حضرت واصف علی واصفؒ کی زندگی کا مختصر خلاصہ

ہفتہ 16 جنوری 2021

Abdullah Khan

عبداللہ خان

تو ہی بتاکہ تجھے کیا کہے ترا    واؔصف!
ملے زباں کو دل، يا عطا ہو دل کو زباں!
اِس شہرۂ آفاق کلام کے خالق، اور دورِ جدید کے صوفی  منش فلسفی ، واصف علی واصف ؒ،  15 جنوری 1929ء کو ، پنجاب کے ضلع خوشاب کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے، آپ ؒ کا شجرۂ نسب، باب العلم حضرت علی ؓ سے ملتا ہے۔
معاشرے کے مروّجہ دستور کے مطابق، آپ ؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کی، کم سِنی میں ہی آپ کی اٹھان، اور علمی ذوق کو بھانپتے ہوئے  آپ کے والد نے جون 1939ء میں  آپ کو جنوبی پنجاب کے علاقےجھنگ بھیج دیا، جہاں آپ کا ننھیال آباد تھا، آپ کے نانا ،ناصرف ایک ممتاز ماہرِ تعلیم تھے بلکہ تحریکِ پاکستان  میں بھی سرگرم تھے، یوں آپ نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد کو بہت قریب سے دیکھا، اسی لیے وطن کی محبت آپ کے خمیر میں شامل تھی۔

(جاری ہے)


برصغیر میں سیاسی گہما گہمی کے دور میں آپ ؒ کے جوہر بھی خوب کُھلے اور حصولِ تعلیم کے ساتھ ساتھ آپؒ کو مختلف مصنفین کی تحریریں پڑھنے کا موقع ملا۔ جھنگ کے سرکاری سکول سے ، آپ نے میٹرک  اور گورنمنٹ کالج سے گریجویشن امتیازی حیثیت میں مکمل کی، قیامِ پاکستان کے بعد آپؒ نے اعلیٰ تعلیم کے لیے انگریزی کے مضمون اور گورنمنٹ کالج لاہور کا انتخاب کیا، جھنگ سے لاہور منتقل ہوئے تو کالج کے ہاسٹل میں سکونت اختیار کی۔


یہاں بھی تعلیم کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں شمولیت کا سلسلہ جاری رہا، کھیل کا میدان ہو یا گفتگو کی مجلس، واصف علی واصفؒ ہر جگہ نمایاں نظر آتے، 1948ء میں آپ کی شاندار کارکردگی کے پیشِ نظر آپ کو ہاکی کے میدان میں کالج کلر عطا کیا گیا، اگلے ہی سال نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں غیر معمولی کارکردگی پر آپؒ ایوارڈ آف آنر کے حق دار قرار پائے۔


تعلیم سے فراغت کے بعد بھی افتادِ طبع نے چین نہ لینے دیا اور آپ ؒ نے ویسٹ پاکستان پولیس ٹریننگ کا اعزازی سرٹیفکیٹ حاصل کیا، یہاں بھی دورانِ تربیت آپ ؒ کی  غیر معمولی دلچسپی اور خدمات کو سراہا گیا۔
27 ستمبر 1954ء کے پنجاب گزٹ کے مطابق آپ نے سول سروس کا امتحان بھی پاس کیا لیکن سرکاری ملازمت  آپ کے مزاج سے میل نہ کھاتی تھی، اسی لیے آپ نے اس نوکری کے بجائے تعلیم و تدریس کے میدان کا انتخاب کیا،
ریگل چوک لاہور میں قائم پنجابی کالج سے  آپ نے تدریسی سفر کا آغاز کیا اور جلد ہی ادارے کے مقبول ترین معلم بن گئے، آپ نے انار کلی  بازار لاہور کے قریب نابھہ روڈ پر اپنے تعلیمی ادارے کی  لاہور انگلش کالج کے نام سے بنیاد ڈالی۔


یہاں ہر کس و ناکس کو اُن سے ملاقات کی اجازت تھی، آپؒ کے ملنے والوں میں شعراء و ادیب بھی ہوتے اور صحافی و مفکرین بھی، بیوروکریٹس اور وکلاء بھی فیض یاب ہوتے اور طلبہ بھی علم کی پیاس بجھاتے، آپؒ  ہر ایک کے دِل کی کھیتی یکساں طور پر سیراب کرتے۔مختصر جملوں میں گہری حقیقتوں کے بیان کا منفرد اسلوب جلد ہی آپ کی پہچان بن گیا، آپ ؒ نے تنبیہ کے بجائے تلقین کا طریقہ اختیار کیا، آپؒ کی گفتگو کا محور ناصرف دنیاوی کامیابی  ہوتا بلکہ اخروی فلاح بھی ہمیشہ آپؒ کا مطمح نظر رہتا، آپ ؒ نے روشن عاقبت  کے انتہائی پیچیدہ رازوں کو اتنے سادہ اور عام فہم انداز میں بیان کیاکہ لوگ آپ کے گرویدہ ہو گئے اور آپ کی تحریر کی چاشنی ایک بار چکھ لینے والا کبھی اس لذت کو فراموش نہ کر سکا۔


آپ ؒ کی شہرت سُن کر دور دراز سے علم کی شمع کے پروانے کھنچے چلے آتے اور دِن بھر ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہتا، لوگ اپنی زندگی کے الجھے ہوئے مسائل لے کر آپ کی مجلس میں آتے اور ذہنی سکون اور اطمینان کی دولت لے کر لوٹتے، آپؒ کی گفتگو    میں اللہ کریم نے ایسی تاثیر عطا کی تھی کہ آپؒ بولتے اور لوگ بلا تکان گھنٹوں آپ ؒ کو سنا کرتے، پہلے پہل آپؒ کے ملاقاتیوں کی محفلیں لاہور کے لکشمی چوک میں جما کرتی تھیں  جو بعد میں قذافی اسٹیڈیم میں منتقل ہو گئیں، ایک طویل مدت تک علمی مجالس  اسی مقام پر جاری رہیں، پھر آپؒ نے اپنے چاہنے والوں کو اپنی قیام گاہ پر مدعو کرنا شروع کر دیا،  یوں علم کے پیاسوں  کا ہجوم ان کے گھر  جمع  ہونے لگا۔


آپ کی محافل کا تذکرہ دور دراز تک پہنچانے کے لیے آپ کے قدر دانوں نے آپؒ کی گفتگو کو ضبطِ تحریر میں لانا شروع کر دیا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے آپ کی 30 سے زیادہ تصانیف تیار ہو گئیں جن میں دنیا کے ہر موضوع پر خوشہ چینوں کے لیے علم کے گراں قدر موتی  موجود ہیں۔
 قطرہ قطرہ قلزم، کرن کرن سورج، حرف حرف حقیقت، دِل دریا سمندر، بات سے بات، مکالمہ، ذکرِ حبیبﷺ، دریچے اور گفتگو آپ کی نمایاں تصانیف ہیں۔

آپ ؒ نے نثر کے علاوہ شاعری میں بھی طبع آزمائی کی اور شاعری کا مجموعہ  شبِ چراغ کے نام سے منظرِ عام پر آیا۔
آپؒ نے ایک بار فرمایا تھا کہ: عام لوگوں کی طرح بڑے لوگ بھی مرتے ہیں، لیکن فرق صرف یہ ہے کہ اُن کی موت اُن کی عظمت کو چار چاند لگا دیتی ہے
خلقِ خدا میں خالق کا نور یعنی علم بانٹتے بانٹتے یہ صوفی اور درویش 18 جنوری 1993 کو اُسی خالقِ حقیقی کی جانب لوٹ گیا، انا للہ و انا الیہٖ راجعون، واصف علی واصفؒ کی آخری آرام گاہ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں ہے، جہاں ہر وقت اِس علم کے سمندر سے فیض یاب ہونے والے سوگواروں کا ہجوم رہتا ہے۔

ہرسال 22 رجب کو آپؒ کی یاد میں عرس کی تقریب بھی منعقد کی جاتی ہے جس میں آپؒ کی تعلیمات اور افکار کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور آپؒ کے چاہنے والے اپنی زندگیوں میں نئی روشنی لے کر لوٹتے ہیں۔۔۔
میرا نام واصفِ با صفا، میرا پیر سیدمرتضیٰؓ!
میرا  ورِد احمدِ مجتبیٰﷺ، میں سدا بہار کی بات ہوں !

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :