کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں

”روٹی،کپڑا اور مکان“ کا نعرہ لگانے والی جماعت طویل ترین اقتدار کے باوجود مسائل حل نہ کرا سکی

ہفتہ 12 فروری 2022

Kissan Sindh Hakomat Ki Ehtejaji Tehreek Mein Shamoliyat Se Gurezaan
آر ایس آئی
پاکستانی سیاست میں کسانوں کے بنیادی حقوق کو سب سے پہلے اپنے جماعتی منشور کا حصہ بنانے والی جماعت پیپلز پارٹی ہی تھی یا ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں پاکستان کے کسان اپنے دیرینہ مسائل کے حل اور حقوق کے لئے جس واحد سیاسی جماعت پر ہمیشہ سے اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے آئے ہیں اس جماعت کے نامِ نامی کے طور پر پیپلز پارٹی کے سوا کوئی دوسرا نام لیا ہی نہیں جا سکتا ہماری دانست میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کا سب سے بڑا سیاسی کارنامہ ہی یہ تھا کہ انہوں نے روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر ملک کی بیشتر دیہی آبادی کو کمال سیاسی مہارت سے اپنی جانب متوجہ کیا اور بعد ازاں ان کی اسی غریب پرور طرز سیاست نے ”مسٹر بھٹو“ کو طبقہ اشرافیہ کا ایک اہم اور کلیدی کردار ہوتے ہوئے بھی ”قائد عوام“ کے جلیل القدر عوامی منصب پر لا بٹھایا اس لئے ہم کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر پیپلز پارٹی کو پاکستانی کسان کی جانب سے بے پناہ سیاسی حمایت اور غیر معمولی مقبولیت حاصل نہ ہو پاتی تو اس جماعت کے لئے اقتدار کی راہ داریوں تک پہنچ پانا، ناممکن نہیں بہت مشکل ضرور ہوتا چونکہ پیپلز پارٹی کو اقتدار تک پہنچانے میں سب سے بڑا محرک کسان ثابت ہوئے تھے اس لئے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی مانند ان کی صاحبزادی شہید بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے ہر دور اقتدار میں کسانوں کی فلاح و بہبود اور انہیں زیادہ سے زیادہ معاشی آزادی بہم پہچانے کے بے شمار نت نئی حکومتی پالیسیاں متعارف کروائیں جن کے فوائد براہ راست یا بلاواسطہ کسی نہ کسی حد تک ہر کسان کی دہلیز تک وقتاً فوقتاً پہنچتے بھی رہے۔

(جاری ہے)


شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں آج بھی ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی کے دور اقتدار کو حسرت ویاس کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور کسان کے مابین یہ ”سیاسی رومان“ شہید بے نظیر بھٹو کے اس جہان فانی سے رخصت ہونے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچا اور اب تو پیپلز پارٹی میں کسی کو یاد بھی نہیں ہو گا کہ ”کبھی کسان بھی پیپلز پارٹی کے سینے میں دل کی مانند دھڑکتے تھے“ شاید یہی وجہ ہے کہ رواں ہفتے جب پیپلز پارٹی نے کسان،ٹریکٹر،ٹرالی ریلی نکالی تو اسے دیکھ کر ایک بار پھر سے بھولی بسری سی پرانی یادیں تازہ ہو گئیں کہ ”اخاہ!یہ تو وہی سیاسی جماعت ہے جس کی داغ بیل کبھی کسانوں نے اپنے حقوق کے لئے ڈالی تھی“ حالانکہ ”کسان،ٹریکٹر،ٹرالی ریلی“ میں کسانوں کا وہ ہجوم دکھائی نہیں دیا جو کبھی ماضی میں پیپلز پارٹی کے جلسے،جلوس اور ریلیوں میں نظر آیا کرتا تھا بہرحال پھر بھی یہ ایک بڑی بات ہے ایک طویل مدت بعد ہی سہی پیپلز پارٹی کی قیادت کو کسانوں کی یاد تو آئی اور جواب میں کسانوں نے بھی غیر معمولی نہ سہی لیکن کافی بھرپور انداز میں ”کسان،ٹریکٹر،ٹرالی ریلی“ میں شرکت کرکے پیپلز پارٹی کے ساتھ اپنی دیرینہ وابستگی کا ثبوت دیا۔


پیپلز پارٹی کی جانب سے ”کسان،ٹریکٹر،ٹرالی ریلی“ وفاقی حکومت کی کسان دشمن پالیسیوں کے خلاف بطور احتجاج نکالی گئی تھی لیکن اگر پیپلز پارٹی کی قیادت کے نزدیک ملک گیر کسان ریلیاں نکالنے کا یہی ایک مقصد تھا تو پھر معذرت کے ساتھ ”کسان،ٹریکٹر،ٹرالی ریلی“ کے نکالنے کا جواز صوبہ سندھ میں تو بالکل بھی نہیں بنتا تھا کیونکہ سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کا نام و نشان بھی نہیں پایا جاتا اور یہاں گزشتہ 12 برس سے پیپلز پارٹی بلا شرکت غیرے اقتدار پر متمکن چلی آ رہی ہے بلکہ حالیہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو دو تہائی کے قریب اکثریت حاصل ہے۔

سندھ میں اتنا مستحکم،مضبوط اور طویل اقتدار کی موجودگی میں کسانوں کے حقوق کے لئے احتجاجی ریلی نکالنا،اگرچہ معنی داردہاں اگر پیپلز پارٹی‘کسان ٹریکٹر،ٹرالی ریلی“ کا احتجاج کرکے مقتدر حلقوں کے سامنے اپنی سیاسی طاقت اور عوامی مقبولیت کا اظہار کرنا چاہتی تھی تو بلاشبہ اس نے یہ ہدف کم از کم سندھ کی حد تک تو کامیابی کے ساتھ حاصل کر ہی لیا ہے جبکہ دیگر صوبوں میں پیپلز پارٹی کی طرف سے جتنی بھی ”کسان ٹریکٹر،ٹرالی ریلیاں“ نکالی گئی ہیں ان میں عوام کی دلچسپی اور شرکت نہ ہونے کے برابر ہی کہی جا سکتی ہے خاص طور پر صوبہ پنجاب میں جہاں کے دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی کو کبھی مقبول ترین سیاسی جماعت ہونے کا اعزاز حاصل تھا آج اگر وہاں کا کسان پیپلز پارٹی کے احتجاج میں شرکت سے گریزاں ہے تو یقینا اس متعلق پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو سنجیدگی سے غور و فکر کرنا چاہئے۔


دوسری جانب 27 فروری سے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ملک گیر لانگ مارچ نکالنے کا اعلان بھی کیا ہوا ہے لہٰذا اس تناظر میں بھی ”کسان،ٹریکٹر،ٹرالی ریلی“ کو سیاسی حلقوں میں ایک بڑی سیاسی ایکٹیویٹی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے یعنی مذکورہ ریلی کو وفاقی حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف متوقع ملک گیر لانگ مارچ سے پہلے اپنے کارکنان میں سیاسی تحریک پیدا کرنے کی ایک بھرپور اور اچھی کاوش قرار دیا جا سکتا ہے گوکہ ایک دن کی ”کسان ٹریکٹر،ٹرالی ریلی“ سڑک پر نکل آنے سے غریب کسان کے احوال میں ذرہ برابر تبدیلی کی اُمید رکھنا بھی سراسر بے وقوفی ہو گی مگر پھر بھی کسانوں کے حقوق کے نام پر ریلی نکلنے سے یہ احساس تو پاکستان کے سیاسی افق پر ضرور ثبت ہوا ہی ہو گا کہ سیاسی جماعتوں نے ابھی تک کسانوں کو مکمل طور پر فراموش نہیں کیا ہے اور آئندہ جب بھی انہیں عوامی مدد و حمایت کی ضرورت ہو گی تو اس کے حصول کے لئے کسانوں کو بھی احتجاج کے لئے پکارا جا سکتا ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Kissan Sindh Hakomat Ki Ehtejaji Tehreek Mein Shamoliyat Se Gurezaan is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 February 2022 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.