ہائے جوانی‎‎

منگل 6 جولائی 2021

Ahmed Ali Korar

احمد علی کورار

محلے دار ہیں.  بشیر احمد نام ہے. 65 کے پیٹے میں ہیں. حرکتیں ابھی تک الہڑ جوان جیسی ہیں. مجال ہے کہ کوئی اس کی موجودگی میں اس کی عمر کا لحاظ کرتے ہوئے اسے کاکا چاچا یا حاجی صاحب پکارے.وہ ان القابات سے اتنے چڑتے ہیں اور برسوں کی دشمنی مول لیتے ہیں .ان کا خیال ہے کہ اسے بشیرا تک کہا جائے لیکن مذکورہ بالا القابات سے نوازنے سے گریز کیا جائے.ہماری کیا مجال کہ اسے "کاکا" "چاچا" یا  "حاجی صاحب" کہیں لیکن ان کی عدم موجودگی میں تو ان کی عمر کا لحاظ تو رکھنا ہے سو ہم انھیں اس تحریر می" کاکا"پکاریں گے.
کاکا روز شیو کرتے ہیں  نہا دھو کر صاف ستھرا لباس زیب تن کرتے ہیں اور ہر دو دن بعد بالوں کو کلر کرتے ہیں.

(جاری ہے)

پشاوری جوتے پہنتے ہیں ہر ماہ نئی ورائٹی کے ریڈی میڈ کپڑے  لیتے ہیں.
دوران ملازمت بھی ان کی یہی کیفیت تھی اور اب بھی  یہی معمول ہے.دو شادیاں کر چکے ہیں .مگر افسوس دونوں بیگمات ساتھ نہیں ہیں.وہ دونوں جہانِ فانی چھوڑ چکی ہیں.
کاکا بھی ملازمت سے ریٹائڑ ہو چکے ہیں.کام دھندہ کوئی نہیں.اب صرف پینشن ہے اور خالی باتیں ہیں اور وہ بھی گزرے وقت کی باتیں.ویسے چاچا ماضی بعید کی باتیں  نہیں بتاتے ہیں  تاکہ گمان غالب نہ ہو کہ ان کا تعلق ماضی بعید سے ہے.وہ ایوب خان کا دور بھی ایسے بتاتے ہیں جیسے جس دن ایوب خان نے اقتدار چھوڑا تھا کاکا بھی اسی دن دنیا میں تشریف لائے تھے.
ضیاالحق کا دور بتاتے وقت وہ اس طرح کا جملہ کستے ہیں کہ "مجھے تھوڑا تھوڑا یاد آتا ہے"
باقی مشرف کا دور وہ بے خوف و خطر بتاتے ہیں اور اس طرح سے ابتدا کرتے ہیں"مجھے اچھی طرح یاد ہے..........."
 ابھی تک خود کو نوجوان خیال کرتے ہیں.حالانکہ کاکا کے  دو درجن کے قریب پوتے پوتیاں  اور نواسے نواسیاں ہیں.لیکن کاکا ابھی تک خود کو بڑا ماننے کے لیے تیار نہیں.
کاکا نے اینڈو رائیڈ کا ایک مہنگا موبائل سیٹ بھی رکھا ہوا ہے سوشل میڈیا میں بھی بڑے اِن رہتے ہیں اور مختلف پوز لیکر  فیسبک  پہ فوٹوز بھی دیتے رہتے ہیں.
آپ کا کا کی فیسبک فرینڈز لسٹ میں بھی زیادہ تر نوجوان فرینڈز دیکھیں گے.کاکا کو بڑھاپے سے چڑ ہے اور اس وجہ سے اسے اپنے ہم عمروں سے نہیں لگتی .

وہ کسی بھی صورت میں خود کو بوڑھا دیکھنا نہیں چاہتے.
کاکا نے ریٹائرمنٹ  کے پیسوں سے ایک مہران کار بھی لے رکھی  ہے ربن کا چشمہ لگا کر باہر نکلتے ہیں.
 کچھ نوجوان دوستوں کو اٹھاتے ہیں ہوٹل پہ گھنٹوں بیٹھ کر وقت گزاری کرتے ہیں.یہی روٹین ہے یہی مشغلہ ہے.
محلے میں کاکا کی  آئے روز کسی نہ کسی کے ساتھ ان بن ہو ہی جاتی ہے پچھلے دنوں ایک دکان والے کے ساتھ ان کی لڑائی ہو گئی.
کاکا نے دکاندار بیچارے کے کاؤنٹر واؤئنٹر توڑ دیے دکاندار بیچارہ کاکا کی بزرگی کا خیال کر رہا تھا  اس وجہ سے وہ کاکا کو کچھ نہ کہتا  لیکن کاکا اور شوخ ہو جاتا..
یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ لڑائی کس بات پر ہوئی تھی.
دکاندار نے بتایا کہ کاکا دکان سے چیونگم لینے آیا تھا "حاجی صاحب" کہنے پر کاکا سیخ پا ہو گئے اور لڑنا شروع کر دیا.
عمر کے اس حصے میں پہنچ کر بھی کاکا اپنا بڑھاپا ماننے کو تیار نہیں.
ایک دفعہ کسی راہ گیر نے کاکا سے کسی جگہ کا پتا پوچھا جب راہ گیر نے ان سے کہا شکریہ "چاچا سائیں" کاکا غصہ پی گیا  راہ گیر لحیم شحیم تھا یہاں دال نہیں گلے گی غصیلی نظروں سے دیکھا اور بس اتنا کہا چل نکل یہاں سے بھئی...پتہ تو بتا دیا نا!
کاکا اپنا بڑھاپا بچاتے بچاتے خود بوڑھے ہو گئے ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ ماننے کے لیے تیار نہیں.
پچھلے چند دنوں سے کاکا کچھ اداس اداس ہیں دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ کاکا بضد ہیں کہ ان کی شادی کروائی جائے لیکن بیٹے ان کی تیسری شادی کروانے کے لیے راضی نہیں ہوتے..
کاکا نے تو اب خود کشی کی بھی دھمکی دے دی ہے.
انتالیس بار پہلے بھی دھمکی دے چکے ہیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :