Episode 22 - Uran By Prof.Muhammad Yaseen

قسط نمبر 22 - اُڑان - پروفیسر محمد یاسین

 ایک دن لڑکی نے اپنی امی کو اچھے موڈ میں دیکھتے ہوئے،موقع کا پورہ فائدہ اٹھانے کا سوچا، وہ کافی دنوں سے ایسے موقع کی تلاش میں بھی تھی ۔وہ اپنی امی سے بولی: "امی!۔۔۔سنا ہے۔۔۔۔آپ، میری شادی کر رہے ہیں؟"
"ہاں ۔۔۔بیٹا!۔۔۔بیٹیاں تو پرائی امانت ہوتی ہیں۔۔۔"
لڑکی نے ہمت اکٹھی کی۔۔۔اور پوچھا:"کہاں ،کر رہے ہیں۔
۔۔؟"
"لڑکا، وڑکا تو ۔۔۔ابھی نہیں دیکھا۔ بس ،آپ کے ابا فکر مند ہو رہے تھے"
"ابا فکر مند ہیں یا آپ۔۔۔؟"
"مائیں ہی زیادہ فکر مند ہوتی ہیں"اسکی ماں پھر بولی " بیٹا،آج کام کے لڑکے کونساآسانی سے ملتے ہیں"
اس بات سے لڑکی کو تھوڑی سی راحت ملی۔

(جاری ہے)

اس نے دل میں سوچا ۔"اللہ کرے نہ ہی ملے۔۔۔انہیں اچھا لڑکا"
لڑکی اپنی فیملی کے رسم ورواج سے مکمل آگاہ تھی ،لیکن اس کی اپنی سوچ مختلف تھی۔وہ جانتی تھی کہ بڑے گھروں کی خواتین جس قدر مادی اشیا میں گھری ہوتی ہیں اسی قدر وہ ان بے جان چیزوں میں رہنے پر مجبور بھی ہوتی ہیں۔۔۔
 خوبصورت سامان سے آراستہ ،یہ بڑے بڑے بنگلے ؛خوبصورت زنداں ۔
۔۔اپنے مکینوں کو کس قدر قید کئے ہوتے ہیں ؛اس حقیقت سے بھی وہ ،بخوبی آگاہ تھی۔۔۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لڑکا اکیڈمی سے اپنے گھر پہنچا۔باپ پہلے سے بیٹے کا ہی انتظار کر رہا تھا۔باپ بیٹے سے ،اپنی کانپتی ہوئی آواز میں،آہستگی سے کہہ رہا تھا:
'بیٹا!۔۔۔میں بہت خوش ہوں۔۔۔ میرا مقصد پورا ہوگیا ہے ۔
۔۔ قدرت نے مجھ پر خاص عنایت کی کہ اس نے مجھے جینے کی مہلت بخشی۔۔۔ ورنہ سانسیں تو کب کی پوری ہو گئی تھیں۔۔۔قدرت نے مجھے اضافی وقت،تمہاری خوشی کے لئے دیا۔۔۔پتہ نہیں میں کس لمحے تم سے جدا ہوجاؤں۔۔۔بیٹا! میں یہاں سے بہت خوش جاؤں گا۔۔۔"
بیٹا ،باپ کی باتیں سن کر غمگین ہوگیا۔۔۔
"بیٹا موت زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔
۔۔انسان کی تمنا پوری ہوجائے تو موت کا خوف ختم ہوجاتا ہے۔۔۔میرا زندگی کا مقصد،تمہیں تھے۔۔۔اور میرا مقصد پورا ہوگیا۔۔۔جینے کا جواز بھی تو مقصد کے پورا ہونے تک ہی ہوتاہے۔۔۔"
لڑکا دل میں سوچ رہا تھا۔"واقعی ،پروفیسر ریاض الدین صاحب نے ابا جان کو زندگی کے مقصد سے صحیح روشناس کروایا ہے۔۔۔انہوں نے مٹی کی اس مورتی میں روح پھونک دی۔
۔۔زمین آسمان ہوگئی۔۔۔! "
 لڑکا، باپ کی باتوں میں پرفیسر ریاض الدین صاحب کی انڈکشن induction))محسوس کرتا۔۔۔ باپ بھی بیٹے کو آج ہر اس راز سے واقف کر دینا چاہتا تھاجو وہ جانتا تھا۔ویسے بھی ہر باپ کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بیٹااس سے بہتر ہو۔۔۔ 
باپ، لڑکے کو وہ دولت جو پروفیسر صاحب نے عطا کی تھی ،کما حقہ ُ منتقل کر رہا تھا:
"حقیقی خوشی انسان کے اندر ہوتی ہے ۔
۔۔اس کی حفاظت کرنا۔۔۔اور یہ ۔۔۔ انسانیت کی خدمت سے ملتی ہے۔۔۔مستقبل کا خوف ،ہمیشہ اندر کی خوشی کو کم یا ختم کرنے میں مصروفِ عمل رہتا ہے ۔۔۔افسردگی کا سبب بنتا ہے۔۔۔تم مستقبل میں پڑے بغیر حال میں رہنا؛اپنا آج شاندار بنانا۔۔۔ کل خود بہترہو جائے گا۔۔۔
 بیٹا ،حال ہی مستقبل کی تعمیر کرتا ہے۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔
فکر مند رہنے سے مستقبل نہیں بنتا،صحت بگڑتی ہے؛مستقبل صرف حال پر عمارت تعمیر کرتا ہے۔
۔۔۔جتنا آج خوبصورت ہوگا ،کل اتنا ہی روشن ہوگا۔"
"عمل ہوگا۔۔۔حضورِوالا! "لڑکے نے انتہائی محبت اور عقیدت سے لبریز لہجے میں کہا۔
لڑکا اپنے باپ کی باتیں بہت توجہ سے سنتا رہا تھا ۔وہ خوش تھا کہ اس کے ابا نے اتنی قیمتی باتیں اس کے لئے سنبھال رکھی تھیں ۔۔۔وہ دل ہی دل میں پروفیسر صاحب کی عظمت کو بھی سلام کرتا ۔
 
"بیٹا ،یہ تمہارے پاس جو اتنی بڑی بڑی کتابیں ہیں۔۔۔تم پڑھ سکتے ہو ،جبکہ جو اسے نہیں پڑھ سکتااس کے لئے ،اس پر لکھے الفاظ ،ٹیڑھی میڑھی لکیریں ہی ہیں۔۔۔ جس طرح یہ کتابیں تم سمجھ سکتے ہو ،گویا یہ تم سے باتیں کرتی ہیں، تم ان سے یا وہ تم سے ہم کلام ہوتی ہیں ؛اس سے نہیں جو اسے پڑھ نہیں سکتا ۔۔۔عین اسی طرح آدمی جن چیزوں میں دھیان دیتا ،وہ اس سے ہمکلام ہوجاتی تھیں۔
۔۔میں نے زیادہ عمر پودوں کے ساتھ گزاری ہے۔میں نے ان سے باتیں کرنا سیکھا ہے ۔۔۔پودے بھی میرے سے باتیں کرتے تھے۔۔۔میں ان کی سنتا تھا وہ میری۔۔۔"
یاد رکھو!۔۔۔انسان کا شوق اسکا سب سے بڑا رہنما ہے۔۔۔جس طرح پانی کی اہمیت پیاس سے ہے۔کامیابی کا زینہ چاہت کی شدت کے احساس سے تکمیل پاتا ہے۔
بیٹا!۔
۔۔یہ سنہری اور قیمتی باتیں میری زندگی کی قیمتی متاع ہے۔۔۔میں نے ساری عمر ان پر عمل کیا ہے۔"
بیٹا باپ کی باتیں بڑی انہماک سے سن رہا تھا اور باپ کا من تھا کہ بیٹے کا دامن ان سنہری باتوں سے بھر دے۔۔۔
"بیٹا تم نے پوچھا تھا ناں کہ پروفیسر صاحب آپ پر اتنے مہربان کیوں تھے۔۔۔آج یہ بھید مجھ پر کُھلا ہے۔
۔۔ہر آدمی حریص ہوتا ہے اپنی قیمتی متاع کی حفاظت کے لئے۔۔۔پروفیسر صاحب بھی تھے۔۔۔اس کے لئے انہوں نے مجھے چنا تھا۔۔۔ انہیں یقین تھا کہ میں اس کی حفاظت کر سکوں گا۔۔۔ انہوں نے یہ سب کچھ مجھے تمہارے لیے دیا تھا۔۔۔میں نے اسے محفوظ کر لیا ہے تمہاری شکل میں۔۔۔" 
" " میں انہیں سے روشنی لوں گا۔۔۔انشااللہ "بیٹے نے اپنا عزم دہرایا
"اللہ تمہیں زندگی کے ہر امتحان میں کامیاب کرے۔
آمین"باپ نے بیٹے کو دعا دی
بیٹے نے بھی آمین کہا۔۔۔اورلڑکے کو اپنے باپ کی باتیں بہت دلچسپ لگیں ،اس کا دل نہیں بھر رہا تھا،اس نے اپنے ابا سے کہا؛"کوئی اور بات ۔۔۔"
" انسان اللہ کی تمام مخلوقات میں سب سے اعلیٰ درجے کی مخلوق ہے۔اگر یہ احساس ہمارے ساتھ رہے تو ہمارا ہر کام اعلیٰ وارفع ہوگا۔
۔۔""جی" بیٹے نے ادب سے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"امی !۔۔۔اس لڑکی کی شادی کا کیا بنا؟"
لڑکی نے ہمت کی کہ وہ اپنی امی سے لڑکے کی بات کرے گی۔۔ وہ اپنی امی سے بولی:
"امی!۔۔۔۔۔"
لڑکی اس سے زیادہ نہ بول سکی۔۔۔اب اسے پتہ چلا کہ اس طرح کی بات کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔
"بولو!۔۔۔کیا بات ہے؟"لڑکی کی ماں نے لڑکی سے کہا۔
"کچھ نہیں۔۔۔!"
"کہو!۔۔۔کیا کہنا ہے۔۔۔؟"
"کچھ نہیں۔۔۔!"
ماں نے بیٹی کو گود میں لٹایا،اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی۔۔۔ماں ،جان گئی تھی بیٹی کچھ کہنا چاہتی ہے مگر کہہ نہیں پا رہی ہے۔
۔۔
 مائیں انجان ہونے کے احساس کے اظہار کے ساتھ سب کچھ جانتی ہیں ۔۔۔ماں پھر بولی:
"بیٹا !۔۔۔جو دل میں ہے کہہ دو۔۔۔"
لڑکی نے ہمت کی اور کہا:
"امی!۔۔۔وہ لڑکا۔۔۔!"
"کون سا۔۔؟"
"امی!۔۔۔جس کا نام اخبار میں آیا ہے۔
۔۔"
"وہ ،مالی کا بیٹا۔۔۔؟؟؟"
 " جی۔۔۔امی " لڑکی نے گردن جھکائے شرماتے ہوئے کہا۔
"ناں بابا ناں۔۔۔! ہم اپنی لڑکیوں کی شادی برادری سے باہر ہرگزنہیں کرتے۔۔۔"
" لڑکوں کی کر لیتے ہیں ۔۔۔؟ "لڑکی نے پوچھا۔
"ہاں۔۔۔ کر لیتے ہیں"
"لڑکیوں کی نہیں۔
۔۔؟"
"نہیں۔۔۔"
"کیوں نہیں کرتے۔۔۔؟"
"ہمارے اپنے رسم و رواج ہیں۔۔۔برادری اس کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی۔۔۔"
" برادری چھوڑیں ۔۔۔بابا مان جائیں گے۔۔۔؟"
"کسی صورت نہیں مانیں گے۔"
"امی !۔
۔۔ بات کرکے تو دیکھیں!"
"نا بابا ،نا۔۔۔! میرے میں اتنی ہمت کہاں!!"
"بیٹی کی خاطر۔۔۔! "
 " اگر وہ ناراض ہو گئے تو۔۔۔؟"ماں نے خدشہ ظاہر کیا۔
 "امی میری خاطر۔۔۔!!"
 " بہت مشکل ہے۔۔۔"
 " آپ کو میری قسم۔"بیٹی نے ماں کو جذباتی ہوتے ہوئے کہا۔
"اچھا بھئی!۔۔۔کوشش کروں گی ۔۔۔"
 " میری اچھی امی " لڑکی نے امی کے گلے لگتے ہوئے کہا۔
موقع پاتے ہی لڑکی کی ماں نے،ملک صاحب سے بات کردی۔۔۔
 وہ خوفزدہ تھیں۔۔۔ملک صاحب ناراض ہو سکتے تھے۔
لیکن۔۔۔

Chapters / Baab of Uran By Prof.Muhammad Yaseen