اسلام ایک نعرہ

بدھ 29 نومبر 2017

Akif Ghani

عاکف غنی

پا کستان کے قیام کی بنیادی اور واضع وجہ محض اور محض دو قومی نظریہ تھا مگر کچھ نا عاقبت اندیش یہ بھی کہتے پائے جاتے ہیں کہ قیامِ پاکستان در اصل اس خوف سے وجود میں آیا کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد مروجہ جمہوری نظام کے تحت ہندو اپنی اکثریت کے بل پر غالب آ جائیں گے۔پاکستان جس کی بنیاد لا الٰہ پر رکھی گئی تھی اسی لا الٰہ سے منحرف ہو کر اسلام کو محض نعرہ بنا دیا گیا اور جن لوگوں کی رائے تھی کہ پاکستان ہندووٴں کے غلبے کے خوف سے بنا اسے تقویت پہنچائی گئی حتٰکہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بنگلہ دیش کی پاکستان سے علٰہدگی نے اندرا گاندھی کو یہ طعنہ دینے کی ہمت بخشی کہ دو قومی نظریہ اس نے بحیرہٴِ عرب میں ڈبودیا ہے۔


دو قومی نظریہ کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی بر صغیر میں پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے یہ نظریہ پیش کیا ۔

(جاری ہے)

پھر شاہ ولی اللہ ، سر سید احمد خان علامہ اقبال اور دیگر علمائے کرام نے نظریہ پاکستان کی وضاحت کی ۔ بر صغیر میں مختلف مسلم ادارے اسی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئے اور کئی تحریکیں اسی نظریے کے پرچار کے لیے معرض وجود میں آئیں ۔


پاکستان کے قیام کے سلسلے میں وجہ کوئی بھی رہی ہو اس کا وجود ایک مسلسل تگ و دو کا نتیجہ تھا اور اس تگ و دو میں لا محالہ اسلام کو ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی۔یوں تو تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز 23 مارچ 1940 ءء کے جلسے کو قرار دیا جا سکتا ہے مگر اس کی اصل شروعات تاریخ کے اس موڑ سے ہوتی ہے جب مسلمانان ہند نے کانگریس سے اپنی راہیں جدا کر لی تھی ۔


قائد اعظم نے قرار دار لاہور 23، مارچ 1940 ءء کے صدارتی خطبے میں اسلام اور ہندو مت کو محض مذاہب ہی نہیں بلکہ دو مختلف معاشرتی نظام قرار دیا ۔ ہندو اور مسلمان نہ آپس میں شادی کر سکتے ہیں نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھا سکتے ہیں ۔ ان کی رزمیہ نظمیں ، ان کے ہیرو اور ان کے کارنامے مختلف ہیں ۔ دونوں کی تہذیبوں کا تجزیہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : ”میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ وہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔

“ متحدہ قومیت قابل عمل نہیں، شروع شروع میں علامہ اقبال متحدہ قومیت کے حامی تھے ۔ مگر کچھ عرصہ بعد ہی آپ نے متحدہ قومیت کی تردید کردی اور الگ قومیت کے تصور کی بھرپور حمایت شروع کر دی ۔ مارچ 1909 ءء میں ہندو رہنما منرو ا راج امرتسر نے علامہ اقبال کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے متحدہ قومیت کے موقع پر خطاب کرنے کی دعوت دی ۔ علامہ اقبال نے نہ صرف متحدہ قومیت کے تصور کو مسترد کر دیا بلکہ آپ نے مہمان خصوصی بننے سے بھی انکار کر دیا ۔

آپ نے فرمایا: ”میں خود اس خیال کا حامی رہ چکا ہوں کہ امتیازِ مذہب اس ملک سے اٹھ جانا چاہیے مگر اب میرا خیال ہے کہ قومی شخصیت کو محفوظ رکھنا ہندوں اور مسلمانوں دونوں کے لیے مفید ہے “۔
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں تو آگیا مگر یہاں قائدِ اعظم کے کھوٹے سکوں نے پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی پاکستان بننے نہیں دیا۔جاگیردارانہ نظام ہو یا وڈیرہ شاہی،افسر شاہی ہو ملا ازم، پیری مریدی کے اڈے ہوں یا فوج کشی،یہاں بس اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو گئی۔


پاکستان کو وجود میں آتے ہی جہاں وسائل کی کمی کا سامنا تھا وہیں دستور کے نہ ہونے کا بھی مسئلہ درپیش تھا۔کرسی کی چھینا جھپٹی میں بہر حال آئین بنتے اور ٹوٹتے رہے۔
آئین سازی کے عمل میں ایک خوِ ش آئند عمل البتہ ضرور شامل رہا کہ علماء نے اس معاملے میں کم از کم اتفاق دکھایا اور قرار دادِ مقاصد کی صورت میں پاکستان کے آئن کی بنیادی شرط متعین کر دی کہ چونکہ یہ ملک اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے اس لئے یہاں حاکمیتِ اعلٰی اللہ کی ہوگی اور کوئی بھی قانون اسلام سے متصادم نہیں ہوگا۔


پاکستان کا آخری آئین جو بھٹو دور میں وجود میں آیا اس میں بھی اسلام کی بنادی شقیں موجود ہیں۔پاکستان کو آئنی طور پر تو اسلامی جمہوریہ بنا دیا گیا مگر یہاں جس اسلامی نظام کے لئے اس ملک کو قائم کیا گیا تھا اسے بس ایک نعرہ بنا دیا گیا۔
جماعتِ اسلامی جس کی بنیاد مولانا مودودی نے رکھی، اسلام کے نظام کی کوششیں کرتے کرتے اپنی جماعت کو انتخابی دنگل میں لڑنے کے لئے چھوڑ گئے جہاں جماعت بھی دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگ گئی ۔

اسلام تو نافظ نہیں ہوسکام اسلام کی اعلٰی ترین صورت کو جماعت نے فوج کی بی ٹیم بن کر جہادِ افغانستان میں ضرور اپنا لیا جسے بعد میں اتنی پذیرائی ملی کہ کئی جماعتیں وجود ہی جہاد کے نام پر آئیں۔
جماعت کے علاوہ دیگر کئی اسلامی جماعتیں وجود میں آئیں مگر مسلکی و فروعی اختلافات کی وجہ سے عدم اتفاق کا شکا ر ہوئیں اور کوئی دائیں بازو تو کوئی بائیں بازو کی سیاسی جماعت کا حصہ بن کر اپنا حصہ وصول کرتی رہیں اور اسلام کو ایک نعرہ بنا کر اسلام کی خدمت کرتی رہیں۔

مولانا فضل الرحٰمن ایک بڑی مثال ہیں جو کبھی پی پی پی تو کبھی مسلم لیگ کے اتحادی رہے اسلام تو نافذ نہ کروا سکے ڈیزل اور کشمیر سے خوب مستفید ہوتے رہے،اسلام میں جب احمدیوں کا مسئلہ اٹھا تو یہ مولوی اس شان سے اٹھے کہ حکومتِ وقت سے انہیں کافر اور اقلیت قرار دے کر دم لیا، اب کسی میں جرأت نہیں کہ کوئی احمدیوں کے حق میں ایک لفظ بھی بول دے۔


اسلام کا نعرہ اتنا مقبول ہوا کہ تحریکِ نظامِ مصطفٰے چلی اور ایک امیرالمومنین کوسامنے لے آئی۔ اس امیر المومنین نے اسلام کے نام پر سوائے مذاق کے کچھ نہیں کیا اور اس سے سبھی ملاوٴں کا اسلام البتہ خوب چمکا اور حقیقی اسلام مسلمانوں سے دور ہوتا چلا گیا۔
ابھی حال ہی میں ممتاز قادری نے عشقِ رسولﷺ میں ایک شاتمِ رسول کو قتل کیا تو پھانسی کی سزا پائی۔

ممتاز قادری کی شہادت سے لبیک یا رسول اللہﷺ نے جنم لیا اور ایسے ایسے عاشقِ رسول دیکھنے کو ملے جن سے ہمیں ایسے ایسے ادبی الفاظ سننے کو ملے جنہیں سنتے ہی سر دھننے کو جی چاہتا ہے۔یہ اس نبیﷺ کی حرمت کے نام پر اٹھے جو اپنے اوپر گند پھینکے والوں کو بھی دعا دیتا تھا جبکہ یہ ان کی گالیاں یہاں لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔
اسلام کے نعرے میں برکت ہے اسی لئے اسے جماعتوں کے اتحاد میں بھی اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے ہماری خفیہ ایجنسیوں نے بھی برکتیں سمیٹیں۔


خدا جانے ہمارے مولویوں کو کب سمجھ آئے گی کہ اسلام لوگوں کی صرف نمازیں درست کروانے، لاکھوں کے اجتماع کا اہتمام کرنے، میٹھے میٹھے ہرے ہرے اسلامی بھائیوں کے میٹھے میٹھے بولوں، اپنے مخالفین کے خلاف مغلزات بکنے، کشمیرافغانستان میں بغیر تربیت اور پچھلی منازل طے کئے جا کر لڑنے،درباروں پر بھنگ،بھنگڑے اور بھونڈی،مسلکوں اور فروعی مسائل کی بناپر ڈیڑھ ، ڈیڑھ انچ کی مسجدیں بنانے سے اور کرپشن زدہ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کرنے سے نافذ نہیں ہوگا بلکہ قران کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے اور ایک رسولﷺ کے امتی بن کر ،ایک ہوکر جدو جہد سے ہوگا ،وہ بھی خالصتاََ ،منہجِ نبویﷺ کے طریقے سے۔


اسلام کو نعرہ نہیں بنائیے اسے عملاََ پیش کیجیئے ، اسلام ،نماز روزے حج اور ظاہری رسومات کا ہی نام نہیں، اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔مغرب جس کے خلاف ہمارے ملا ہمیں بھڑکاتے رہتے ہیں ان کے ہاں یہی نظام رائج ہے فرق صرف یہ ہے کہ وہ ایمان نہیں رکھتے اور نماز روزہ حج اور ظاہری رسومات تو نہیں ادا کرتے مگرحقیقی نظام کو سمجھ چکے ہیں اور اس سے ان کی عوام خوب استفادہ کر رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :