موسم سرما کی آمد اور لنڈا بازار

موسم نے لی پھر انگڑائی گرمی بھاگی ، سردی آئی

پیر 11 دسمبر 2017

Mausam e Sarma Ki Aamad Aur Landa Bazar
خالد یزدانی:
موسم نے لی پھر انگڑائی
گرمی بھاگی ، سردی آئی
لہٰذا موسم گرما کے بعد سردیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اس ساتھ ہی گرم ملبوسات کی خریداری میں بھی اضافہ ہو گیا ہے اور آج کے دور میں جب مہنگائی بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہو غریب اور متوسط طبقہ کے لئے اپنے اور خاندان کے لئے نئے گرم کپڑے کی خریداری ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج پرانے غیر ملکی گرم کپڑوں کی موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی خریداری بھی عروج پر پہنچ جاتی ہے۔

خاص طور پر کوٹ پینٹ، جرسیاں اور جیکٹوں کی فروخت میں اضافہ ہونے سے ان کی قیمتیں بھی عامدنوں کی نسبت زیادہ ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا جیسے جیسے سردی کی شدت میں دن بدن اضافہ ہو گا، اس کے ساتھ ہی پرانے گرم ملبوسات کی فروخت بھی بڑھے گی۔

(جاری ہے)

غریب اور متوسط طبقہ کے لئے پرانے کپڑے کی ملک میں خاص طور پر لاہور میں پہچان لنڈا بازار ہے۔لاہور میں لنڈا بازار میں اب تو سارا سال ہی نہ صرف پرانے کپڑوں کی فروخت جاری رہتی ہے بلکہ اب اس میں پرانے شوز اور پرس اور کھلونوں وغیرہ کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔

لنڈا بازار لاہور کی تاریخ بڑی پرانی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قیام پاکستان سے قبل انگریز دور حکومت میں ایک مسلمان ٹھیکیدار سلطان نام کا تھا جس نے لاہور کا ریلوے سٹیشن بھی تعمیر کروایا اور اس سٹیشن کے ساتھ ہی بازار میں مسافروں کے قیام کے لئے ایک سرائے بھی تعمیر کروائی جسے سرائے سلطان کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہاں چند دکانیں اور کچھ رہائشی مکانات بھی تھے اور اس بازار میں زیادہ تر استعمال شدہ اوورکوٹ، برساتیاں اور گرم سوٹ اور ہیٹ جو اس زمانے میں پہننے کا عام رواج تھا فروخت کرنے کی چند دکانیں تھیں۔

لنڈا بازار میں وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہوتا چلا گیا امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک سے پرانے کپڑوں کے بنڈل بھی آنے لگے اور اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال پچاس کروڑ روپے سے زیادہ کے کپڑے درآمد ہو رہے ہیں۔ ایک دور میں پرانے کپڑوں کی خریداری کے لئے لاہورکے لنڈا بازار کا ہی رخ کرنا پڑتا تھا اب نہ صرف لاہور بلکہ اس سمیت بڑے شہروں میں ایک نہیں کئی کئی لنڈا بازار وجود میں آچکے ہیں۔

لنڈا بازار میں آنے والے کپڑے، کوٹ، سویٹر، جیکٹوں کے بنڈل کو خریدنے والے دکاندار اس میں اچھے اور صاف مال کو الگ کر کے بڑی بڑی دکانوں پر فروخت کرتے ہیں جبکہ دوسرے اور تیسرے درجے کے مال کو ریڑھیوں اور مختلف چوکوں یا ریلوے سٹیشن یا ٹرانسپورٹ کے اڈوں کے اطراف سڑکوں کے کنارے یا باغات کی چار دیواری کے جنگلوں پر آویزاں کر کے فروخت کئے جا رہے ہیں۔

اس وقت لنڈا بازار لاہور میں دیگر علاقوں اور شہروں سے آنے والے چھوٹے دکاندار خریداری کے لئے آتے ہیں اب لنڈا بازار تھوک کے کاروبار کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور ہو چکا ہے۔ اس وقت لاہور میں مختلف علاقوں میں بھی قائم لنڈا بازار ہیں جن میں میو ہسپتال کے سامنے ایک بڑی مارکیٹ بھی وجود میں آ چکی ہے۔ اسی طرح دیگر علاقوں اچھرہ بازار کے باہر، ٹاون شپ، گرین ٹاون میں بھی نہ صرف دکانوں پر بلکہ ریڑھیوں پر موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی گرم ملبوسات، جیکٹ، سویٹر کے ساتھ ساتھ غیر ملکی پردے، پرس، جوتے، پرانے کھلونے، بیگ بھی بڑی تعداد میں فروخت ہو رہے ہیں اور ان میں بھی کئی اقسام ہیں یعنی اچھے سامان کی قیمت بازار میں بکنے والے ملکی سامان سے اگر زیادہ نہیں تر کم بھی نہیں ہے۔

لنڈا بازار نے خاص طور پر موسم سرما میں غریب اور متوسط طبقہ کو موسم کی سختیوں سے بچانے میں کام تو کیا ہی ہے لیکن اب دکاندار استعمال شدہ کپڑے کے اچھے مال کو الگ کر کے اور اسے صاف کر وا کر پیک کر کے زیادہ قیمت پر امیروں کو بھی فروخت کر رہے ہیں کیونکہ اس کی قیمت بازار میں بکنے والی ملکی مال سے کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی اچھا ہوتا ہے لہٰذا گاہک پرانے کپڑے کی خریداری کرتا ہے۔

اسی طرح پاکستان کے شمالی علاقہ جات جہاں موسم زیادہ تر سرد تر ہی رہتا ہے میں لنڈا بازار کے گرم ملبوسات زیادہ فروخت ہو رہے ہیں کیونکہ یہاں رہنے والوں کی اکثریت مہنگے نئے کپڑے یا دیگر اشیاء کی خریداری کی ہمت نہیں رکھتے لہٰذا چند روپوں میں ان کو اپنے اور اپنے بچوں کے لئے گرم جیکٹس، جوتے اور دیگر سامان مل جائے تو کیا مضائقہ ہے۔لنڈا بازار میں فروخت ہونے والی اشیاء کے بارے میں یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ان پرانے کپڑوں کے استعمال سے پہننے والے کی جلد کو نقصان پہنچتا ہے اور وہ جلدی بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔

اس حوالے سے ایک ماہر امراض کا کہنا ہے کہ اگر ان کپڑوں کو چند ماہ بند رہنے کی وجہ سے جراثیم کا اندیشہ بھی ہو تو اسے صابن سے دھونے اور دھوپ لگانے سے وہ جراثیم تلف ہو جاتے ہیں لہٰذا گرم کپڑے یا قمیض جیکٹ کو خریدنے کے بعد نہ صرف اچھی طرح دھو لیا جائے اور بعدازاں دھوپ لگوالی جائے تو اس میں جراثیم کا اندیشہ نہیں رہتا۔لنڈا بازار جو اب پاکستان کے ہر بڑے شہر کے مختلف علاقوں میں سارا سال ہی موسم کی مناسبت سے سامان فروخت کر رہے ہیں اور لوگوں کی بڑی تعداد زیادہ تر گرم کپڑوں کی خریداری کے لئے دسمبر ہی میں خریداری کرتی ہے کیونکہ چند روپوں میں ان کو موسم کی سردی سے بچانے کا سامان مل جاتا ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی لنڈا بازار کے دکاندار گرم ملبوسات کی قیمتوں میں ہی اضافہ کر دیتے ہیں۔

گرمیوں میں چند روپے میں فروخت ہونے والے سویٹر اور جرسیوں کی قیمت موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی کئی سو روپے تک پہنچ جاتی ہے، لیکن ریڑھیوں پر زیادہ تر خریداری غریب اور متوسط طبقہ ہی کرتا ہے لہٰذا وہ اسے بھی مہنگی تصور نہیں کرتا۔لنڈا بازار کے ایک دکاندار کے مطابق ہمارا کاروبار کبھی چند ماہ ہی چلتا تھا مگر اب وقت گزرنے کے ساتھ سارا سال ہی خریداروں کو ہجوم رہتا ہے۔

گرمیوں میں پردے، پرس، جوتے اور جینز کے ساتھ شرٹس زیادہ فروخت ہوتی ہیں لیکن ہمارا اصل سیزن سردیوں کے موسم ہی میں لگتا ہے۔ جب جیکٹ، کوٹ، سویٹر کے ساتھ مفلر و دستانوں اور گرم جرابوں کی خریداری عروج پر ہوتی ہے اور لنڈا بازار میں جو کاروبار سے وابستہ ہیں ان سے نہ صرف لاہور کے دوسرے علاقوں میں سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کا کاروبار کرنے والے خریداری کرنے آتے ہیں بلکہ دیگر شہروں اور قصبوں میں کاروبار کرنے والے بھی اسی بازار کا رخ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب یہاں نہ صرف بڑی بڑی مارکیٹیں وجود میں آچکی ہیں جہاں بیرون ملک سے کراچی بندر گاہ پر مال آتا ہے۔

ان سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کی جنہیں پاکستان میں اب پوش علاقوں میں بھی فروخت کیا جا رہا ہے کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یورپی ممالک کے لوگ پرانے استعمال شدہ کپڑے اور دیگر اشیاء وہاں کے خیراتی اداروں کو دے دیتے ہیں جو وہاں سے مختلف بنڈلوں کی شکل میں پیک کر کے بند کیا جاتا ہے جنہیں امپورٹرز خرید کر کنٹینرز کے ذریعہ سے متعلقہ ممالک میں بھجواتے ہیں۔

جہاں سے یہ بنڈلوں کی شکل میں دیگر افراد یا ادارے خرید لیتے ہیں اور پھر ان کو کھول کر ان کی اچھی کوالٹی کو علیحدہ کر لیا جاتا ہے اور دوسرے تیسرے درجے کو ریڑھیوں والے لے لیتے ہیں جو نہ صرف مختلف بازاروں بلکہ محلوں میں بھی فروخت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔لاہور کا لنڈا بازار جہاں کبھی استعمال شدہ کپڑوں کی ایک محدود تعداد ہی فروخت ہوتی تھی اس وقت پاکستان میں استعمال شدہ ریڈی میڈ ملبوسات اور دیگر اشیاء سب سے بڑی مارکیٹ ہے جہاں سے پاکستان بھر میں ان کے منگوائے گئے سامان کی فروخت ہو رہی ہے اور جیسے جیسے مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے ویسے ویسے لوگوں کی جیب نئے اور مہنگے ریڈی میڈ ملبوسات خرید نے کی متحمل نہیں ہو سکتی تو وہ لنڈا بازار سے ہی استفادہ کرتے ہیں بلکہ امیروں کے بھی تن کو ڈھانپ رہی ہے۔

اس لئے وقت گزرنے کے ساتھ اس کی چیزوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے۔ اب اس کاروبار سے وابستہ افراد مختلف خریداروں کی ضرورت اور اپنے سامان کی کوالٹی کو دیکھ کر ہی قیمت کا تعین کرتے ہیں اور اس لئے اب لنڈا بازار میں اس کام سے وابستہ افراد ایسے سامان کو ہی منگواتے ہیں جن کی ہمارے ملک میں مانگ زیادہ ہوتا کہ ان کو ان کی مناسب قیمت مل سکے۔

آج کا لنڈا بازار اگرچہ استعمال شدہ ریڈی میڈ کپڑوں اور دیگر سامان کی وجہ سے تھوک کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے لیکن اس کا نام اب سارے ملک میں جہاں جہاں یہ کاروبار ہو رہا ہے اسی نام سے پکارا اور پہچانا جانے لگا ہے۔ یہاں سے اشیاء اگرچہ امیر و غریب سب خریدتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ غریب کی خریداری لنڈے کی خریداری کے زمرے میں آئے گی اور امیر کے زیب تن ہو تو یہ کسی غیر ملک میں مقیم انکل کا تحفہ تصور ہو گا۔ یہی لنڈے کا کمال ہے!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

Mausam e Sarma Ki Aamad Aur Landa Bazar is a investigative article, and listed in the articles section of the site. It was published on 11 December 2017 and is famous in investigative category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.