وقت کی ناقدری ایک معاشرتی بیماری

پیر 4 دسمبر 2017

Akif Ghani

عاکف غنی

ہمارا پاکستانی معاشرہ اگر سچ پوچھیں تو بظاہر ترقی کرتا ہوا اور لبرل ازم کا لبادہ اوڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے مگر اس کا بغور جائزہ لیں تو درحقیقت یہ معاشرہ انحطاط کا شکار ہے۔ہم بیشمار معاشرتی برائیوں کا شکار ہو چکے ہیں اور اس حد تک شکار ہو چکے ہیں کہ یہ برائیاں اب ہمیں برائیاں لگتی ہی نہیں۔بہت ساری معاشرتی بیماریوں میں ایک بڑی بیماری وقت کی ناقدری بھی ہے۔


پاکستان میں عجیب معاملہ یہ کہ ہم ایک طرف تو لبرل ازم کا شکار ہیں تو دسری طرف عشقِ رسولﷺ کے دعووٴں میں غلو کی حدیں کراس کرتے ہوئے مغرب کی تقلید میں اندھے ہو چکے ہیں۔دراصل ہم دوغلے پن کا شکار ہیں،مغرب کی چکاچوند والی رسومات تو اپنائے جا رہے ہیں مگر ہمارے جن سنہری اصولوں کو وہ اپنا کر ترقی کر رہے ہیں ہم انہیں ترک کرتے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)


اب وقت کی قدر ہی کو دیکھ لیں مغرب میں وقت کی کس قدر پابندی ہے اور ہمارے ہاں،وقت کا اسی قدر ضیاع۔فرانس جہاں میں قیام پذیر ہوں یہاں کسی ادارے میں آپ دیے گئے مقررہ وقت پر نہیں پہنچتے تو تو آپ کا اپوائنٹمنٹ کینسل کر دیا جاتا ہے اور ہم پاکستانی مجبورََا سہی اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔افسوس مگر جب ہمارے اپنے معاملات ہوتے ہیں وہاں ہم وقت کی اس قدر ناقدری کرتے ہیں کہ وقت بھی شرما جاتا ہے۔


ابھی کل ہی کی بات ہے ہمارے دنیا نیوز فرانس کے نمائندے شاہزیب ارشد جو ہمارے بڑے اچھے دوست ہیں نے کال کی کہ وہ دنیا نیوز کی نویں سالگرہ منا رہے ہیں اور شام چھ بجے پہنچنا ہے، وقت کی پابندی لازمی ہوگی۔شاہزیب کی بھرپور کوشش، بھرپور اصرار،دعوت ناموں میں وقت کی پابندی پہ زور کے باوجو پرگرام تاخیر سے شروع ہوا۔
شاہزیب کے ذکر سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ وہ نشانہ ہے ،دراصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ہم اس برائی کو برائی سمجھتے ہی نہیں اور الا ماشا ء اللہ سب کے سب اس برائی میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ملوث ہو چکے ہیں۔


میرے والدِمحترم آرمی میں رہے ہیں اور وقت کی پابندی ان کی گھٹی میں پڑی ہے، ایک دفع ان کے ایک دوست کے بیٹے کی شادی تھی وہاں ہمیں جانا تھا،دعوت نامے میں دو بجے دوپہر کا وقت درج تھا، ہم وقتِ مقررہ پر پہنچ گئے ،شادی ہال میں صرف خاموشی کا راج تھا ،کوئی بندہ نہ بشر مجبورََا ہمیں کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔
یہاں فرانس ہی میں ہمارے ایک پی ایچ ڈی، ڈاکٹر جو ما شا ء اللہ صاحب الرائے بھی سمجھے جاتے تھے ایک تقریب کی تیاری کے سلسلے میں مشاورت ہو رہی تھی ،اپنی باری پر میں نے مشورہ دیا کہ اشتہار پہ لکھ دیتے ہیں کہ وقت کی پابندی کا خیال کیا جائے ،تقریب اپنے وقتِ مقررہ پر شروع ہوگی تو وہ ڈاکٹر صاحب گویا ہوئے ،نہیں برخوردار ایسا ممکن نہیں ہے۔


پاکستان میں اور جہاں جہاں پاکستانی مقیم ہیں ہم نے اپنا شیوہ بنا لیا ہے کی وقت کی پابندی نہیں کرنی،شادی ہو،سیاسی جلسہ ہو کوئی اور تقریب ہو حتٰکہ مذہبی تقریبات تک میں تاخیری حربے ہم اپنی شان سمجھتے ہیں ،حالانکہ کے ہمارے پیارے نبیﷺ کی زندگی وقت کی پابندی کا اس طرح درس دیتی ہے کہ ذرا یہ حدیث دیکھیے:۔
حضرت عبداللہ بن ابی الحمسا رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قصہ عجیب ہے۔

فرماتے ہیں”نزول وحی اور اعلان نبوت سے پہلے میں نے حضور ﷺسے خرید و فروخت کا ایک معاملہ کیا۔ کچھ رقم میں نے ادا کر دی، کچھ باقی رہ گئی۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں ابھی ابھی آکر باقی رقم بھی ادا کردوں گا۔ اتفاق سے تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہیں آیا۔ تیسرے دن جب میں اس جگہ پہنچا جہاں میں نے آنے کا وعدہ کیا تھا تو حضور ﷺ کو اسی جگہ منتظر پایا۔

مگر اس سے بھی زیادہ عجیب یہ کہ میری اس وعدہ خلافی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتھے پر اک ذرا بل نہیں آیا۔
بس صرف اتنا ہی فرمایا : تم کہاں تھے؟ میں اس مقام پر تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں“۔(سنن ابو داوٴد)
اس حدیث کی روشنی میں دیکھیں تو وقت کی اہمیت کا اندازہ ہوگا اور ہم اپنے معاشرے کی طرف نگاہ دوڑائیں تو یہ خرابی بھی ہمارا منہ چڑاتے ہوئے دکھائی دے گی۔


بامقصد لوگوں کی پہچان ،جن لوگوں کی زندگی با مقصد ہوتی ہے۔ یقینا وہ وقت کی قدر و قیمت پہچانتے ہیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اپنے عہد ِعروج میں پوری امت مسلمہ جن اچھے اوصاف کے لیے مشہور معروف تھی ان میں ایک اہم صفت وقت کی پابندی بھی تھی۔ ایک مسلمان کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ موجود ہے۔ وہاں ہر کم منظم ہے۔ ہر چیز کا ایک ایسا نظام الاوقات ہے جس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔

صحابہ کرام میں اسی سنت کی پیروی کرتے تھے۔ تابعی عامر بن عبد قیس سے ایک شخص نے کہا آؤ بیٹھ کر باتیں کریں۔ انہوں نے جواب دیا کہ پھر سورج کو بھی ٹھہرالو۔ فتح بن خاقان، عباسی خلیفہ المتوکل کا وزیر اپنے پاس کوئی نہ کوئی کتاب رکھتا تھا۔ سرکاری کاموں سے ذرا بھی فرصت ملتی تو کتاب نکال کر پڑھنا شروع کردیتا۔ البیرونی مرنے سے چند دنوں بیشتر ایک فقیہ سے جو ان کی مزاج پرسی کے لیے آیا ہوا تھا علم الفرائض کا ایک مسئلہ پوچھ رہے تھے۔

امام فقہی الدین الرازی کہا کرتے تھے کہ کھانے پینے میں جو وقت ضائع ہوتا ہے، میں ہمیشہ اس پر افسوس کرتا ہوں۔ نپولین کا کہنا ہے، مجھ سے جو چاہولے لو، مگر وقت نہیں۔ غرض دنیا میں آج تک جن باکمالوں نے نام پیدا کیا ہے انہوں نے ہمیشہ وقت کی قدر کی، یہی وجہ ہے کہ وقت نے ان کو عزت اور شہرت کا تاج پہنایا۔ تاریخ کا یہ قول ِفیصل ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زوال کا عمل وقت کی ناقدری سے شروع ہوتا ہے۔

زوال پذیر قوموں کے نزدیک وقت کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اور زندہ قومیں ایک ایک لمحے کو متاع جان سے زیادہ عزیز سمجھتی ہیں۔ اس لیے لوح وقت کی جبین پر ان کانام کندہ ہوجاتا ہے۔ چوں کہ وہ وقت کی قدر کرتی ہیں لہذا وقت بھی ان کی قدر کرتا ہے۔ چینی اور جاپانی اقوام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہماری زندگی میں پابندی وقت کے حوالے سے امام غزالی فرماتے ہیں، وقت خام مسالے کی مانند ہے، جس سے آپ جو کچھ چاہیں بنا سکتے ہیں۔

جس طرح ہم آمدنی کو خرچ کرنے میں منصوبہ بندی سے کام لیتے ہیں اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ سلیقے سے ہمیں وقت کو صرف کرنا چاہیے۔ دولت کو فضول کون پھینکتا ہے اور وقت تو سب سے قیمتی دولت ہے۔وقت کی منصوبہ بندی کا اشارہ ہمیں ایک حدیث سے بھی ملتا ہے۔ نبی کریم نے فرمایا: وہ عاقل جو عقل سے مغلوب نہ ہو، اس کی چار ساعتیں ہونی چاہییں۔ ایک ساعت جب وہ اپنے رب سے سرگوشی کرے۔

ایک ساعت جب وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے۔ ایک ساعت جب اللہ عزوجل کی صفت میں تفکر کرے اور ایک ساعت جب وہ کھانے پینے کے لیے خالی ہوجائے۔
افسوس مگر پاکستان میں وقت کی ناقدری اس قدر ہے کہ نہ تقریبات میں وقت کی پابندی ہے نہ انفرادی معاملات میں،نہ ہمارے جہاز وقت پہ اڑتے ہیں نہ ٹرینیں وقت پہ چلتی ہیں ، چلتا ہے تو بس وقت کہ وہ تو گھڑی کی ٹک ٹک سے بھی اپنا احساس دلاتا چلا جاتا ہے۔
سورج اپنے وقت پہ نکلتا ہے، پرندے اس کے ساتھ ہی اٹھ جاتے ہیں،ایک بس انسان ہے جس نے اپنی اوقات بدل لی ہے اور اوقات بدل لینے والوں سے وقت منہ پھیر لیا کرتا ہے۔وقت کی قدر کرنا سیکھ لو ورنہ وقت نے اگر بے قدری شروع کر دی تو کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :