فلائٹ اڑنے سے پہلے

منگل 5 مئی 2020

Abida Zahir Abi

عابدہ ظہیر عابی

کب سے سنتے آرہے تھے کہ کرونا چین میں تباہی مچاتا جارہا ہے اور کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ سرحدیں پار کرتا ہوا ہاتھوں ہاتھ اپنی لپیٹ میں تمام ممالک کو لے لے گا۔ 
اس کی زیادہ حفاظتی تدابیر نہیں ہیں۔ بس ہاتھ بار بار دھویں، بغلگیر مت ہوں اور اجتماعی محفلوں سے گریز کریں، منہ پر ماسک لگائیں اور تمام کام کاج چھوڑ کر گھروں میں مقید ہو جائیں تو پھر کچھ نہیں کہے گا۔

کوئی نقصان نہیں کرے گا۔ تمام ممالک نے اپنی عوام کو تحفظ دینے کے لیئے لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ اتنی معمولی تدبیر نہیں ہے۔ لاک ڈاؤن کے باعث تجارتی بربادی، معیشت کی تباہی اور عوام کی بھوک ہر طرف مسئلہ بنی، سوال بنی؟ لاجواب ہو رہی ہے۔
ادھر دھڑا دھڑ بیرون ممالک سے روزگار کے لئے جانے والوں کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔

(جاری ہے)

سبھی ممالک اپنے ملک میں آئے ہوئے کام کرنے والوں کو واپس بھیج رہے ہیں۔

یہ ایک اور انتہائی گھمبیر مسئلہ ہے جو اپنے اپنے کاموں پر ڈٹے جمے لوگوں کی مت مارے دے رہا ہے۔ روزگار کے جوش و ولولے ماند ہوئے تو مسائل سر اٹھانے کو بے قرار۔ بہت الگ ماحول، الگ ثقافت میں پلنے بڑھنے والے بچے لوگوں کے لئے ایڈجسٹمنٹ ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ برملا کہہ سکتے ہیں کہ موجود صورتحال میں کشمکش حیات نے کر دیا ہے پاش پاش۔
ہاں!... کیا کہتی ہو؟ میں نے طویل گفتگو سن کر ایک جواب دیا۔

۔۔ماں نے اوپر کا پورشن ہمارے لئے صاف کروا کر تیار کر دیا ہے۔ کیا ہم وہاں مستقل رہیں گے؟ مجھ سے میری بیگم نے دبے دبے لفظوں میں پوچھا ۔۔۔تم خود سمجھدار ہو میں نے گیند اس کے کورٹ میں ڈال دی۔ اس نے مجھے چند لمحے بغور دیکھا اور خاموش رہی مجھے یقیناً اس کی حالت پر تاسف تھا۔ اس کا اضمحلال زدہ چہرہ مجھے پر ملال کر گیا۔ اچھی بھلی پرسکون زندگی میں ایسا ارتعاش آیا ہے کہ۔

۔۔ 
تب ہی بیل بجی ! 
جاؤ دیکھو کون ہے دروازے پر۔ 
اچھا دیکھتی ہوں۔ مرجھائی آواز اور خود کو گھسیٹتی ہوئی وہ چلی گئی۔ 
جب اس نے بتایا جبران صاحب آئیں ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ آپ باہر آکر مل لیجیئے۔ میں نے دروازے پر جا کر خوش مزاجی سے ملنا چاہا وہ اچانک بدکے۔۔۔ اور دور ہوگئے۔ 
یہ کیا حرکت ہے۔ میں نے یکدم مایوسی سے کہا تم جانتے ہو ناں۔

۔ 
کرونا وائرس جان لیوا ہے اور چھوت سے بڑھ کر ہے۔ اپنے تحفظ کے ساتھ سبھی کا تحفظ بنانے کے لیئے تین فٹ یا ایک گز کا فاصلہ ضروری ہے انہوں نے بھی اداسی سے جواب دیا۔ 
میں نے بھی مصنوعی مسکراہٹ سے جواب دیا ایک گز کا فاصلہ بھی رکھ لیں گے، آؤ آرام سے اندر چل کر باتیں کرتے ہیں قسم سے بور ہوگیا ہوں ۔ 
اس پر انہوں نے میری چونچالی کو نظر انداز کیا اور گویا ہوئے کب تک جا رہے ہو؟ ہم آج ہی جاسکتے ہیں ہم نے پیکنگ کر لی ہے مگر پاکستان سے ایئر لائن پہنچے تو ۔

خبر نہیں کب تک جا سکیں گے۔ اللہ کرے جلد چلے جاؤ۔ 
انہوں نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ 
پھر جھٹ ہاتھ کھینچ لیا۔۔۔اوہو ۔۔۔کرونا وائرس سے بچنے کی احتیاطی تدابیر نظرانداز نہیں کرنی چاہیے۔ 
بچاؤ کی کوئی اور تدبیر تو ہے ہی نہیں۔ لوٹ کے بدھو گھر کو ہی جائیں گے؟ 
ہیں! 
ہم بدھو کیوں کر ہو سکتے ہیں۔ اپنے وطن، اپنی سرزمین۔

۔۔ پر ہی جائیں گے (نہ وہ جوش نہ وہ جذبہ ہم میں پاکستان جانے پر تھا کیونکہ اب کہ ہم اپنی کشتیاں جلا کر جا رہے تھے)۔
ان شاء اللہ تعالیٰ تم اپنے بچوں کے ہمراہ ہی جانا۔ان کے لہجے میں درد بھرا احساس تھا۔ ظاہر ہے میں تنہا یہاں رہ کر کیا کروں گا؟ میں نے کہا اور غور سے جبران صاحب کو دیکھا۔ 
کیا ادھر کچھ مسئلہ ہوا ہے اب مجھے کچھ کچھ غلط ہوتا ہوا محسوس ہوا۔

سب غلط ملط ہوگیا۔ بچوں کی ضدیں، فرمائشیں اور بیگم کی حاکم نما فطرت رنگ لا رہی ہے۔ وہ رشتوں میں توازن نہ رکھ سکی۔ رویوں میں لچک نہ آئی۔۔۔میرا دماغ پک گیا ہے روز روز کے جھگڑوں سے۔اتنا آفس کا کام نہیں تھکاتا تھا جتنا یہ معاشرتی پہلو مار ڈالے گا میں نے ان کو بھیج دیا بس شاید یہی غلطی ہو گئی ہے۔ 
اب بیگم اپنے بہن بھائیوں کے ہاں ہیں جب کہ بچوں پر دادی کا قبضہ ہے۔

 
کیا۔۔۔؟
میں اس عجب صورتحال پر مخمصے کا شکار ہو گیا۔ وہ تو پڑھی لکھی ہیں۔ میں نے کہا تو وہ یکدم بیزاری سے بولے گھریلو زندگی تعلیم سے نہیں رویوں، درجہ بندی، چاپلوسی اور پیار محبت کے تڑکے سے چلتی ہے ۔ 
تم اپنے بچوں کو ابھی سے تیار کرکے ان کی دماغی، ذہنی، جسمانی بڑھوتری اعتبار سے اعتماد میں لو۔ مل کے رہنا، جینے کے فوائد بتاؤ اور سمجھاؤ کہ اپنوں میں نقصان کا ڈر نہیں۔

مشترکہ خاندانی نظام میں الجھتے ضرور ہیں ۔ آپسی میں چالیں چلی جاتی ہیں مگر عفو و درگزر کا پہلو سب کو جوڑے رکھتا ہے۔ 
اس وقت تو اپنوں سے بگاڑ کر کہاں جائیں گے؟ جانے سے پہلے، فلائٹ آنے سے پہلے، اپنا گھر یہاں سے تیار کر کر چلو۔ اڑان بھرنے سے پہلے ان بچوں کو رشتوں کے بال و پر دو۔ ان کا یقین دو۔ 
میں بچوں کے ہمراہ دروازے کی اوٹ سے سن رہی تھی۔

میرا مسئلہ میرا پڑوسی حل کر گیا تھا۔ میں نے اپنے بچوں کو اک نئے عزم سے لیونگ روم میں لاتے ہوئے کہا۔ ہم اپنا چھوٹا سا گھر لیں گے اور میں خود کفایت شعاری کی ردا اوڑھ لوں گی۔ 
میں نے باقر صاحب (شوہر) کو بتایا کہ جبران صاحب (پڑوسی) کی گفتگو سے میں نے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے. میں نے جمع شدہ رقم ان کو دی اور کہا کہ میرے بڑے بھائی، بچوں کے تایا نے مکان لے کر دیا اور تمام کاغذی کارروائی مکمل کروا دی۔

شاید وہ سبھی بھی سکھ میں آگئے تھے۔ 
میں نے پہلے ان ہی سب کا خیال کیا تھا۔ میرے بچوں کی بے چینی بھی اب ختم ہو گئی تھی وہ اب پرجوش ہیں پاکستان آنے کے لیئے۔ 
فلائٹ اڑنے سے پہلے میں نے۔۔۔حتی المکان اپنی سی کوشش کر لی ہے ۔ فلائٹ اڑنے کے بعد میں یقیناً اس لیئے پر امید ہوں کہ میں نے چھوٹی سی چھت لے لی ہے اور اپنے بچوں کی ڈار کو اپنے کنج میں لے کر اتروں گی تو انشاء اللہ میں آنے والے پل سے پر امید ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :