اپنی زمین

بدھ 29 جولائی 2020

Aasim Irshad

عاصم ارشاد چوہدری

بیٹا مجھے ٹی وی کا ریموٹ دینا میں خبریں سن لوں،   یہ فقرہ مسلسل پچھلے تین گھنٹوں میں پانچویں مرتبہ سنا تو میں چونک گیا میں نے دیکھا کہ ایک 80 سال کے ہشاش بشاش نظر آنے والے بزرگ ایک 6 سال کے بچے کو کہ رہے تھے، لیکن وہ بچہ کافی دیر سے ٹی وی پر کارٹون دیکھنے میں مصروف تھا تو وہ ان بزرگ جو رشتے میں اسکے دادا لگتے تھے انکی بات کو مسلسل نظر انداز کر رہا تھا،
میں ان باتوں کو کافی دیر سے نوٹ کر رہا تھا  میں نے ان بزرگ کو دیکھا تو ان کے چہرے کے تاثرات سے آنکھوں کی چمک سے اور بیٹھنے کے انداز سے ایسا لگتا تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی بڑی ٹھاٹھ اور شاندار طریقے سے گزاری ہے، لیکن یہاں پر جب وہ اپنے پوتے سے کہتے کہ مجھے کچھ دیر کے لئے خبریں سن لینے دو، تو اس فقرے میں جو بے بسی، لاچارگی اور درد دیکھا وہ میں بیان نہیں کر سکتا،
میں وہاں اپنے کسی دوست سے ملنے گیا تھا جو ان بزرگ کا کوئی قریبی رشتہ دار تھا اس سے ان بزرگ کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ یہ بزرگ  1939 کو بھارتی پنجاب کے ضلع امرتسر کی تحصیل اجنالہ کے ایک کھاتے پیتے گھرانے میں پیدا ہوئے، تب جنگ آزادی کے مسائل عروج پر تھے انہی حالات میں وہ پلے بڑھے اور 1947 میں وہ امرتسر چھوڑ کر گوجرانولہ آگئے اور ادھر سے اپنا تعلیمی سلسلہ شروع کیا 1956 میں انہوں نے لاہور سے میٹرک کیا، اور پھر بھارت سے آئے مہاجرین کو جب حکومت نے زمین الاٹ کرنی شروع کی تو انہیں جنوبی پنجاب کے ایک گاؤں میں زمین ملی اور وہ گوجرانولہ سے بہاولپور کے نزدیک گاؤں میں آکر رہائش پذیر ہو گئے،
تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا اور کھیتی باڑھی شروع کر دی اپنے والد کے ساتھ یہ سلسلہ یونہی چلتہ رہا بعد ازاں شادی ہو گئی تو گاؤں میں زمین وغیرہ کے لحاظ اور تعلیم کے اعتبار سے دوسرے لوگوں میں ممتاز تھے تو لوگوں کے کہنے پر وہ گاؤں کے نمبردار بن گئے،
اور اپنے علم اور اللّٰہ کی طرف سے ملی فہم و فراست کی وجہ سے بڑے بڑے فیصلے کرنے لگے اور آس پاس کے گاؤں والے بھی اپنے مسلئہ لے کر ان کے پاس آنے لگے اور لوگ انکو چوہدری کرم دین کے نام سے جاننے لگے،
اللّٰہ نے شادی کے بعد چھ بیٹے عطاء کئے جن میں سے دو اس وقت آرمڈ فورسز میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ایک سرکاری سکول کا ہیڈ ماسٹر ہے اور باقی تین بھی زمینداری اور کھیتی باڑھی وغیرہ دیکھتے ہیں،
مدعا یہ تھا کہ میرے اندازے کے مطابق واقع انہوں نے اپنی زندگی بڑی شاہانہ انداز سے گزاری ہے،
اب جب میں نے پوچھا کہ آج کل یہ کیوں ایسے ہیں اور اپنے پوتے کی منتیں کر رہے ہیں کہ مجھے خبریں سن لینے دو، تو وہ کہنے لگا کہ دراصل یہ اپنے ادھر اپنے بیٹے کے پاس رہنے آئے ہیں تو بیٹے کے گھر میں رہتے ہوئے اسکی اولاد سے سختی سے پیش آتے ہوئے ڈر لگتا ہے،
مجھے بڑا تعجب ہوا تو میں ان سے اجازت لے کر واپس آگیا اور سوچنے لگا کہ کیا یہ چودھری کرم دین وہی ہے جس کی 3 مربع زمین تھی گاؤں والے اسی چودھری کے فیصلے پر سارے کام کرتے تھے اور آج یہ وہی چودھری کرم دین اپنے پوتے سے ڈر رہا ہے،
تو بات دراصل یہ ہے کہ انسان جب اپنے گھر ہوتا ہے اپنی زمین پر بیٹھا ہوتا ہے تو اسے فکر نہیں ہوتا لیکن جب وہی شخص اپنے اولاد کے دروازے پر آجاتا ہے تو بڑا محتاط ہو جاتا ہے ڈرنے لگتا ہے کہ کہیں بیٹے بہو یا انکے بچوں کو میری کوئی بات بری نا لگ جائے، تو اس واقعہ کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ انسان کبھی کبھی بڑا بے بس ہو جاتا ہے اور سب سے بری بے بسی اولاد کی وجہ سے بے بس ہونا ہے ، ہمیں کوشش کرنی ہے کہ ہمارے بزرگ ہمارے بڑے زندگی میں کبھی ہماری وجہ سے بے بس نا ہوں اگر وہ اپنی اولاد کی وجہ سے بے بس ہوتے ہیں تو ہم خسارے میں ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :