Episode 8 - Uran By Prof.Muhammad Yaseen

قسط نمبر 8 - اُڑان - پروفیسر محمد یاسین

3 ماہ بعد۔۔۔
کالج شروع ہوئے تین ماہ مکمل ہو گئے ۔بیس دن بعد سنڈ اپ اگزامز (send up exams)ہونا ہیں۔کالج انتظامیہ نے ڈیٹ شیٹ بھی نوٹس بورڈ پر آویزاں کر دی ہے۔جس دن سے ڈیٹ شیٹ نوٹس بورڈ پرڈسپلے( display)کی ہے ہر بچہ امتحان کے سحر کے خوف میں افسردہ افسردہ دکھائی دے رہا ہے۔
 کہتے ہیں، امتحان کیسا بھی ہو ، امتحان ہوتا ہے۔
۔۔
 اگزامز کا پریشر لائق و نالائق سبھی پر یکساں ہوتا ہے۔ نالائق: جو انٹیلی جنٹ (intelligent ) تو ہو سکتا ہے،مگر پڑھائی میں سیریس نہ ہو؛اس خوف میں ہوتا ہے ،کہیں وہ فیل نہ ہو جائے!
لائق سٹوڈنٹ:یعنی انڈسٹریس( industrious)،کو پوزیشن لینے یا اسے مین ٹین ( maintain)کرنے کا خوف کھائے جا رہا ہوتا ہے۔جوں جوں امتحان کے دن قریب آتے جاتے ہیں توں توں، سٹوڈنٹ پر،پریشر بڑھتا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

آخری بیس دن تو نرو کیچنگ ڈیز( nerve catching days )ہوتے ہیں۔ ان بیس دنوں میں سٹوڈنٹ کی کیفیت نیم ملنگ یا فل ملنگ والی ہوتی ہے۔
کھانے پینے میں مزہ ختم ہوجاتا ہے۔۔۔۔
آئینے کے سامنے کھڑے ہونے کا چام( charm )بھی ختم۔۔۔بہت سا وقت ضائع ہونے کی پشیمانی ۔۔۔ او ر وقت برباد کرنے پر خود پہ غصہ۔۔۔اور آئندہ سے شروع سال سے صحیح محنت کرنے کی خود سے یقین دھانی۔
۔۔اور پرعزم رہنے کے لئے جھوٹی قسمیں۔۔۔
کتابیں ۔۔۔اجنبی ۔اجنبی۔۔۔کئی دفع پڑھ لینے کے باوجود ،جیسے پہلی بار کھولی ہوں۔۔۔
جو سوال پکے کئے تھے۔۔۔کچے پکے ہو گئے ہیں۔۔۔جو کچھ کچے تھے انہیں دیکھ کر تو لگتا ہے جیسے یہ سوال کسی مقدس صحیفے کے ہوں جنہیں آنکھوں سے لگایا ،بوسے لئے لیکن اندر لکھا کیا ہے اس کے جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی ہو ۔
۔۔
نیند حرام۔۔۔یا اڑ گئی۔۔۔جیساکہ مدتوں سے آنکھ نہ لگی ہو۔
 کرکٹ یا فٹبال کے انتہائی دلچسپ میچز کا آغازبھی انہیں دنوں میں ہوتا ہے ۔۔۔دیکھ نہ پانے کی کسک۔۔۔ 
بک شیلوز( shelves)پر پڑی وہ ساری کتابیں جنہیں کئی دفع فضول سمجھتے ہوئے ردی بیچنے کا خیال کیا تھا۔۔۔اب ہر کتاب پڑھنے کے لائق تھی۔
۔۔ندامت کے احساس سے ڈوب مرنے کو دل کر رہا تھا ۔۔۔اس قدر اہم کتابیں اور اتنی لاپرواہی۔۔۔!پھر عزمِ صمیم۔۔۔امتحان کے ختم ہوتے ہی ساری کتابیں پوری توجہ سے پڑھی جائیں گی اور مکمل استفادہ کیا جائے گا۔ ۔۔
امتحان کے ختم ہوتے ہی کیا کیا اہم کام کرنے ہیں ان کی اہمیت کے پیش نظر ان کی فہرست بنانا انتہائی اہم ہو تا ہے۔
۔۔وہ بھی بنا لی جاتی ہے۔۔۔
امتحان کے ختم ہوتے ہی ٹائم ٹیبل کے مطابق کام کرنا ہے۔۔۔کاپی کا پیج لے کر فٹے کی مدد سے خوبصورت ٹائم ٹیبل تیار کرنا۔۔۔اس میں رنگ بھی بھرا جاتا ہے تا کہ جاذبِ نظر لگے۔۔۔
 اصل پہاڑ تو اس وقت ٹوٹتا ہے جب آپ خود تو پریشان ہوتے ہی ہو ۔۔۔ اور گھر والے اضافہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے گنوانے کو تیار نہیں ہوتے:مثلاََ ،گھر میں سے کسی بڑے کی آواز کا مسلسل تعاقب کرتے رہنا:
"پڑھ لو۔
۔"
"کبھی پڑھ بھی لیا کرو۔۔۔"
 "کبھی کتاب بھی کھول لیا کرو۔۔۔"
"لوگوں کے بچے ہیں کہ کتاب ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔۔۔"
"لو! بھائی مصطفی کے بچے دیکھو۔۔۔آیئڈیل ہیں،آیئڈیل!"
ادھر بھائی مصطفی کے بچوں کے ساتھ بھی یہی سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔
انہیں کسی اور کے بچوں کی مثالیں دی جا رہی ہوتی ہیں۔۔۔
 سبھی گھروں کی کہانی ایک سی ہی ہے ،نہیں !۔۔۔بلکہ ایک ہی ہے۔۔۔اداکار مختلف ہیں۔۔۔
اس وقت خوشی کی انتہا نہیں رہتی، جب پیرنٹس( parents )کسی فنکشن پر اکٹھے ہوتے ہیں۔اپنے ،اپنے بچوں کی وہ ،وہ تعریفیں کی جا رہی ہوتی ہیں کہ جن سے پیرنٹستو دور کی بات ؛بچہ خودبھی واقف نہیں ہوتا۔
بچوں کی تعریف کے معاملے پرپیرنٹس ایک دوسرے کو مات دینے کے درپے ہوتے ہیں۔۔۔۔فنکشنزکے مواقع پر،سبھی پیرنٹس ۔۔۔'جھوٹوں کے'I.G۔۔۔جھوٹ سچ کو اس طرح مکس کرتے ہیں ،کہ ابلیس بھی،پیرنٹس کی اس مکاری کے مقابلے پر ،ا پنی کم عقلی پر شرمندہ ہوتا ہوگا۔۔۔
لیکن۔۔۔!!
فنکشن( function)سے گھر واپس پہنچتے ہی ۔
۔۔بچوں کی کم بختی :
"سنا تھا۔۔۔؟؟
 فلاں کا بیٹا۔۔۔!فلاں کی بیٹی !۔۔۔کس قدر لائق ہیں۔"
وہی معمول کے جملے۔۔۔لیکن اب ان جملو ں کی انٹین سٹی( intensity )بڑھ چکی ہوتی ہے۔۔۔اور بچوں کی بے عزتی میں اضافہ بھی پروپوشنیٹ لی( proportionally ) بڑھ چکا ہوتا ہے ۔
 حیرانی کی بات تو یہ ہے۔ پیرنٹس یہ بات سوچنے سے قاصرکیوں ہیں؟۔
۔۔کہ جس طرح ہم نے اپنے بچوں کی جھوٹی تعریفیں کی ہیں عین اسی طر ح دوسرے پیرنٹس نے اپنے اپنے بچوں کی ،کی ہیں۔ 
اب بھائی مصطفی کے بچوں کے علاوہ ۔۔۔اور کئی بھائیوں کے بچوں کا اضافہ ہو چکا ہے۔ ۔۔اور عربی کی گردان کی طرح روانی۔۔۔
ادھر امتحان کا خوف ۔۔۔جوں جوں امتحان میں دن کم ہوتے جارہے ہیں،خوف بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
 خواب بھی انتہائی ڈراؤنے ہوگئے ہیں۔۔۔۔
 اندازہ کریں،سوتے میں بھی پیپرزکے ہی خواب۔۔۔
 سنئے!۔۔۔سٹودڈنٹ پیپر دینے جا رہا ہے۔۔۔پیپرکیمسٹری کا ہے۔۔۔تیاری بھی خوب ہے۔۔۔کمرہِ امتحان میں جا کر پتہ چلا ،کہ پیپر تو فزکس کا ہے۔ ایسے میں طالب علم کی چیخ کے ساتھ اس کا خواب ٹوٹتا ہے۔پاس میں لیٹی والدہ،جو اللہ نے اولاد کی خدمت کے لئے مامور کر رکھی ہے جھٹ سے بولتی ہے:
"ہائے میری جان۔
۔۔! ڈراؤنا خواب ۔۔۔؟ لاحول پڑھو " ۔۔۔یہ کہتے ہوئے خود ہی پڑھنا شروع کردینا اور وہ ساری سورتیں جو اس کو زبانی یاد ہیں پڑھ دینا۔
"نئیں ماں جی۔۔۔!! " سٹوڈنٹ دل میں سوچتا ہے"ماں!۔۔۔تمہیں کیا بتاؤں۔۔۔؟ کاش میں ،بتا سکتا۔۔۔!!"
"کوئی جن ،کوئی چڑیل۔۔۔نظر آئی ہے؟"ماں سادگی سے اپنے بچپن کے خواب کے تقابل میں پوچھتی ہے۔
۔۔
"نئیں ماں جی۔۔۔!" سٹوڈنٹ پھردل میں سوچتا ہے "کاش ! خواب میں جن یا چڑیل نظر آ جائے۔۔۔ڈر سے آنکھ تو نہ کھلے نا! "
"چل تو آرام سے سوجا !۔۔۔میں تیرے پاس جاگتی ہوں۔" بچہ آرام سے سو جاتا ہے ، جبکہ ماں رات آنکھوں میں کاٹ دیتی ہے ۔۔۔اور یہی ماں کی راحت کا اثاثہ ہے۔۔۔شاید اسی لئے اس کے قدموں تلے جنت ہے۔
۔۔
ماں بیچاری کو کیا پتہ ، بچے کے ڈراؤنے خواب کی نوعیت کا۔۔۔!اسے تو صرف اتنا پتہ ہے کہ ڈراؤنے خواب صرف جن ،چڑیلوں کے ہی ہوتے ہیں۔اس بیچاری کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ بچے اب جن،بھوت یا چڑیل سے تھوڑی ڈرتے ہیں بلکہ اب تو جن بھوت وغیرہ بچوں کے خواب میں آنے سے ڈرتے ہیں۔۔۔
پروفیسر نیاز محمد کہتے ہیں کہ بچپن کے واقعات کا بچوں کی شخصیت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بچوں کو خوا ہ مخواہ جن،بھوت وغیرہ سے نہیں ڈرانا چاہیے ، اس طرح بچے کے ذہن میں ایک ایسا خوف بیٹھ جاتا ہے جو ساری عمر اس کی شخصیت کا مستقل حصہ بن جاتا ہے اور اس کی شخصیت نا مکمل رہ جاتی ہے ۔
 لہٰذا شخصیت کی تعمیراور اعتماد سازی کے لئے ضروری ہے کہ بچے کے ذہن سے ا س طرح کے خوف ختم کردئے جائیں۔ ۔۔
 اسی سوچ کے پیشِ نظر۔
۔۔پروفیسر صاحب ، ایک دن اپنے بچوں کو بھوت بنگلہ دکھانے کے لیے لے گئے۔غایت یہی تھی کہ وہ بچوں کے دل میں سے جن،بھوت کا خوف نکالیں اورانہیں کنسپ چو ایلی(conceptually )سمجھائیں کہ یہ جن بھوت محض آدمی ہی ہوتے ہیں جنہوں نے منہ پر ماسک چڑھائے ہوتے ہیں۔۔۔اور یہ بچوں کو ڈراتے ہیں۔
پروفیسر صاحب نے بتانا شروع کیا:
میں نے تین ٹکٹ خریدے،جن میں۔۔دو۔۔۔بچوں کے لیے،جن کی عمریں سات اور نوسال کے لگ بھگ تھیں۔۔۔بھوت بنگلہ کا شو شروع ہو چکا تھا اور ان کے پاس بچوں کو بریف کرنے کا وقت ہی نہیں بچا تھا کہ وہ بچوں کو بتائیں کہ یہ جن بھوت محض آدمی ہی ہوتے ہیں جنہوں نے منہ پر ماسک چڑھائے ہوتے ہیں۔۔۔اور یہ بچوں کو ڈراتے ہیں۔۔۔

Chapters / Baab of Uran By Prof.Muhammad Yaseen