Episode 27 - Uran By Prof.Muhammad Yaseen

قسط نمبر 27 - اُڑان - پروفیسر محمد یاسین

اس مقابلے سے پاکستان کی عوام ،جنہوں نے اپنے پہلوانوں کو ہمیشہ جیتتے دیکھا تھا،بہت غمگین تھی۔ملک میں سوگ کا عالم تھا۔۔۔
اسی خاندان کے چشم و چراغ،زبیر اسلم عرف جھارہ نے صرف سولہ سال کی عمر میں پہلوانی کے میدان میں قدم رکھا ۔دیکھتے ہی دیکھتے اس نے دنیا کے بڑے بڑے پہلوانوں کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیا۔کوئی پہلوان بھی جھارہ پہلوان کے سامنے کھڑا ہونے کی تاب نہ رکھتا تھا۔
جھارہ نے اپنے چچا ،اکرم اَکی ،کی شکست کا حساب چکانے کے لئے 'انوکی' پہلوان کو چیلنج کر دیا۔۔۔
 انوکی نے چیلنج قبول کر لیا۔۔۔
پوری دنیا میں اس مقابلے کی بڑی دھوم تھی ۔۔۔
ٹیلیویژن،اخبارات ،رسائل،انٹرنیشنل میڈیا اور عوام ،سبھی کا موضوع ِ گفتگو یہی تھا۔۔۔
مقابلے کا میدان1978 ء کوقذافی سٹیڈیم لاہور میں سجا۔

(جاری ہے)

۔۔

یہ دو پہلوانوں کا مقابلہ نہ تھا ۔
۔۔ دو قوموں کی جنگ تھی۔۔۔اور پوری دنیا اس مقابلے کی تماشائی ۔۔۔
دونوں پہلوان طاقت کا پہاڑ تھے۔۔۔
سٹیڈیم میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔۔۔
مقابلہ شروع ہوا۔۔۔
سٹیڈیم ایک دم سناٹے سے بھر گیا۔۔۔اور دل دھک دھک کرنے لگے۔۔دونوں پہلوان بہت مضبوط اور طاقتور تھے ۔۔۔۔ پہلوان ایک دوسرے پر برتری لے جانے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔
۔۔شائقین اپنے اپنے پہلوان کے لئے زور لگانے لگے۔کئی راؤنڈ ہوئے لیکن کوئی پہلوان واضح برتری حاصل نہ کر سکا۔۔۔
 مقابلہ اب آخری اور فیصلہ کن راؤنڈ( round) میں داخل ہو چکا تھا۔۔۔جو پہلوان بھی نمبر لے گیا وہ جیت جائے گا۔ ۔۔دونوں ملکوں کی عوام اور سٹیڈیم میں موجود لوگ جس حال میں تھے ،الفاظ اس سماں کا احاطہ نہیں کر سکتے۔لوگوں کے ہارٹ فیل ہونے کو تھے،کوئی بھی اپنے پہلوان کو ہارتا ہوا دیکھنے کوتیار نہ تھا۔
کمنٹیٹر کی سانس پوری نہیں آرہی تھی۔اس کے الفاظ بھی بوکھلاہٹ کا شکار تھے اس کے دل کی دھڑکن نے اس کی سانس بہت تیز کردی تھی۔
اور۔۔۔
آخری راؤنڈ۔۔۔ختم ہوا۔
پوری دنیا،بے تابی سے ریفریزکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔
 لوگ اپنے دل تھامے کھڑے تھے۔۔۔
کمنٹیٹر کے سوا کسی کی آواز نکل ہی نہ رہی تھی۔
۔۔کمنٹیٹر کی آواز بھی ۔۔۔اس کے دل کی دھڑکن میں مکس ہوئی سنائی دے رہی تھی۔ وہ اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔
مقابلہ اس قدر سخت تھا کہ کسی کو دوسرے پر فوقیت نہیں دی جا سکتی تھی۔ریفریز سے مقابلے کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا۔۔۔ لوگوں کی بے چینی میں اضافہ انتہائی لیول پر پہنچ گیا۔۔۔لوگوں سے کھچا کھچ بھرا سٹیڈیم۔
۔۔سناٹے میں ڈوب چکا تھا۔۔۔
وہ اناؤنسمنٹ سننے کے لئے۔۔۔بے چین تھے۔۔۔ 
ریفریز کے مطابق دونوں پہلوان برابر تھے۔۔۔اور وہ کسی حتمی نتیجہ پرپہنچ نہیں پا رہے تھے۔
پھر کیا ہوا۔۔۔سنو!
دنیا نے دیکھا۔۔۔
 جب لوگوں کی سانسیں تھم گئیں۔۔۔
 انوکی پہلوان ۔
۔۔اورجھارا پہلوان برابر میں کھڑے تھے۔۔۔لوگ انہی کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔
 وہ فیصلہ جو ریفریز سے نہیں ہو رہا تھا۔۔۔انوکی نے کردیا۔۔۔
اس نے جھارہ پہلوان کا ہاتھ ہوا میں اُٹھاتے ہوئے کہا:
"تم مجھ سے اچھے کھلاڑی ہو"
جھارہ پہلوان انوکی کے مطابق فاتح قرار پایا۔۔۔
میری آنکھیں انوکی کے لئے سرشار تھیں اور وہ آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔
۔۔ اور دل میں تائید کہ آج انوکی نے یہ ثابت کردیا وہ ،واقعی، بڑا پہلوان ہے۔اتنا حوصلہ۔۔۔
 O,my, God
Since that i always salute Anoki
  Anoki is great۔۔۔
یہ ہے سپورٹ مین سپرٹ۔۔۔!!
میں جب بھی اس مقابلہ کی ریکارڈنگ دیکھتی ہوں ۔۔۔میری آنکھیں اس عظیم پہلوان کی تکریم میں نم ہو جاتی ہیں۔
۔۔اور دل سے صدا اٹھتی ہے۔۔۔آپ عظیم انسان ہو۔ 
کسی کی برتری تسلیم کرنا۔۔۔بڑے لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے۔۔۔
چھوٹے لوگ اس راز سے نابلد ہوتے ہیں۔۔۔
ََاِدھرہم لوگ ہیں۔۔۔ ایک ایک نمبر کے فرق سے رو رہے ہوتے ہیں۔۔۔اُدھر دینا کا ایک نمبر پہلوان ،جب ریفریز یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ کون اچھا کھیلا۔۔۔
؟ پوری دنیا کے سامنے اعتراف کر رہا تھا
 'تم مجھ سے اچھے پہلوان ہو ۔ ۔۔'
 دنیا انوکی کی معترف ہوگئی۔۔۔
 شاید مقابلہ جیت کر وہ اتنی محبتیں نہ سمیٹ سکتا۔۔۔۔
 اس کی فتح امر ہوچکی تھی ۔۔۔
 وہ بین الاقوامی ہیرو بن گیا۔۔۔
اس کے اس عمل سے لوگوں کے دلوں میں انوکی ہمیشہ زندہِ جاوید رہے گا۔
۔۔
ایک وقت تھا جب کیمرے اتنے جدید نہیں ہوتے تھے۔ ۔۔میں نے کرکٹ کے کئی نامور کھلاڑیوں کو دیکھا ہے۔ آوٴٹ ہوئے اور ایمپائر کی طرف دیکھے بغیر، اپنے ضمیر کے مطابق،پویلین چلے گئے؛حالانکہ ایمپائر سمیت ان کے آوٴٹ ہونے کا کسی کو شائبہ تک نہیں ہوا ۔۔۔یہ ہے، سپورٹ مین سپرٹ۔۔۔!
اگر ایک سٹوڈنٹ کے نمبر کسی امتحان میں زیادہ ہیں تو اس سے کم نمبر والے سٹوڈنٹس کو حقیقت تسلیم کرنی چاہئے ، نہ کہ رزنٹمنٹ( resentment ) کا اظہار۔
۔۔بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔جس سٹوڈنٹ کے نمبر زیادہ ہیں نہ صرف اسے تسلیم کیا جائے بلکہ اسے مبار کباد دی جائے۔۔۔آج ہم کسی کا احترام کریں گے تو کل کوئی ہمیں بھی دل سے عزت دے گا۔۔۔اور۔۔۔
ایسا شخص جس میں مخالف کی جیت کو تسلیم کرنے کی صلاحیت ہو ، وہ ہمیشہ ہار نے کے غم کی تکلیف سے بچا رہتا ہے۔اور کامیابی ایسے ہی شخص کی قدم بوسی کرتی ہے۔
"
 حفصہ کو زینب کی باتیں اچھی لگیں۔اس نے زینب کے مطالعہ کی بہت تعریف کی۔۔۔سبھی نے ایک دوسرے کو بائے کہتے ہوئے اپنی اپنی راہ لی۔۔۔۔۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے ہی دن زینب نے، بریک میں،عشنا،امبراور زینب کو اکٹھا کیا ۔
" آپ میرے ساتھ چلیں،مجھے فاطمہ کو مبارکباد دینی ہے اور یہ گفٹ"عشنا نے حفصہ سے گلے لگتے ہوئے کہا: "حفصہ تم دل کی بہت اچھی ہو!"
"دراصل یہ زینب کی باتوں کا اثر ہے۔
"حفصہ نے اعتراف کیا۔
"میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا :اچھے دوست تربیت گاہ ہوتے ہیں"زینب بولی
 حفصہ نے بریک میں، اپنی دوستوں کے ہمراہ ،فاطمہ کی کلاس میں جا کراسے اس کی پوزیشن پر مبارکباد دی اوراسے گفٹ پیش کیا۔ فاطمہ حفصہ کے اس عمل سے بہت خوش ہوئی۔اس نے حفصہ کا شکریہ ادا کیا۔اب بات ماریہ کے ہاتھ میں تھی،اس نے صبا کو سناتے ہوئے،فریحہ کو مخاطب کیا: "صبا کو چاہئے کہ اب وہ بھی فاطمہ کو گفٹ دے۔
"
"ہاں !بات تو تمہاری وزن رکھتی ہے۔۔۔"فریحہ نے ماریہ سے کہا۔ 
 " ویسے بھی گفٹ دینے سے محبت بڑھتی ہے ۔۔۔"ماریہ نے بات بڑھاتے ہوئے کہا۔ 
 "ضروری نہیں گفٹ مہنگا ہو۔۔۔گفٹ گفٹ ہوتا ہے۔۔۔اور حفصہ دوسری کلاس سے آکر فاطمہ کو گفٹ دے گئی ہے۔۔۔ اب صبا کا حق بنتا ہے کہ وہ فاطمہ کو گفٹ دے۔۔۔"
فریحہ نے صبا کو مزید ہائپر کرنے کی تدبیر کی۔
ان کی گفتگو کا محور و مرکز صبا تھی۔۔۔وہ اسے چڑانا چاہتی تھیں ۔۔۔اسے زچ کرنا چاہتی تھیں۔۔۔وہ چاہتی تھیں کہ صبا اپنا ٹمپرامنٹ لوز کرے۔۔۔اگر صبا ٹمپرامنٹ لوز کرے گی تو انجوائے منٹ بڑھے گی۔اسی دوران سر سرمد کلاس میں آ چکے تھے۔انہوں نے توآج پڑھائی میں اگلی پچھلی ساری کسر نکال دی۔فائزہ مکمل طور پراگزاسٹ( Exhaust)ہو چکی تھی، وہ سر سے بولی:"سر، تھوڑا سا اور نا پڑھ لیں۔
۔۔!!"
 "آج پڑھنے کو بہت دل کر رہا ہے" فائزہ نے اضافہ کیا۔
 اس ہلکے پھلکے طنز سے ساری کلاس محظوظ ہوئی اوراعصاب کا تناؤ کچھ کم ہوا ، سر سب سمجھ رہے تھے،وہ بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔۔۔وہ بولے:
"امتحان قریب آ رہے ہیں اور۔۔۔سلیبس(syllabus)،ابھی کافی پڑاہی"
"سر سینڈ اپ میں کتنے چپٹرہیں"فائیزہ نے پوچھا۔
" سولہ "
"سراتنازیادہ؟"جنت نے اپنا حصہ ڈالا۔
"زیادہ!!۔۔۔اینول میں مکمل کتاب ہے ،بھئی۔۔۔!"
"?Sir what is course completion date"سارہ نے سوال کر دیا۔
"کالج انتظامیہ نے مارچ تک کا وقت دے رکھا ہے"۔سر نے اس میں اضافہ کیا "بیس دن توسینڈاپ میں بھی تو صرف ہوں گے۔"
جونہی سر کلاس سے گئے۔
سارہ ،جو فریحہ اور ماریہ کی باتیں سن رہی تھی، نے صبا سے کہا کہ وہ بھی کرٹسی (courtesy)میں فاطمہ کو کوئی گفٹ دے دے؛کچھ کام دل نہ چاہتے ہوئے بھی دنیاداری نبھانے کی خاطر کرنے پڑتے ہیں۔
"دیکھوں گی۔۔۔!" صبا نے آہستگی سے کہا
اگلے دن ،واقعی،صبا کے ہاتھ میں کچھ تھاجو اس نے سارہ کوتھماتے ہوئے آہستگی سے کہا:
 " یہ میری طرف سے فاطمہ کو دے دو "
 " یہ کیا ہے۔۔۔؟"سارہ نے پوچھا۔
 "گفٹ ۔۔۔جو تم نے کہا تھا "
"اچھا نہیں لگتا۔۔۔خود دو!"سارہ نے آہستگی سے کہا۔
"میرا دل نہیں کر رہا"صبا نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
"دل کی چھوڑو۔۔۔دنیا نبھاؤ!"سارہ نے گائیڈ کیا۔
"تم دے دو نا۔۔۔!"
"پاگل مت بنو!۔۔۔ہمت اکٹھی کرو!"سارہ نے رعب جماتے ہوئے کہا۔
صبا نے ، جو فاطمہ کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی،گفٹ فاطمہ کی طرف کچھ کہے بغیربڑھا دیا ۔ فاطمہ سب کچھ سن تو چکی تھی۔۔۔فاطمہ نے اس کی طرف دیکھے بغیر گفٹ لیا اور" تھینکس "کہا۔
سٹوڈنٹس، جو انوالو ( involve)تھے،انہوں نے تالیاں بجا دیں۔
 "ہماری سکیم کام کر گئی "فریحہ نے مسکراتے ہوئے ماریہ سے سر گوشی کی۔
 "ہاں یار " ماریہ نے اسی موڈ میں جواب دیا۔
 فریحہ یہ جاننے کے لئے بے چین تھی کہ اس گفٹ پیک میں ۔۔۔ہے کیا؟۔اس نے فاطمہ سے گفٹ کھولنے کا کہا۔
"نہیں گھر جا کر کھولوں گی "
 " ویسے ہے کیا ... ؟"ماریہ نے ،جو فریحہ کے ساتھ بیٹھی تھی،پوچھا۔ 
 " کل بتادوں گی ۔
۔۔کہ اس میں ہے کیا؟"فاطمہ نے جواب دیا
"ہوسکتا ہے فاطمہ سبھی کے سامنے گفٹ کھولنے سے ڈر رہی ہو۔۔۔کیا پتہ اندر کیا ہو؟"فریحہ دل میں سوچ رہی تھی۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالج کی چھٹی کی بیل کیا ہوئی،بچوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے ۔۔۔سٹوڈنٹ کے کان کے لئے اس سے اچھا میوزک ابھی تک ایجاد ہی نہیں ہوا۔۔۔سٹوڈنٹس کلاسوں سے نکل کر ٹولیوں میں منتشر ہو گئے۔
۔۔ہر ٹولی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔۔۔
گھر پہنچتے ہی فاطمہ نے سب سے پہلے گفٹ پیک کا ریپر پھاڑا۔۔۔پرفیوم تھا جیسا کہ پیکنگ (packing) سے لگ رہا تھا۔۔۔فاطمہ خود بھی مضطرب تھی جاننے کے لئے کہ آخر اس میں ہے کیا؟۔۔۔گفٹ پیک میں ایک کاغذ بھی تھا،جس پر کچھ لکھا ہوا تھا۔فاطمہ نے جلدی سے کاغذ ان فولڈ( unfold)کیااور پڑھنا شروع کیا:
" دنیا داری کا تقاضا ہے۔
۔۔اس لئے گفٹ دیا ہے۔۔۔مت سمجھنا کہ میں نے تمہاری برتری تسلیم کر لی ہے۔ہرگز نہیں۔۔۔اور یاد رکھنا: میں تمہیں زندگی کے ہر امتحان میں پیچھے چھوڑ جاؤں گی
اور۔۔۔
تمہاری دشمنی مجھے۔۔۔دوستی سے کہیں عزیز ہے
 میں اس کا پورا پالن بھی کروں گی۔۔۔"
فاطمہ کو بہت غصہ آیا ،وہ غصہ کنٹرول کرنے کی بھر پور کوشش کر رہی تھی لیکن غصہ اس کے سر پر سوار ہو گیا تھا۔
۔۔ 
 "پرفیوم کو دیوار سے مار کر توڑ دینا چاہئے " اس نے سوچا،پھر اس نے خیال بدلا۔۔۔نہیں اسے ٹوائیلٹ میں گرا دینا چاہیے۔اسے اپنی یہ سکیم اچھی نہ لگی۔ اس کے ذہن میں نئی سکیم آ ئی اور وہ خوش ہوگئی۔اس نے چوکیدار کو بلوایا اوراسے پرفیوم دیتے ہوئے کہا:" بابا جی، یہ پرفیوم ہے،جب بھی کتے کو نہلاؤ تو یہ اسے لگا دیا کرو۔"چوکیدار پرفیوم لے کر چلا گیا۔۔۔
 فاطمہ کا غصہ رفو ہو گیا تھا۔۔۔اسے اپنی سکیم پر ہنسی آ رہی تھی۔۔۔وہ بہت خوش تھی۔

Chapters / Baab of Uran By Prof.Muhammad Yaseen