نظامِ تعلیم اور پریکٹیکل شوز

بہتر ہو کہ امتحانی اور پریکٹیکل سنٹرز میں سی سی کیمرے لگوائیں اور دیکھیں کہ کس طرح امتحانی ڈیوٹیاں لگوانے کے دلدادہ معمارانِ قوم امتحان دینے والے بچوں کے سر پر کھڑے ہو کر قصہ خوانیاں کرتے ہیں ،خوش گپیوں اور قہقہوں سے بچوں کو ڈسٹرب کرتے ہیں

Amjad mahmood chishti امجد محمود چشتی پیر 22 جولائی 2019

nizam e taleem aur practical shows
 افسوسناک امر ہے کہ ہمارا نظام تعلیم اغیار کی پیروی اور امداد کے موجب تاثیر کی خوشبو سے محروم ایک کاغذ کاپھول بن چکا ہے۔نمبرز اور گریڈ کی اندھی دوڑنے اخلاقیات ، حقیقی ذہانت اور پیشہ ورایت کو روند کر تعلیمی انحطاط کی دلدل میں دھنسنے کا تہیہ کر لیا ہے ۔ گویا ہم محض زوال پذیر ہی نہیں بلکہ بخوشی زوال آمادہ بھی ہیں۔
طریقہ ہائے تدریس و امتحانات زمینی حقائق اور عصری تقاضوں سے کوسوں دور ہیں ۔

لوگ اپنے بچوں کے سامنے اپنے تعلیمی ریکارڈ کھولتے ہچکچاتے ہیں ۔آج کے بچے کا بچپن خطرناک دباؤ کا شکار ہے ۔اسے ہر حال میں اچھے نمبر لینے ہیں ۔ پھر روایتی پریکٹیکل امتحان کا انعقاد سونے پہ سہاگہ ہے ۔بنظرِ غائر دیکھیں تو قابلِ رحم بچہ ہے۔ پہلا ستم یہ کہ اسے سکول یا کالج میں پریکٹیکل کی تیاری سرے سے کروائی ہی نہیں جاتی جبکہ پریکٹیکل کے تیس نمبر نتیجے میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں اور بچہ فیل تک ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

کچھ اداروں خصوصاََ سرکاری اداروں میں تو لیبارٹریز اور اپریٹس کو ہو ا بھی نہیں لگوائی جاتی۔رہی سہی کسر عملی امتحان کے ممتحن پوری کر دیتے ہیں ۔
کچھ ممتحن دیانت داری سے زمینی حالات کے پیش نظر بغیر کسی لالچ کے فرائض بجا لاتے ہیں مگر اکثریت اپنی دیانت داری یا پھر بد دیا نتی سے مغلوب ہوکر طلباء و طالبات کیلئے گھمبیر مسائل پیدا کرتے ہیں ۔

وہ یوں کہ کچھ غیر سنجیدہ ممتحن تعلقات یا مالی فوائد کے پیش نظر بچوں سے امتیازی سلوک کرتے ہیں ۔بنا پرکھے کم یا زیاد ہ نمبر لگاتے ہیں ۔ دوسری طرف کچھ ممتحن ایمانداری کے زعم میں بچوں کو نفسیاتی و اخلاقی ہراساں کرتے ہیں مگر افسوس کہ ایک ہی ہال کے نیچے سفارشی طلبا ء کو سرِ عام کتابیں کھول کر لکھوایا اور غریب اور پہنچ نہ رکھنے والوں کی باقاعدہ تضحیک کی جاتی ہے۔

ایسے بد اخلاق ممتحن استاد کے نام کی توہین ہیں ۔بے شمار مقامات پہ دیکھا گیا ہے ایسے چڑچڑے ممتحن دوران امتحان طلبا ء طالبات کے اساتذہ، ادارے اور والدین کو مسلسل برا بھلا کہتے ہیں ۔انہیں باور کراتے ہیں کہ آپ کے ٹیچر حرام خور ہیں اور والدین بے وقوف و بے ایمان ہیں ۔ اب بتائیں کہ ان حالات میں بچہ پریکٹیکل دینے اور لکھنے کے قابِل رہ سکتا ہے۔

ٹیچر اور والدین کی کوتاہیوں کی سزا بچے کو ہی کیوں ؟۔ نفسیاتی طور پرطلباء پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے اور اپنے جذبات اور غصے کو کیسے قابو میں رکھتے ہیں ؟ چند برس قبل اس ظالمانہ اسلوب کو ختم کرکے تحریری امتحان میں ہی ضم کیا گیا مگر تعلیمی بورڈز کے ناخداؤں اور عادی ممتحین کی ساکھ ، وقار اور کچھ نابلِ ذکر امور خطرے میں پڑ گئے اور پھر سے پرانا طریقہ رائج کیا ۔

وزیر تعلیم سے خصوصی استدعا ہے کہ ان امتحانوں کے میکنزم کا جائزہ لیں۔ضروری ہے کہ فرض شناس اور با اخلاق اسا تذہ کو ممتحن بنایا جائے اور اس سے قبل اخلاقیات کا ریفریشر کورس کروا ئے جائیں ۔تاکہ بچے پر سکون ماحول میں بغیر ٹارچر ہوئے امتحان دے سکیں ۔بہتر ہو کہ امتحانی اور پریکٹیکل سنٹرز میں سی سی کیمرے لگوائیں اور دیکھیں کہ کس طرح امتحانی ڈیوٹیاں لگوانے کے دلدادہ معمارانِ قوم امتحان دینے والے بچوں کے سر پر کھڑے ہو کر قصہ خوانیاں کرتے ہیں ،خوش گپیوں اور قہقہوں سے بچوں کو ڈسٹرب کرتے ہیں۔

سیل فون ان کے کانوں سے الگ ہی نہیں ہوتے اور ہر بیس منٹ بعد چائے اور اشیائے بیکری کی کھیپ کمرہ امتحان میں لائی جاتی ہیں اور کیسے شکم پروری کے مراحل طے پاتے ہیں ؟ یہ سب اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھنے والے بچوں سے معاشرے کے اچھے شہری بننے کی توقع رکھنا دیوانے کا خواب نہیں تو اورکیا ہے ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

nizam e taleem aur practical shows is a Educational Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 July 2019 and is famous in Educational Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.