پی ٹی آئی کو ووٹ کیوں دیں

پیر 23 جولائی 2018

Akif Ghani

عاکف غنی

مارشل لاوٴں اور جمہوری تماشوں کی مسلسل کشمش کے بعد ،معذور سہی مگر مارشل لاء سے ہزار گنا بہتر جمہوری نظام کے دو عدد پانچ سالہ ادوار کی تقریباََ کامیاب تکمیل کے بعد ایک اور پانچ سالہ دور کے آغازکے لئے انتخابی دنگل کے لئے طبل بج چکا ہے۔2018ءء کے انتخابی عمل کا آغاز ہو چکا ہے اور پچیس جولائی کو قوم نے یہ فیصلہ کر دینا ہے کہ اس ملک کی تقدیر کے فیصلے کون کرے۔


پاکستان میں ابھی جو انتخابات ہونے جا رہے ہیں یہ انتہائی اہمیت اختیار کر گئے ہیں کہ ایک طرف حکومتی جماعت ہے جس کے سربراہ کو بدعنوانی کے ارتکاب میں اڈیالہ کی ہوا نصیب ہو رہی ہے اور اسی جماعت کے کئی اور افراد بھی یا تو نا اہل قرار دیے جا رہے ہیں یا پھر جیل کا سامنا کر رہے ہیں تو دوسری طرف اس جماعت کی روائتی حریف جماعت پیپلز پارٹی ہے جو اس جماعت سے اندر کھاتے مل کر،مک مکا کی سیاست کرتے ہوئے بے شمار کرپشن کے الزامات کا سامنا کر رہی ہے ۔

(جاری ہے)


حکومتی جماعت کے سربراہ اور اس کی ممکنہ جانشین مریم نوازکے جیل جانے کے بعد قیادت عملاََنواز شریف کے بھائی شہباز شریف کے پاس چلی گئی ہے اور شہباز شریف جس پر کرپشن اور سانحہٴِ ماڈل ٹاوٴن کی تلوار مسلسل لٹک رہی ہے پورا زور لگا رہے ہیں کہ کسی طرح یا تو مرکز میں اپنی حکومت بنا سکیں ،بصورتِ دیگر کم از کم تختِ لاہور ہی بچا لیں۔
شہباز شریف کے لاہور کو پیرس بنانے، کرپشن کے بادشاہ آصف علی زرداری کے مشہور دعوے کب کے کھوکھلے نعرے ثابت ہو چکے۔

مہنگائی، بے روزگاری،کرپشن ،اور روپے کی قدر میں مسلسل گراٹ مسلم لیگ و ڈبو دینے کے لئے کافی ہیں۔
انتخابات میں ایک طرف حکومتی جماعت ہے جس نے میٹرو ، موٹر ویز اور پلوں جیسے ظاہری منصوبوں سے عوام کے دل جیتنے کی بھرپور کوشش کی ہے جس میں وہ ناکام ثابت ہوئی ہے اور حالیہ بارشوں کے بعد بہت سا پانی پلوں پر سے گزر گیا ۔
دوسری طرف حکومتی جماعت کی روائتی حریف جماعت پیپلز پارٹی ہے جن سے ان کی لڑائی بھی رہتی ہے اور مک مکا بھی۔

پیپلز پارٹی ایک تاریخی سیاسی جماعت ہے جس کے بانی ذولفقار علی بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر عوام میں سوشل ازم کو متعارف کروایا مگر اپنی جاگیردارانہ کھال سے باہر نہ نکل سکے اور جاگیردارانہ نظام کی بھینٹ چڑھنے والے عوام روٹی کپڑا اور مکان سے تو محروم رہے ہی جاگیرداروں کی غلامی سے بھی چھٹکارپا سکے۔
بھٹو جو پاکستان توڑنے والوں میں ایک اہم ن کردار تھا ، پھانسی چڑھا دیا گیا، اس کے خاندان کو جلاوطنی اور دیگر صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا اور ایک اور مارشل لاء کی کالی بدلیاں پاکستان پر مسلط کر دی گئیں۔

ضیائی مارشل لاء کی یہ شب طویل ہوتی چلی گئی اور گیارہ برس بعدضیائی مارشل لاء کا اندھیرا چھٹنے کا وقت آیا تو پیپلز پارٹی جسے ختم کرنے کی مارشل لائی کوششیں دم توڑ گئیں اور مارشل لائی اندھیرے سے ایک بینظیر کرن طلوع ہوئی۔بے نظیر نے پارٹی کو نئی زندگی دی مگر یہ زندگی ،ضیائی مارشل کی کوکھ سے جنم لینے والے مسلم لیگی بچے نواز شریف سے سیاسی آنکھ مچولی کی نظر ہو گئی اور بے نظیر کی شادی کے بعد بے نظیر کے خاوندنے رہی سہی کسر پوری کر دی یوں روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے پارٹی کرپشن کی علامت بن کر رہ گئی اور بی بی کی شہادت کا سیاسی فائدہ اٹھا کر پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالنے والے آصف علی زرداری نے وہ کام کیا جو ضیائی مارشل لا ء بھی نہ کر سکا اور پیپلز پارٹی کی نیا ڈبو کے رکھ دی۔


 اب2018ءء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے بھٹو کے نواسے اور بی بی کے بیٹے کو قیادت سونپی ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ پیپلز پارٹی کو نئی زندگی دی جائے مگر بلاول کی پشت پر کھڑے زرداری اور بلاول کی پھوپھی کو دیکھتے ہوئے یقین ہوجاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا مقصد محض اقتدار کا حصول ہے۔
حکومتی پارٹی کی کرپشن اور ناہلی کی داستانوں ، پیپلز پارٹی کی مایوس کن سیاسی تاریخ کے بعد مذہبی جماعتوں کی طرف نگاہ اٹھائیں تو ایم ایم اے کو دیکھتے ہیں تو اس میں مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت جس کا اس میں بنیادی رول اور حصہ ہے کی سیاسی تاریخ بھی نگاہوں کے سامنے دوڑنے لگتی ہے کہ انہیں اسلام سے زیادہ اسلام آباد سے پیار ہے، ہر حکومت کا حصہ بن کر اپنا حصہ بٹورنا ان کا معمول رہا ہے۔

اسی طرح ایم ایم کا ایک اور بڑا حصہ جماعتِ اسلامی ہے جسے خوِد سمجھ نہیں آتی کہ اس کا مقصد کیا ہے ۔ جماعت جب سے انتخابی عمل کا حصہ بنی ہے سوائے چند سیٹوں کے اس کی کارکردگی زیرو رہی ہے۔
چھوٹی چھوٹی علاقائی اور مذہبی جماعتوں کی سیاست سوائے جزوی فائدے کے کچھ بھی نہیں، اس سلسلے میں ایم کیو ایم ہی دیکھ لیں، عوامی جماعت ہونے کے باوجود چونکہ بس مہاجر ازم پر سیاست کرتی رہی اس لئے سندھ کے محدود شہری حلقوں تک محدود ہو کر رہ گئی اور الطاف کی غداری کے بعد تقسیم در تقسیم کے عمل سے دوچار ہے ایسے میں ایک نئی جماعت پاک سر زمین پارٹی بھی وجود میں آئی تو اس نے بھی مہاجرازم کا سہارہ لیا اور اپنے آپ کو سندھ کے شہروں تک محدود کر لیا۔


پاکستان کی ایسی گھمبیر سیاسی صورتِ حال میں ایک امید کی شمع روشن ہوئی اور عمران خان کی بائیس سالہ جدو جہد کے نتیجے میں جہاں ایک طرف بدعنوان عناصر کو سزائیں ملنا شروع ہو گئیں تو دوسری طرف عمران خان کی جماعت تحریکِ انصاف کو پذیرائی ملنا شروع ہو گئی۔تحریکِ انصاف واحد جماعت ہے جس کا ایک واضع منشور ہے جس پر عم پیرا ہو کر وہ ملک کو ایک فلاحی مملکت بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔


تحریکِ انصاف کی بائس سالہ جدو جہد کے بعد گو کہ اس میں نئے چہرے اس طرح تو سامنے نہیں آ سکے جس طرح آنے چاہئے تھے اور آج الیکٹیبلز کا سہارا لینا پڑ گیا ہے ،گر پھر بھی باقی جماعتوں کی نسبت ایک تو اس کی قیادت بھلے بہت سارے دیگر الزامات کی زد میں ہے مگر کرپشن اور بدعنوانی جیسے الزمات سے پاک ہے دوسرے چوروں اور بدعنوانوں کو سزا دینے کا عزم رکھتی ہے چاہے وہ اپنی جماعت میں ہی کیوں نہ ہوں۔


پی ٹی آئی واحد سیاسی جماعت ہے جو سڑکوں، پلوں یا گلیوں اور نالیوں کی سیاست سے نکل کر تعلیم، صحت، انصاف اور ماحولیات پر اپنا ایجننڈہ سامنے لائی ہے۔
پی ٹی آئی روٹی کپڑا اور مکان کا فرسودہ نعرہ لگا کر قوم کو جاگیردارانہ نظام میں جکڑے رکھنے کی بجائے عوام کو یکساں نظام دینے کا عزم رکھتی ہے۔
پی ٹی آئی ایم ایم اے یا تحریکِ لبیک کی طرح اسلام کا نعرہ لگا کر اقتدار میں اپنا حصہ وصول کرنے کی بجائے ریاستِ مدینہ جیسی ریاست کے قیام پر یقین رکھتی ہے۔


ایک ایسی فلاحی مملکت جہاں،تعلیم سب کے لئے ہو،روزگار سب کو ملے،انصاف سستا اور آسانی سے سب کو میسر ہو،جہاں کوئی بیمار نہ ہو اور ہوجائے تو اس کا مفت علاج ہو سکے۔تحریکِ انصاف ایک نیا پاکستان بنانا چاہتی ہے ،ایک ایسا پاکستان جو سب کا پاکستان ہو۔جہاں امیر اور غریب میں فرق نہ ہو،جہاں ایک روٹی چوری کرنے ولا اور ملک لوٹنے والا دونوں جیل میں ہوں۔

جہاں وزیرِ اعظم کا بچہ اور ایک عام آدمی کا بچہ ایک جیسے تعلیم پا سکیں۔جہاں علاج کے لئے کسی کا باہر نہ جانا پڑے۔
پی ٹی آئی جو کچھ بھی کرنا چاہتی ہے اپنے بل بوتے پر، آئی ایم ایف یا ورلڈ بنک کا غلام بن کر ان سے بھیک مانگ کر نہیں ، ملک سے چوری کو روک کر اور مناسب ٹیکس اکٹھا کر کے اپنے ملک کو مدینہ جیسی فلاحی مملکت بنانا چاہتی ہے۔
اگر آ پ چاہتے ہیں کہ چوروں سے جان چھوٹے،تعلیم،صحت اور عوام کو یکساں مواقع ملیں تو پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :