مریضانِ سیاست

جمعرات 19 دسمبر 2019

Akif Ghani

عاکف غنی

”میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں“ یہ ڈائیلاگ وقت کے اس آمر کا ہے جسے آج پاکستان کی ایک خصوصی عدالت نے آئین شکنی کے جرم میں سزائے موت سنائی ہے۔جی ہاں کارگل کے ہیرو جسے اس وقت کے مضبوط وزیرِ اعظم نے کچھ اختلافات کی بنا پر ایک بھونڈے انداز سے فضا میں معلق طیارے میں موجود چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے ہٹا کر طیارہ سازش ڈرامہ رچایا اور نتیجتاََ مشرف کے آمر بننے کی راہ ہموار کی۔

مشرف کے اقتدار سنبھالتے ہی اس وقت کے مضبوط وزیرِ اعظم کے سر پر سزائے موت کے مہیب سائے منڈلانے لگے جو عمر قید کی کال کوٹھری میں بدل گئے اور پھر وہ مضبوط وزیرِ اعظم جس کا نام تھا نواز شریف ، کارگل کے ہیرو اور ایک توانا کمانڈو سے ڈیل کر کے سعودیہ بھاگ گیا۔مشرف نے آمریت کی آڑ میں احتساب کا بیڑہ اٹھایا مگر احتساب کے نام پر چور، اچکوں اورٹھگوں کا ٹولہ اپنے گرد اکٹھا کر لیا اور احتساب تو نہیں کیا البتہ اپنے حلیفوں کونوازنے کا کام شروع کر دیا اور آمریت کو طول دیتا چلا گیا۔

(جاری ہے)


اقتدار ایک ایسا نشہ ہے جو انسان سے کوئی بھی حماقت کروا سکتا ہے اور مشرف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، مشرف کے اندر تکبر اور اقتدار کی مضبوطی کا نشہ ایسا چڑھا ہوا تھا کہ بدلتے ہوئے حالات کا ادراک نہ کر سکا اور جدید میڈیائی دور جس میں عدلیہ کو بھی کسی حد تک آزاد ہونے کا موقع مل چکا تھا ایک نئی حماقت کا ارتکاب کر بیٹھا اور آئین شکنی کا مرتکب ٹھہرا۔

اب وقت بدل چکا تھا موسمی پرندے ہجرت کر چکے تھے اور پالے ہوئے گھوڑے بھی کمزور ہو چکے تھے جو خود اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے۔
مشرف پر مقدمہ بنا اور مشرف بیماری کا بہانہ بنا کر روپوش ہو گیا۔ ایک عشرے تک ملک کی بھاگ ڈور سنبھالنے والے کو پاکستان میں علاج کے لئے کوئی ڈاکٹر مل سکا اور نہ کوئی اس نے ایسا ہسپتال ہی بنایا تھا کہ جہاں اس کا علاج ہو سکتا۔

وہ کمانڈو جس کا یہ قول بہت مشہور تھا کہ ” ڈرتا ورتا کسی سے نہیں“ بیماری کے بہانے ملک سے باہر چلا گیا۔
مشرف کے اس جرم میں جس کی سزا آج اسے موت کی صورت میں سنائی گئی ہے کے ایک ایساشر ثابت ہوا جس سے خیر کچھ یوں برآمد ہوا کہ کمزور سہی، بیمار سہی مگر جموریت نام کی ٹرین اپنی پٹری پر روانہ ضرور ہو گئی۔ کافی حد تک عدلیہ آزاد ہو گئی، میڈیا کے منہ پر لگے تالے کھل گئے۔

ملک کی دو بڑی پارٹیوں نے گرتے سنبھلتے ایک ایک دور مکمل کیا۔
ایک طرف جمہوری عمل میں روانی آئی تو دوسری طرف احتساب کے عمل میں تیزی۔احتساب کا عمل شروع ہوا تو معلوم ہو کہ یہاں حمام میں سبھی ننگے ہیں۔عدلیہ کسی حد تک آزاد اور مضبوط ہوئی، احتساب کے عمل میں بڑے بڑے مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالنے شروع کئے، میگا سکینڈلز سامنے آنے شروع ہوئے۔

ملک میں کرپشن کے حوالے سے سابق حکمرانوں سمیت بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے نام سامنے آنا شروع ہو گئے۔نواز شریف پر کرپشن ثابت ہوئی وہ جیل گئے،زرداری جیل، ان کے علاوہ بہت سے دیگر لیڈرانِ عظامِ کرام سلاخوں کے پیچھے پہنچنا شروع ہو گئے۔یہ بڑے بڑے سرمایہ دار، تاجر، جاگیر دار، وڈیرے جن آ سائشوں کے عادی ہیں وہ تو انہیں جیل میں ملنے سے رہیں اب ان کے پاس ایک ہی چارہ تھا کہ کوئی طریقہ ڈھونڈا جائے جس سے باہر نکلنے کا کوئی بہانہ میسر ہو۔

نواز شریف بیمار ہو جاتے ہیں، اب بیماری کا بہانہ بنا وٴ اور باہر آ جاوٴ، یہی ایک چارہ ہے۔صلہ رحمی اور ترس انہیں جیلوں سے ضمانت بھی دلواتے ہیں اور نہ صرف جیل بلکہ ملک سے ہی باہر بھجوا دیتے ہیں۔ابھی کچھ روز پہلے تک ہشاش بشاش رہنے والے نواز شریف جیل جاتے ہی بیمار پڑگئے، طبی معائنے کے لئے میڈیکل ٹیم اڈیالہ جیل پہنچ گئی، ٹیسٹ نتائج کی بنیاد پر نوازشریف کی اسپتال منتقلی کا فیصلہ ہوگیا، اور بعد ازاں بیماری کی بنیاد پر ضمانت ۔

ضمانت ایسی کہ جس کی آڑ میں پھُر کر کے لندن اُڑ گئے۔
 اس میں کوئی شک نہیں کہ بندہ بیمار بھی ہو سکتا ہے مگر بیمار ہونے والے شخص سے پوچھا جائے تین بار وزیرِ اعظم بننے والے نے اپنے ملک میں ایسا ہسپتال کیوں نہیں بنائے جہاں عام آدمی کو تو چھوڑو آپ جیسے خاص آدمی کا ہی علاج ہو سکتا ہو۔
زرداری کی ضمانت بھی ہو چکی ،بیماری کے نام پر، سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا جیلوں میں ڈاکٹروں کا جانا ممنوع ہے اور کیا ان کا علاج جیلوں میں نہیں ہو سکتا۔

آصف زرداری اس سے پہلے بھی طویل عرصہ قید میں رہے ان کی اسیری کے بیشتر دن بھی جیل کے بجائے اسپتالوں میں گزرے۔سندھ کے نام پر سیاست کرنے والے اٹھارہویں ترمیم تو کروالیتے ہیں فقط اپنی جیبیں بھرنے کے لئے ،جبکہ تھر میں غریب پانی کی بوند بوند کو ترس رہا ہوتا ہے ۔تھر تو تھر کراچی کے کچرے کو دیکھ کر بھی ایسا لگتا ہے گویا کسی پسماندہ افریقی ملک کا کوئی حصہ ہو۔

ہمارے ہاں سیاسی کلچر میں جیل جانا اور وہاں رہنا کوئی غیر معمولی بات نہیں سمجھی جاتی لیکن سیاست دان جیل کے نام پر کیا کچھ کرتے ہیں اور وہاں جا کر فوری بیمار کیوں ہو جاتے ہیں۔سیاست دانوں کی پرانی روایت ہے، جس بھی سیاسی رہنما کو جیل ہوتی ہے یاجیل جانیکا خدشہ ہو، وہ بیمارپڑ جاتا ہے۔نواز شریف کے قریبی ساتھی اسحاق ڈار کرپشن کیس چلنے پر لندن گئے وہ وہاں جاکر بیمار پڑگئے اور پھر بیماری کا بہانہ بنا کر تاحال مقدمات سے مفرور ہیں۔

نواز شریف کے مقدمات پر گرجنے برسنے والے ہٹے کٹے نہال ہاشمی توہین عدالت کیس میں جیل گئے تو وہ بھی بیمار پڑگئے ان کے بارے میں کہا گیا کہ یہ دل کے عارضے میں مبتلا ہیں۔پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن بھی کرپشن کیس بھگت رہے ہیں انھیں جیل بھجوا گیا تو وہ بھی بیماری کا جواز بنا کر اسپتال جا پہنچے۔پیپلز پارٹی کے ہی رہنما ڈاکٹر عاصم نے بھی اسیری کا بڑا حصہ جیل کے بجائے اسپتال میں کاٹا اور وہیں سے ہی ان کی رہائی عمل میں آئی۔
تجزیہ کار وں کا کہنا ہے کہ ان سیاسی رہنماوٴں نے بہترین اداکاری کرکے بڑے بڑے اداکاروں کوبھی پیچھے چھوڑدیا ہے۔ مشرف جیسا کمانڈو جو ڈرتا ورتا کسی سے نہیں جیل کے خوف سے مفرور ہو جائے تو یہ کس کھیت کی مولی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :