کورونا ایک عذاب یا آزمائش؟؟

اتوار 29 نومبر 2020

Affan Khan

عفان خان

پاکستان میں کورونا اس قدر رسوا ہوا تھا جیسے میر تقی میر کی غزلوں میں عاشق اپنے محبوب کی گلی سے رسوا ہو کے چلا جاتا ہے.پاکستان میں کورونا کا اثر کم ہونے کی وجہ یہ ھرگز نہیں تھی کے ہمارے اعمال اچھے تھے کے ہم سے اللہ خوش ھو سکتا تھا یا ہماری اللہ تعالی سے کوئی رشتداری تھی بلکہ یہ تو اللہ کا ہم پر خاص فضل تھا لیکن ہماری اس غلط فہمی اور نا شکری کا عالم  ذرا دیکھئے کہ  ہم نے کورونا کے ناکام حملے کو اللہ تعالی کی مہربانی اور فضل کے بجائے اس کو انسانی کارنامہ سرانجام دیا.
یہ بھی ممکن ہے کے کورونا کے حملے کو ناکام بنانے مے ہماری کاوشوں کا بھی کچھ حدتک دخل رہا ہو لیکن وہ کیا تھا اس کی کوئی دلیل یا ثبوت ہے کیا کورونا سے مقابلہ کرنے کے لئے کوئ دوا تیار کی تھی  یا ہم نے ایسے کوئ دیوار چین کھڑی کرلی تھی کے جس سے کورونا پاکستان میں داخل نا ہو سکے یا ہم نے کوئی ویکسین تیار کی تھی اگر ہم نے یہ سب کر ہی لیا ہوتا تو آج کورونا کا دوسرا لہر نا آتا .
بات تو یہ ہے کے جب بھی ہم پے کوئ آفت یا آزمائش آتی ہے تو ہم اللہ کی طرف منہ موڑ لیتے ہے نمازیں ادا کرنا شروع کر لیتے ہے اور سجدوں میں گر جاتے ہیں اور پھر جب اللہ ان کو اس سے نجات دلاتے ہے تو وہ اللہ کی مہربانی کا شکر کرنے کے بجائے وہ اپنی انسانی قوت کو کریڈٹ دیتے ہے ایسا عوام الناس کے جانب سے ہوا ہو یا نہیں  لیکن حکمرانوں کے جانب سے ضرور ہوا کس نے اس کو مکمل لاک ڈاون یا کسی نے اس کو اسمارٹ لاک ڈاون کی حکمت عملی قرار دیا اور سب حکمران اپنے ان حکمت عملیوں کے گیت بھی گانے لگے اور ایک دوسرے پھر طنزومزاح کے گولے بھی برسانے لگے.
سوال یہ ہے کہ؟ اگر کورونا کی پہلی لہر پر قابو پانا عوام الناس اور حکمرانوں کی حکمت عملییاں تھی تو اب جب کورونا کی دوسری لہر آ پھنچھی ہے تو پھر اس دفعہ پہلی والی حکمت عملیوں کو کیوں نہیں اختیار کیا جا رہا جسے حکومت وقت اپنی حکمت عملی قرار دیتے تھے.
پہلی لہر سے ہمیں یہ سیکھنے میں ملا کہ اگر دنیا میں اپنائی جانے والی تدابیر اس بیماری کو مزید روکنے میں مفید ثابت ہو رہی ہیں تو پھر ان ہی کو مسلسل اپنانے سے کیوں اجتناب کیا جائے۔

(جاری ہے)

بلا شبہ پاکستان جیسا ملک باقی ترقی یافتہ ممالک کی طرح سخت قسم کی پابندیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا لیکن اتنا تو ہونا چاہئیے تھا کہ  سیاسی و مذہبی اجتماعات پر پابندیوں کو ضروری بنا لیا جاتا۔ ایک طرف کورونا کی عدم موجود گی میں ہر ایک فرقے کو اس بات کی مکمل آزادی دی گئی کہ وہ دل کھول کر جس انداز میں بھی چاہے مذہبی روایات کی تجدید کرتا پھرے تو دوسری جانب سیاسی اجتماعات پر بھی کسی قسم کی کوئی قدغن نظر نھیں آئ. ہزارون کی تعداد میں تفریحی مقامات پر اکٹھا ہونا، مذہبی اجتماعات میں اکٹھا ہونا  "کورونا کو آبیل مجھے مار کہنا جیسی بات نہیں تھی۔

"
"کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے" یہ جملہ ہر جگہ گردش کر رہا ہے کیا اس جملے پے ہمیں اعتراض نہیں کرنا چاہئیے کیا کرونا کا وبا اللہ کی طرف سے نہیں ہے ؟ کیا  ہم اللہ تعالی کی طاقت اور قوت کو چیلنج نہیں کر رہے ہیں ؟ کیا کورونا عذاب ہے ہمارے لیےنہیں  بلکہ یہ تو ہم پھر اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے جس سے نجات پانے کے لئے ہمیں اللہ سے توبہ کرنا لازمی ہے.اس میں کوئ شک نہیں کے ہمیں اللہ سے توبہ کرنا چاہئیے لیکن اگر ہم ایک طرف اللہ کی عبادت کریں اور اس سے توبہ کرے اور دوسری طرف ہم احتیاتی تدابیر نا اپنائے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے "کورونا کو آبیل مجھے مار کہنا"۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :