Episode 17 - Uran By Prof.Muhammad Yaseen

قسط نمبر 17 - اُڑان - پروفیسر محمد یاسین

ابھی وہ کچھ اور کہنے لگی تھی کہ یکدم نوکرانی نے آکر اسے اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا، لڑکی نے اپنے آپ کو نوکرانی سے چھڑوانے کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن نوکرانی کی پکڑ بہت مضبوط تھی اور وہ اسے اٹھاکر بنگلے کی عمارت میں لے گئی۔ 
لڑکا یہ دیکھ کر خوف زدہ ہوگیا۔وہ افسردہ بھی ہوا ۔اتنا اچھا دوست اچانک آیا اور اسی طرح چلا گیا۔
لڑکے نے آج محسوس کیا:
" حسین لمحات مختصر ہوتے ہیں۔۔۔"
لڑکے کی سادگی اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی تھی۔۔۔ انسان کی حقیقی خوشی تو دل کے تابع ہے۔جن کے دل خوبصورت ہوتے ہیں وہی لوگ جاذبِ نظر ہوتے ہیں۔۔۔
لڑکا اداس تھا۔۔۔اسے تتلیاں بھی اچھی نہیں لگ رہی تھیں۔

(جاری ہے)

۔۔اس نے دیکھا کہ دو تتلیاں آگے پیچھے بھاگ رہی ہیں۔

۔۔وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا۔۔۔وہ دیکھ رہا تھا کہ اگلی تتلی اپنا رستہ بار بار بدل لیتی تھی اس طرح وہ پکڑی نہیں جا رہی تھی۔۔۔لڑکے کو لڑکی کی بات یاد آ گئی۔۔۔"میرے پاس ایک گیم ہے اس میں مکی ماؤس ۔۔۔اپنا رستہ بدل لیتا ہے تو ۔۔۔کیٹ سیدھی آگے چلی جاتی ہے۔۔۔ اور مکی ماؤس پکڑا نہیں جاتا ۔۔۔میں بھی ایسے ہی کروں گی۔"
"کل جب وہ آئے گی تو میں اسے ان تتلیوں والی بات بتاؤں گا۔
۔۔وہ بہت خوش ہوگی"لڑکے نے دل میں سوچا۔
ان تتلیوں نے اس کی لڑکے کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی تھی۔۔۔ وہ جلد ہی اُسی بے نیازی سے دوبارہ تتلیاں پکڑنے میں مشغول ہوگیا۔۔۔جس طرح وہ پکڑا کرتا تھا۔۔۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوکرانی نے مالکن سے لڑکے کی شکایت کر دی ۔۔۔۔
فیقے مالی کے بیٹے کی یہ حرکت مالکن کو اچھی نہ لگی کہ اس نے لڑکی کو کھیلنے پر کیوں اُکسایا۔
۔۔عمومی طور، پیرنٹس ،دوسروں کے بچوں کو ہی اپنے بچے کے بگڑنے کا سبب سمجھتے ہیں۔ اسی طرح بنگلے میں بھی یہی سوچ کار فرما تھی۔ لہٰذا ،نوکرانی کے مشورے پر ،فیصلہ یہ طے پایا کہ اس لڑکے کا بنگلے میں آنا مناسب نہیں۔نوکرانی نے،مالکن کی طرف سے،فیقے مالی کو وارن کیا کہ آئندہ سے اس کا بیٹا بنگلے میں کھیلنے نہیں آئے گا ؛کیونکہ اس کی بھاگ دوڑ سے لان خراب ہوتے ہیں۔
فیقے مالی نے نوکرانی کو بتایا کہ مالکن سے کہیے کہ ایسا ہی ہوگا۔۔۔
سورج ڈھل چکا تھا،شام ہونے کو تھی،فیقے کا کام بھی مکمل ہو چکا تھا۔اس نے بیٹے کو،ہمیشہ کی طرح،آواز دی اور بیٹا بھاگتا ہواباپ کے پاس فوراََ پہنچ گیا۔ باپ نے اپنے نواب کو کندھے کی سواری دی۔۔۔
 لڑکے کو یہ علم نہیں تھا کہ آج کے بعد،بنگلے سے گھر تک،اپنے والد کے کندھے پر بیٹھ کر جانے کے لطف سے وہ ہمیشہ کے لئے محروم کردیا گیا ہے۔
۔۔ وہ تو شائد دل میں یہ سوچ کرخوش ہو رہا ہوگاکہ کل وہ لڑکی کو تتلیوں والی بات بتائے گا۔۔۔جس پر وہ خوش ہوگی۔۔
باپ بیٹا گھرپہنچے۔۔۔جب فیقے کو موقع ملا،اس نے اپنی بیوی کو سمجھا دیا کہ وہ آئندہ سے بیٹے کو بنگلے نہیں بھیجے گی۔
"کیا کوئی نقصان کیا ہے ا س نے؟"مالی کی بیوی نے تعجب سے پوچھا ۔
"نہیں"
"تو پھر۔۔۔ہوا کیا ہے؟"ماں نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔
مالی نے بیوی کو بتایاکہ یہ مالکن کا حکم ہے اور اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں جانتا۔۔۔
 بظاہر شانت دکھنے والے، مالی کے دل کی حالت کیا تھی؟۔۔۔ دل دکھی تھا یا بے نیاز، یہ اس کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔
۔۔
 مالی کا دل تھا کہ سمندر ۔۔۔اپنے دل کا حال اسے ہی معلوم تھا۔
اگلے دن لڑکا سکول سے گھر آیا۔۔۔
 اس نے ہوم ورک مکمل کرلیا۔۔۔
 امی سے حسبِ عادت بنگلے جانے کی اجازت طلب کی۔۔۔ 
"بیٹا آپ کے ابا نے بنگلے کا کام چھوڑ دیا ہے۔۔۔لہٰذا اب تم بنگلے نہ جاؤ"،مالی کی بیوی نے بچے کو بتایا۔
 ماں کو،بیٹے کو بنگلے میں جانے سے روکنے کی صرف یہی تدبیر سوجھی تھی۔ ۔۔سبھی مائیں بچوں سے جھوٹ بولتی ہیں کیونکہ انہیں اپنے بچوں کی خوشی ہر صورت عزیز ہوتی ہے۔
"اچھا امی!۔۔۔ باہر کھیل لوں۔۔۔؟"
"کھیل لو۔۔۔!"
ماں بہت دکھی تھی۔ ۔۔آنسو، دل کی غمازی کرتے ہیں۔
۔۔ ماں کے آنسووؤ ں کا بوجھ پلکیں سہار نہ سکیں، وہ گال دھوتے ہوئے،زمین پر جا گرے۔دکھی کیوں نہ ہوتی،اس کے بیٹے کو، اس کی محبوب جگہ،بنگلے کے لان میں کھیلنے کی سہولت سے محروم کردیا گیا تھا۔۔۔بیٹا روزانہ اپنی امی سے تتلیوں اور پھولوں کی باتیں شیئر کرتا اور مسحور ہوا کرتا تھا۔۔۔ بیٹے کی یہ خوشی چھن چکی تھی۔۔۔
یہی ماں کی تپسیا ہے۔
۔۔
لڑکے کے دل کی کیفیت بھی ایک معمہ تھی۔۔۔!!
کیا لڑکا بھی دکھی تھا۔۔۔؟
کیاوہ دکھی ہونے کے باوجود،خوش دکھنے کا بہانا کر رہا تھا۔۔۔؟
کیا اسے اپنی امی کے جھوٹ،جو ماں نے بیٹے کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے بولا،کا علم تھا۔۔۔؟
وہ لڑکی۔
۔۔جسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا تھا۔۔۔اس کی کمی محسوس کر رہا تھا۔۔۔؟
کیابنگلے میں نہ جا سکنے کی پابندی اس کے اندر آگ کا الاؤ جلائے ہوئے تھی۔۔۔؟
یا۔۔۔
وہ،ہر حال میں خوش رہنے کی دولت سے مالا مال تھا۔۔۔
 ا گر ایسا ہے تو ۔۔۔قدرت اس پہ اتنی مہربا ن کیوں تھی۔۔۔!!؟
کیا اسے کوئی بڑا کام سونپا جانا تھا۔
۔۔؟کہ ا سے اتنے بڑے راز سے ،اس بچپن کی عمر میں 
 ر وشناس کروادیا گیا۔۔۔جسے سیکھنے کے لئے عمرِ خضر بھی کم ہو۔۔۔
یہ باپ کی نیک کمائی کا اثر تھا ،یا کہ ماں کی تربیت کا ۔۔۔
 یا۔۔۔ 
 دونوں کی نیکیوں کا ثمر۔۔۔
عمومی طور پر،جب پیرنٹس بچوں کو ان کی پسند کی چیز سے الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بچے کا ردِعمل اس قدر سخت ہوتا ہے کہ پیر نٹس کی شکست یقینی ہوتی ہے۔
والدین اس طرح کی شکست کے عادی ہوتے ہیں۔۔۔
جبکہ یہاں معاملہ اس کے برعکس تھا۔۔۔لڑکے نے نہ ضد کی اور نہ ہی اپنی امی سے سوال و جواب۔
ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مالی کے لڑکے کا کسی سے کوئی کمپٹیشن ہی نہیں ۔یا وہ دوسروں سے کمپئر( compare)نہ کرکے احساس ِکمتری کے عذا ب سے، خودکو بچانا چاہتا تھا۔
۔۔شاید قدرت نے اسے اس ننھی سی عمر میں سمجھا دیا تھا ۔۔۔
 اگر ہر بندے کی تخلیق یونیک ہے تو پھرکمپریزن( comparison)کا فائدہ۔۔!!
وقت آ زاد متغیر ہے ،اسی لیے یہ کسی کے لیے رکتا نہیں۔۔۔وقت نے فیقے مالی کے بیٹے کی تربیت کر دی تھی ۔۔۔وقت کے بڑھنے سے عمر میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔۔۔ بیٹا اب بڑا ہوگیا تھا۔۔ ۔وہ آٹھویں کلاس میں تھا۔
۔۔
 ایک رات کھانے کے بعد،باپ نے بیٹے سے کہا : 
 "مجھے تمہاری ضرورت ہے" 
 "جی ابا جان!۔۔۔"
 " مجھ سے زیادہ کام نہیں ہوتا۔۔۔تھک جاتا ہوں۔۔۔"
"گرمیوں کی چھٹیاں آرہی ہیں۔۔۔میرے پاس کافی وقت ہوگا " بیٹے نے جواب دیا۔
"شاباش بیٹا "باپ نے بیٹے سے کہا۔
"لیکن ڈر لگتا ہے ۔
۔۔ تمہاری پڑھائی ۔۔۔ " باپ نے بیٹے سے کہا.
"آپ فکر نہ کریں۔۔۔"
 چند ہی دنوں کے بعد سکول سے چھٹیاں ہوگئیں۔۔۔
بیٹے نے باپ کو بتا دیا کہ اسے سکول سے چھٹیاں ہو گئی ہیں۔۔۔کل سے وہ آپ کے ساتھ کام پر جا ئے گا۔
باپ نے بیٹے سے کہا : " تم عصر کے وقت سے مغرب تک کام کرو گی"
صبح کام پر جاتے ہوئے باپ نے بیٹے سے کہا : "عصر کے وقت یاد سے بنگلے پہنچ جانا ۔
۔۔وہی جہاں تم جایا کرتے تھے ۔۔۔وہاں کاکام زیادہ ہوتا ہے "
"جی۔۔۔بہتر!"،بیٹے نے جواب دیا
لڑکا وقت پر بنگلے پہنچ گیا۔۔۔اس کا باپ پہلے سے وہیں تھا۔باپ نے بیٹے کو ویلکم کیا،اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا،اور اسے بتایا کہ جس گھرسے اس نے کام شروع کیا ۔۔۔وہ ریاض الدین طور صاحب کا تھا،اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے۔ وہ ایک ریٹائرڈ پروفیسر تھے۔۔۔ انہوں نے میری بہت مدد کی ۔۔۔انہوں نے مجھے ،ان کے تعلق والے کئی گھرانوں سے کام دلوایا۔۔۔ان کے مجھ پر بہت احسانات ہیں۔۔۔

Chapters / Baab of Uran By Prof.Muhammad Yaseen