پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم

قونصل خانوں اور سفارتخانوں میں بیٹھے کرپٹ لوگ ملکی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں

منگل 15 فروری 2022

Pakistan Ko Riyasat e Madina Banane Ka Azm
امیر محمد خان
اقوام عالم میں پاکستانی پاسپورٹ کی وقعت کیسے بڑھے گی یہ ایک غور طلب امر ہے جس کے لئے موجودہ حکومت نے تو بڑے بڑے دعوے بھی کئے ہیں کہ اس کی قدر میں اضافہ کیا جائے گا اب تک کے کئے گئے اقدامات سے دور رس نتائج تو برآمد ہوئے ہیں لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

پاکستان کو کبھی ریاست مدینہ بنانے کی بات کی جاتی ہے تو کبھی اس کے نظام کا تقابل امریکہ،برطانیہ،ترکی،چین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے کیا جاتا ہے یہ سبھی خواہشات قابل قدر ہیں کم از کم اس سے محنت کو تو فروغ ملتا ہے مگر انہیں عملی جامہ پہنانے کیلئے مثبت کوشش کرنا لازمی ہے جس پر سابقہ حکومتی ادوار میں بھی توجہ نہیں دی گئی۔

(جاری ہے)

عالمی رپورٹس کے مطابق اس وقت پاکستانی پاسپورٹ دنیا میں 108 نمبر پر ہے کبھی یہ 88 پر بھی رہا ہے مگر اب بھی یہ تنزلی میں اضافے کی طرف گامزن ہے اگر ہم تقابلی جائزے کی طرف جائیں تو امریکہ اور برطانیہ وغیرہ کو بھول کر فی الحال ان ممالک میں چلے جائیں جہاں سے مقابلہ فی الحال بنتا ہے یعنی بھارت اور بنگلہ دیش وغیرہ تو انڈیکس بتاتی ہے کہ بھارت کا پاسپورٹ 83 نمبر پر اور اسے 60 ممالک میں ویزہ کی ضرورت نہیں ہے،بنگلہ دیش 104 نمبر پر ہے اور اسے 104 ممالک میں ویزہ درکار نہیں ہوتا جبکہ پاکستانی پاسپورٹ پر 38 ممالک میں ویزہ درکار نہیں اس تنزلی کی وجوہات کا جائزہ لیں تو اس بے توقیری میں 90 فیصد ہاتھ تارکین وطن کا اپنا ہے باقی 10 فیصد آپ ملک کے کرپٹ نظام اور حکومتی رٹ پر ڈال سکتے ہیں اس میں کسی ایک سیاسی جماعت کا مسئلہ نہیں بلکہ سب کے سب ایک ہیں،ہمارے سفارتخانے اور قونصل خانے بھی اس کے ذمہ دار ہیں بعض ممالک بالخصوص یورپ سکنڈے نیوین جیسے ممالک امریکہ،کینیڈا،برطانیہ،آسٹریلیا اور کئی اور یورپی ممالک میں مختلف طریقوں سے ملک کو بدنام کرکے سیاسی پناہ حاصل کرتے ہیں،کئی پاکستانی اپنے آپ کو ”قادیانی“ ظاہر کرکے سیاسی پناہ حاصل کرتے ہیں۔

سیاسی پناہ دینے والے ممالک ہمارے دوست نما دشمن ہیں جو ایسے افراد کی پشت پناہی کرتے ہیں۔الطاف حسین،بلوچ رہنماؤں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان میں اپنے خلاف جھوٹی ایف آئی آر سیاسی بنیادوں پر بنوائی اور اس بنیاد پر سیاسی پناہ حاصل کی۔
1978ء میں پاکستان تحریک آزادی صحافت کے دوران بھی کچھ لوگوں سے واقف ہوں جنہوں نے اس صحافتی تحریک کی ایف آئی آر کے حوالے سے جرمنی اور دیگر ممالک میں اپنے آپ کو غیر محفوظ کہہ کر سیاسی پناہ حاصل کی،ہمارے سفارتخانوں اور ملک کے اندر پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ نے افغانیوں،بنگالیوں،سری لنکن،برمیوں کیلئے پاسپورٹ لینا آسان کر دیا اور بھاری رقوم کے تحت پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جاری کئے۔

افغانیوں نے افغان مہاجر کا روپ دھارا کسی نے قبائلی علاقے میں ظلم کی داستانیں سنائیں کسی نے فوج کو بدنام کرکے یہ الزامات عائد کئے کہ ہمارے رشتہ دار ایجنسیوں نے غائب کئے ہمیں بھی خطرہ ہے اسی بنیاد پر سیاسی پناہ حاصل کی یہاں تک بعض تو اپنے مذہب بھی تبدیل کر لیتے ہیں،بعض نے اجتماعی زیادتی کا رونا رویا اور سیاسی پناہ حاصل کی،جعلی شادیاں کیں،جعلی نکاح ناموں اور پاکستان کے اصل پاسپورٹ پر تصاویر تبدیل کرکے جعلی ویزے لگوا کر پاکستان سے باہر گئے اور گرفتار ہو گئے،منشیات کے ساتھ ہوائی اڈوں پر گرفتاریاں ہوئیں،افغانی ہونے کے باوجود پاکستانی پاسپورٹ رکھا،گرفتاری پر بدنام تو پاکستان ہی کو ہونا ہے۔

قومی ایئر لائنز کا سٹاف بھی بیشتر موقع پر غیر ممالک میں غائب ہو جاتا ہے،تعلیم کے نام پر ملک سے جا کر وہیں کے ہو گئے تو یہ اسباب ہیں تب ہی تو پاکستانی پاسپورٹ مشکوک ہو گیا ہے اور اس کی وقعت دن بند کم ہوتی جا رہی ہے ان اقدامات سے بیرون ملک قانونی طور پر رہنے والے اور ملک کیلئے زرمبادلہ کمانے والے بھی بدنام ہوتے ہیں چونکہ مندرجہ بالا جرائم تمام دنیا کو معلوم ہیں کہ ہم کیا کیا وارداتیں کرتے ہیں کئی بھارتی خلیجی ممالک میں گرفتار ہو کر اپنے آپ کو پاکستانی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہاں کے قونصل خانوں،سفارتخانوں میں بیٹھے کرپٹ لوگ انہیں پاسپورٹ بھی کسی ذاتی مفاد کے نتیجے میں دے دیتے ہیں اگر ہماری ایجنسیاں،سفارتخانے اور قونصل خانے ان وارداتوں پر نظر رکھیں کوئی بھی غیر ملک میں جا کر ملک کی بدنامی کا سبب نہ بن سکے گا۔


دوسرا اہم مسئلہ پاکستان میں کئی میڈیا ہاؤسز اپنی مالی مشکلات کی وجہ سے بند ہو رہے ہیں جبکہ سعودی عرب میں خاص طور جدہ میں شوقیہ صحافیوں کا راج ہے،موبائل خریدنا،تصویر بنانا سیکھنا،جدہ قونصلیٹ کا دورہ کرکے وہاں کسی افسر کے ساتھ تصویر بنانا،قونصلیٹ کی انتظار گاہ میں سعودی عرب اور پاکستان کے جھنڈوں کے ساتھ بیٹھ کر تصویر بنا کر اسے اپنے فیس بک پر لگانا،اس بنیاد پر اپنے آپ کو سینئر صحافی کہنا اور قونصلیٹ نے اسے سینئر صحافی کی فہرست میں شامل کرکے ہر موقع پر دعوت دینا شروع کر دینا،ایک وقت تھا کہ یہاں صرف تجربہ کار صحافی تھے اور قومی اخبار و چینلز سے منسلک تھے اپنے روزگار کے ساتھ اپنے تجربہ سے فائدہ اُٹھا کر پاکستان اور سعودی عرب کے بہترین تعلقات کی تشہیر کرنا ان کا مقصد تھا اور ہے مگر جب سفیر پاکستان،قونصل جنرل یا وزیر اعظم اور کسی وزیر کی آمد پر قونصلیٹ کی فہرست کے مطابق صحافیوں کے نام پر جمعہ بازار لگ جائے تو کوئی تجربہ کار صحافی وہاں وجود بے کار ہی سمجھے گا اس جانب کئی مرتبہ پاکستان میں وزیر اطلاعات، وزارت اطلاعات کے اعلیٰ افسران،سفیر پاکستان،قونصل،جنرل کی توجہ دلائی مگر اب پسند نہ پسند کی بنیاد پر گروپ بن گئے ہیں اور ہر شخص کا دعویٰ ہے کہ وہ صحافی نہیں بلکہ سینئر صحافی ہے،قونصلیٹ میں پریس کے ذمہ دار کہتے ہیں ہم کسی کو منع نہیں کر سکتے بھائی اگر منع نہیں کر سکتے تو اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے،تجربہ دیا ہے تجربہ کار لوگوں اور موبائل بردار شوقیہ لوگوں میں تو کوئی لکیر کھینچ دو۔


گزشتہ دنوں سفیر پاکستان لیفٹیننٹ جنرل (ر) بلال اکبر نے صحافیوں کے اس جمعہ بازار سے ملاقات کی اور سخت مایوسی کا اظہار کیا،سفیر پاکستان کو تجربہ جس شعبے سے رہا ہے اُمید ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی مثبت فیصلہ کریں گے،شنید ہے ان کا تبادلہ وقت سے پہلے ہی ہو رہا ہے کم از کم جاتے جاتے وہ اس طرف توجہ دے دیں تو ان کے نیک کاموں میں ایک کام کا اضافہ ہو جائے گا،ورنہ نئے سفیر کے ساتھ پھر نئی کہانی شروع ہو گی اور آنے والے کو بھی مایوس کر دیا جائے گا یہ کہہ کر کہ ”صحافیوں میں گروپنگ ہے“ کہنے والے یہ نہیں بتاتے کہ کون نیشنل میڈیا سے ہے،کیا تجربہ رکھتا ہے،گروپنگ ضرور بتا کر اپنی زندگی کا سہل بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں وزارت اطلاعات کو پاکستانی میڈیا پر حکومتی تشہیر سے فرصت نہیں ہے وہ بیرون ملک ان معاملات کو کیا دیکھے گی۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Pakistan Ko Riyasat e Madina Banane Ka Azm is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 February 2022 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.