کپتان کا امتحان شروع

اتوار 10 جون 2018

Akif Ghani

عاکف غنی

بائیس برس سے زائد کی طویل جدو جہد کا نتیجہ یہ ہے کہ آج عمران خان کی قائم کردہ جماعت” تحریک ِانصاف “اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ بظاہر ایسا ہی لگ رہا ہے کہ اقتدار کا ہُما عمران خان کے سر پربیٹھنے والا ہے۔عمران خان ایک طویل جدوجہد کے نتیجے میں کافی عرصہ تک ایک تانگہ پارٹی ہی نظر آتے رہے،مگر 2013ءء میں تبدیلی کی ایک ایسی ہوا چلی کہ لوگ جوق در جوق تحریکِ انصاف کا حصہ بنتے چلے گئے۔

اقتدار کی منزل 2013ءء میں تو عمران خان سے دور رہی مگر مسلم لیگ نون کے خلاف طویل دھرنے اور پھر پانامہ کیس میں شریفوں کی نا اہلی نے تحریکِ انصاف میں وہ مقناطیسی کشش پیدا کر دی کہ ،نون لیگ ہو یا پیپلز پارٹی لوگ ٹُوٹ ٹُوٹ کر تحریکِ انصاف کا حصہ بنتے گئے۔عمران خان کو تانگہ پارٹی کا طعنہ دینے والے بھی عمران کے قافلے میں شامل ہوتے چلے گئے۔

(جاری ہے)


َ#عمران خان کو بھی یہ ادراک ہونے لگا کہ تبدیلی لانے کے لئے پاور میں آنا ضروری ہے اور پاور میں آنے کے لئے تحریک کے دروازے وسیع کرنے ہوں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ وہ لوگ تحریک کا حصہ بن سکیں جن کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔
پاکستانی سیاست کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ یہاں چند خاندانوں کی سیاست میں اجارہ داری ہے اور ہر الیکشن میں انہیں خاندانوں کے لوگ منتخب ہوتے ہیں۔

ان خاندانوں میں کچھ کا تعلق ایسی جماعتوں سے ہے جن سے ان کا تعلق نظریاتی ہے تو کچھ ایسے ہیں جو بس اس جماعت میں رہنا پسند فرماتے ہیں جو اقتدار میں ہو،وقت کا دھارا دیکھ کر خاندانوں کے خاندان کبھی اِدھر نظر آتے ہیں تو کبھی اُدھر،ایسے بیشمار نمائندگان میں جو پہلے مسلم لیگ ( ق) میں تھے اور مسلم لیگ(ن) کا سورج طلوع ہوتے دیکھا تو اس طرف لڑھک گئے،اب انہیں میں سے بیشتر تحریکِ انصاف کا حصہ ہیں۔


اسے قحط الرجال کہیے یا بدمعاشیہ کی اجارہ داری کہ یہاں کوئی جماعت بھی عوام میں شعور پیدا کر کے نئے چہرے سامنے لانے سے قاصر ہے، نئے چہرے سامنے آ بھی جائیں تو عوام میں ان کو وہ پذیرائی نہیں ملتی جو انہیں اجاراداران کے خلاف الیکشن جیتنے کے قابل بنا سکے۔پاکستان میں اول تو جمہوریت پنپ ہی نہیں سکی اور جب کبھی پنپنے کی کوشش کی تو اس میں خرید و فروخت کا عمل شروع کر دیا گیا۔

خرید و فروخت کے اس عمل میں عوامی نمائندوں کو گھوڑے قرار دیا گیا اور اس عمل میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ثابت شدہ ہے۔ اصطبل کے اصطبل بکتے رہے،اصغر خان کیس اس کی واضع مثال ہے۔ چھانگا منگا میں منڈیاں لگتی رہیں،مری کے ہوٹلوں کی رونقیں بڑھتی رہیں اور گھوڑے بکتے رہے۔گھوڑوں کی خریدو فروخت کا عمل شائد رُک چکا ہے مگرگھوڑوں کی خریدو فروخت کے بعد پارٹیاں بدلنے کا رحجان رواج پا گیا ہے اور پارٹی بدلے والے کو بے پیندہ لوٹا قرار دیاگیا ہے کہ بے پیندہ لوٹا ادھر اُ دھر سرکتا پھرتا ہے۔


ہماری سیاست میں بیشمار ایسے کردار ہیں جو چڑھتے ہوئے سورج کی پوجا کرتے ہیں اور ہوا کا رُخ دیکھ کر بے پیندے لوٹے کی طرح ادھر ادھر لُڑھکتے پھرتے ہیں۔
پاکستان میں پارٹیاں بدلنے کا رحجان اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہر پارٹی بدلنے والے کو لوٹا قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ کہ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو واقعتا ایک نظریے اور سوچ سے متاثر ہو کر ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جاتے ہیں۔


پارٹیاں بدلنے والوں میں ایک تو وہ ہیں جنہیں عادت ہے اپنا قبلہ روز بدلنے کی ، اور کچھ مجبوراََ پارٹیاں بدلتے ہیں۔ تحریکِ انصاف کا معاملہ ذرا مختلف ہے کہ اس میں اس کے باوجود کہ کچھ لوٹے بھی آئے ہیں مگر بہت سے لوگ عمران خان کی سوچ اور تحریکِ انصاف کے نظریے سے متاثر ہو کر بھی اس کارواں کا حصہ بنے ہیں۔کئی ایسے ہیں جو پیپلز پارٹی کی اپنے نظریے سے انحراف،نون لیگ کے قائدین کی ہٹ دھرمی اور پے در پہ ریاست دشمن بیانات سے تنگ آکر اپنی اپنی جماعتوں کو چھوڑ کر کپتان کے سپاہی بنے ہیں۔


دو عشروں کی مسلسل تگ و دو کے بعد،دو جمہوری ادوار کی تکمیل کے بعد الیکشن کا مرحلہ آ گیا ہے اور عمران خان کے امتحان کا وقت بھی ہوا چاہتا ہے۔عمران خان کی سوچ اور نظریے نے ملک بھر میں بندے بندے کے دل میں گھر کر لیا ہے یہی وجہ کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعتوں سے ہی نہیں کراچی کی لسانی تنظیم ایم کیو ایم سے بھی لوگ تحریک کا حصہ بنے ہیں۔


عمران خان کی انتظامی صلاحیتیں شوکت خانم اور نمل میں اپنا لوہا منوا چکی ہیں،اب وقت آگیا ہے ملک کا انتظام و انصرام سنبھالنے کا۔
الیکشن کا اعلان ہوتے ہی ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ شروع ہو چکا ہے ۔ یہ مرحلہ انتہائی مشکل ہے کہ تحریکِ انصاف میں پرانے اور نئے لوگوں کے مابین توازن رکھتے ہوئے مناسب لوگوں کو سامنے لانا ہے۔
پاکستان کے اس المیے کو سامنے رکھتے ہوئے کہ یہاں انہیں لوگوں کو ٹکٹ دیے جا رہے ہیں جن کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔

عمران خان اور تحریکِ انصاف میں بھی ایک سوچ پیدا ہو چکی ہے کہ اب پاور میں آنا ضروری ہے ورنہ تو تبدیلی ممکن نہیں اور اس کے لئے ایسے لوگوں کو ہی ترجیحاََ ٹکٹ دئے جا رہے ہیں جن کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔
تحریکِ انصاف میں فوج در فوج نئے شامل ہونے والوں کی اکثریت وہ ہے جن کی سیاست پر اجارہ داری ہے،سرمایہ دار،جاگیر دار،پیر وڈیرے اور بدمعاشیہ بیک گراوٴنڈ رکھنے والے اور انہی لوگوں کو ٹکٹ دئے گئے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ تحریکِ انصاف نے بھان متی کا کنبہ اکٹھا کر لیا ہے، اب اس کنبے کی سربراہی کریں گے عمران خان۔
عمران خان کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ ایماندار ہے ،کرپٹ نہیں ہے ، جو کہتا ہے کر گزرتا ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران کس طرح اس ادھر ادھر سے اکٹھے کئے گئے عناصر کے ساتھ مل کر ملک میں تبدیلی لاتا ہے۔
یہ جاگیردار اور وڈیرے ، یہ سرمایہ دار اور پیر،یہ سب جن کی سیاست کا دارو مدار ہی اسٹیٹس کو، پولیس کے سہارے اپنی دھاک بٹھانا اور عوام کو اپنے دباوٴ میں رکھنا ہو وہ کس طرح عمران خان کو پولیس کا آزاد ادارہ بنانے دیں گے۔

تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں عام کرنے کا موقع دیں گے،اقتدار کو نچلی سطح تک لانے کے لئے بدلیاتی نظام میں بہتری لانے دیں گے۔اداروں کے ذریعے اپنے آپ کو مضبوط بنانے والے کس طرح اداروں کو خوِد مختار اور آزاد بنانے دیں گے۔
کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے والا کپتان،شوکت خانم جیسے عظیم ہسپتال کو بنانے اور چلانے والا عمران، اور نمل جیسے عظیم الشان تعلیمی منصوبے کو پاکستان کی پہچان بننے والا خان دیکھتے ہیں کس طرح سیاست کے ان ماہر کھلاڑیوں کو سیاسی پچ پر ماہرانہ انداز سے کھلاتے ہوئے پاکستان کے مسائل کو کلین بولڈ کرتاہے۔


عمران کا امتحان شروع ہونے والا ہے، اللہ کرے وہ اس امتحان میں کامیاب ہو جائے،اگر وہ کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ سافٹ انقلاب کی طرف پہلا قدم ہوگا اور خدا نخواستہ وہ ناکام ہوتا ہے تو یہ ناکامی خان کی نہیں ہوگی یہ ناکامی پاکستان کی ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :