چھوٹے ڈاکٹرسے بڑے ڈاکٹر تک

پیر 6 اپریل 2015

Aamir Khan

عامر خان

ہمارے خاندان کی ایک بڑی بزرگ انتقال کر گی تواُن کے جنازے میں شرکت کے لیے اپنے گاؤں گیا ۔بڑی بزرگ کی وفات کا صدمہ سب کو تھا اُن کے اہلخانہ میں ایک لڑکی صدمہ سے نڈھال تھی طبعیت نہ سنبھل سکی تو ایک ڈاکٹر صاحب کو بُلایا گیا ڈاکٹر صاحب کی شکل صورت پہ بات نہیں کروں گا ۔ڈاکٹر صاحب نے آتے ہی اپنے بیگ سے سرخ رنگ کا محلول کی شیشی نکالی اور ٹیکہ لگا دیالڑکی کی طبیت پہلے سے بھی خراب ہو گی اور وہ لگ بھگ بے ہوش ہو گی ڈاکٹر صاحب نے حکم جاری کیا کے لڑکی کو آرام آگیا ہے اسے سونے دیا جائے۔

اب قریبی گھر ہونے کی وجہ سے میں پاس ہی موجود تھا میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کے کس چیز کا انجکشن لگا دیا آپ نے نہ آپ نے بلڈپریشر چیک کیا نہ بخار دیکھا ْجس پر ڈاکٹر اپنا بیگ ٹھیک کرتھے ہو ے ہنس کے بولے سکون کا انجکشن لگایا۔

(جاری ہے)


مجھے ڈاکٹر کی دماغی حالت پہ شک ہونے لگا۔میں نے جب اپنا چھوٹا سا تعارف کروایا تو پریشان ہونے کیساتھ میرے خاندان کے ساتھ اپنے تعلق بتانے لگا اور چائے پیتے ہوے مجھے پہ اپنی ڈاکٹری کا ناکام ُرعب ڈالتے ہوے بولا کے میں جتنا بھی بخار والا مریض ہو میں اسے ایک ہی انجکشن سے ٹھیک کر سکتا ہوں میں نے جب پوچھا ڈاکٹر صاحب وہ کیسے تو ڈاکٹر صاحب بڑے فخر سے جانوروں کو لگانے والی ایک ویکسن کا نام بتا کر کہنے لگے اگر اس کی ایک مخصوص مقدار کا ٹیکہ مر یض کو لگایا جائے تو وہ گھوڑا کی طرح فٹ ہو جا ے گا ۔

میں ابھی ڈاکٹر صاحب کی اس راکٹ سائنس سے حیران بیٹھا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے جاتے ہی میرے ایک عزیز مجھے بتانے لگے کے کچھ دن پہلے میرے بھائی کا بلڈپریشر لو تھا جب ڈاکٹر صاحب کو دیکھایا تو ڈاکٹر صاحب نے نبض دیکھ کر بتا یا کے بلڈپریشر ہائی ہے ہر بلڈ پریشر لو کرنے کی دوائی دے دی جس سے بھا ئی کی حالت اور خراب ہو گی اور اُن کو ہم شہر بڑے ہسپتال لے گے اور ادھر بڑے ڈاکٹر صاحب کی دوائی سے بھا ئی ٹھیک ہو گے۔

مجھے اب سمجھ آئی کے یہ وہ نجومی ڈاکٹر ہیں جو ہر مرض کا علاج نبض دیکھ کے کرتے ہیں۔
میں نے اُن سے کہا کے یہاں ایسے ڈاکٹرسے آپ لوگ علاج کیوں کرواتے ہیں تو وہ بتانے لگے یہا ں سب ایسے ہی ڈاکٹر ہیں مجبوری ہے ادھر اور کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔میں نے وہاں کے سرکاری ہسپتال کا پوچھا تو وہ بولے بڑے ڈاکٹر صاحب تو ڈاکو ہیں میں بہت حیران ہوا اور پوچھا وہ کیسے تو اُن کے جواب سے میں مزید حیران ہو گیا وہ لمبی آہا بھر کے بولے پہلے تو ڈاکٹر صاحب آتے نہیں اور جب بھی آتے ہیں تو زیادہ تر وہ داوئی لکھ کے دیتے ہیں جو یہاں سے ملتی بھی نہیں اور اپنے شہر والے بڑے ہسپتال آنے کا کہتے ہیں جہاں مہنگی فیس کے سا مہنگی دوائی بھی ہسپتال سے مل جاتی ہے ۔

شہر بڑے ہسپتال جا کے ہزاروں روپے لگ جاتے ہیں اور ادھر گاوں میں ہمیں چھوٹے ڈاکٹرسے سستی دوائی مل جاتی ہے۔
عطائی ڈاکٹروں کو کامیاب کرنے میں ان بڑے ڈاکٹر جن کو ایم بی بی ایس کہا جاتا اُن کا ہاتھ کافی حد تک ہے ۔بڑے ڈاکٹر جن کو حکومت ہاتھ باندھ کر ہزاروں روپے تنخواہ بھی دیتی ہے ان کے نخرے بھی اُٹھاتی ہے کیونکہ بڑے ڈاکٹر کسی بھی مطالبے کے پورے نہ ہونے پہ کا م چھوڑ دیتے ہیں۔

یہ بڑے ڈاکٹر پہلے تو سرکاری ہسپتالوں میں ملتے نہیں جو ڈاکٹر ملتے ہیں وہ مریضوں اپنے ذاتی کلینک پر آنے کی دعوت کے علاوہ کچھ نہیں کرتے کیونکہ ذاتی کلینک پہ لمبی فیس کے ساتھ ہر دوائی کی فروخت پر بھی ان کو اپنا حصہ ملتا ۔
ایک میڈیکل ریپ سے میری جب اس بارے میں بات ہوئی تو اس کا کہنا تھاڈاکٹر حضرات کو میڈیسن کے میعاری ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتاڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ہمیں کیا ملے گا آپ کی میڈیسن لکھنے سے ۔

یہاں تک کے میڈیسن کمپنی اب ڈاکٹر حضرات کے لیے پیکج دیتی کے جس میں ٹی وی ․فریج ا ے سی ا ور نقد رقم شامل ہے ۔یہا ں تک کے ڈاکٹرحضرات کو خو ش کرنے کے لیے ان کی بیگموں کے کپڑوں پر کڑھائی بھی میڈیکل ریپ کروا کے دیتے ہیں۔ اب میڈیکل سٹور والوں کا حال سن لیں جھنگ جیسے پسماندہ شہر کے ایک ہسپتال کی فارمیسی کا ماہانہ کرایہ ا یک لاکھ روپے ہے اس کا انکشاف بھی اس طرح ہواکہ سٹور پر میڈسن لینے والا ایک مریض سٹور کے مالک سے کہے رہا تھا کے ڈاکٹر صاحب کہے رے ہیں یہ اُس کمپنی کی میڈسن نہیں ہے جو میں نے لکھی ہے جس پھر سٹور کا مالک بولا ڈاکٹر صاحب سے جا کے کہو کے اُس کمپنی کا صرف آپ کو فائدہ ہے ہمیں اس میں کچھ نہیں بچتا ہم ایک لاکھ کا کرایہ جیب سے دیں۔


اب بڑے اور چھوٹے ڈاکٹروں کے بعدایک اور ڈاکٹر بھی آج کل عام ہو گے ہیں جن کو چائنا کا ڈاکٹر کہا جاتا ہے یہ آپ کو سرکاری ہسپتالوں میں پریکٹس کرتے نظر آئیں گے یہ وہ ڈاکٹر ہیں جو پڑھ کر تو چین سے آتے ہیں پر تجربہ پاکستان کے لوگوں پہ پریکٹس کر کے حاصل کر تے ہیں۔ان میں ذیادہ تر بڑے ڈاکڑوں کے بچے شامل ہیں جو یہاں میرٹ نہ بنے پہ پیسے کی بدولت وہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں جیسے ایک
سیاست دان کے بچے کو بھی لازمی سیاست دان بنا ہوتا اسی طرح ڈاکٹر کے بچوں کو بھی ڈاکٹر لازمی بنا ہوتا بے شک وہ اس قابل ہو نہ ہو۔


اور میں صحافی ڈاکٹروں کا تو ذکرکرنا کیسے بھول سکتا ہوں یہ وہ چھوٹے عطائی ڈاکٹر ہیں جو اپنا کالے کرتوت چھپانے کے لیے کیسی بھی اخبار کی نمائندگی لے لیتے ہیں اور ان کا کلینک اخبار کا دفتربھی ہوتا ۔
ہر بڑے اور چھوٹے ڈاکٹر سے اپنی اس ناقص عقل سے لکھے ان بے ا ثر لفظوں کی اس تحریر کاایک جملہ بھی غلط ثابت کرنے پہ ہر سزا کے لیے تیار ہوںْ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :