گی۔
۔۔"
"ابا جان!۔۔۔آپ فکر نہ کریں" 
 بیٹا ۔۔۔! فکر تو ہے۔۔۔تمہاری پڑھائی کا نقصان ہوگا۔"
 "میں دل لگا کر پڑھوں گا۔"بیٹے نے باپ سے عہد کیا ۔
"شاباش ۔۔۔!"باپ نے بیٹے کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا۔
لڑکے کا دھیان جب امی پر پڑا تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
۔۔ 
 "امی۔۔۔!، آپ رو رہی ہیں؟"
جیسا کہ ماؤ ں کو پریشانی اور غم چھپانے کی عادت ہوتی ہے ، ماں نے پریشانی چھپانے کی بہت کوشش کی لیکن آنکھوں سے آنسو تو چھلک پڑے تھے۔۔۔ ماں نے فوراََ دوپٹے سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا ۔" بھلا ،میں کیوں روؤں گی۔۔۔؟" لیکن لہجے کی کپکپاہٹ ۔۔۔ غم کی ترجمانی کر رہی تھی۔۔۔
بیٹے نے امی کے آنسو پونچھتے ہوئے چھوٹے بچے کی آواز میں کہا:۔
۔۔"بہادر بچے روتے نہیں۔۔۔"
بیٹے کے اس جملے سے ماں مسکرا دی۔۔۔باپ کا چہرہ بھی شاداب ہوگیا۔
"بیٹا ! میں پریشان ہورہی تھی کہ میرے چھوٹے سے لال پر کتنی بڑی ذمہ داری آ پڑی ہے۔۔۔میرے بیٹے کی پڑھائی کا کیا ہوگا۔۔۔ ؟۔ بیٹا ! ماں ہوں نا۔۔۔ ! اور ماں کادل پسیج ہی جاتا ہے۔۔۔"
لڑکا وہاں سے اٹھا اور اپنے بیگ سے ایک کتاب نکال لایا۔
۔۔وہ اس کے پیج الٹنے لگا۔۔۔وہ اس میں سے کچھ ٹٹول رہا تھا۔ایک مخصوص پیج کھول کراس نے اپنی امی سے کہا:
پروفیسر ریاض الدین طور صاحب نے یہ کتاب دی تھی ،ابا جان کو ،اس میں لکھا ہے:
مشکلیں تو انسان کو سنوارنے آتی ہیں۔۔۔انسان جس قدر کٹھن راہوں سے گزرتا ہے۔وہ اسی قدر مضبوط ہوتا ہے۔ سونا آگ میں تپے بغیر کندن نہیں بن سکتا۔
۔۔جتنی ٹھوکریں زندگی کے سفر میں زیادہ ہوں گی کامیابی کے اتنے ہی نئے رستے تلاش ہوں گے۔"
"جیتے رہو بیٹا۔۔۔ "ماں نے دُعا دی۔ 
ابھی بھی ماں کی آنکھوں میں آنسو قبضہ جمائے ہوئے تھے۔ماں کی ممتا بہت کمزور ہوتی ہے۔۔۔آٹھویں کلاس کے لختِ جگر کو سکول کے ساتھ کام پر جاتے ہوئے دیکھ کر آنکھیں اشک بار ہو ہی جاتی ہیں۔
ماں تو ماں ہوتی ہے۔۔۔
ماں نے بیٹے کو سینے سے لگایا اور کافی دیرتک اسے اپنے بازوؤں میں چھپائے رکھا۔منہ میں دعائیں پڑھتی رہیں۔۔۔پھر بولیں:
"اے اللہ میرے اس چھوٹے سے لال کی مدد فرما۔۔۔آمین"
بیٹے نے امی کی بھیگی ہوئی آنکھیں اپنے ہاتھوں سے صاف کیں۔
اور کہا: "امی! مجھے چھوٹا بچہ نہ سمجھیں۔۔۔میں چھوٹا مرد ہوں ۔"یہ سن کر ماں مسکرا دی۔۔
لڑ کا اپنے ابا کے پاس گیا، جو یہ سب کچھ دیکھ کراپنی آنکھوں کی نمی روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔لڑکے نے اپنے ابا سے اپنا وعدہ دوہرایا کہ وہ پہلے سے زیادہ ذِمہ دار ی سے سکول کاہوم ورک کرے گا۔۔۔آپ پریشان نہ ہوں۔ 
 "جیتے رہو "باپ نے بیٹے کو دعا دی۔۔۔

Chapters / Baab of Uran By Prof.Muhammad Yaseen