
ذہن رسا اور حسن نیت
ہفتہ 3 دسمبر 2016

عمار مسعود
(جاری ہے)
تعلیم ہمارے ہاں ایک ایسا میدان ہے جس کو ہر دور میں بڑی سہولت سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ چونکہ نتائج کے لیئے انتظار طویل اور راستہ کٹھن ہے اس وجہ سے نہ ڈکٹیٹر اور نہ ہی سیاسی حکومتیں اس شعبے کی طرف توجہ دے سکیں ۔نہ سلیبس میں متوقع تبدیلیاں ہوئیں نہ اساتذہ کی تربیت کا انتظام ہوا، نہ طالب علم میں علم کی طلب کو جگایا گیا نہ فروغ علم کی کوئی سنجیدہ سبیل کی گئی، نہ تعلیمی معیار میں مساوات آئی ور نہ ہی علم کی ترسیل کا کوئی ہمہ جہت منصوبہ سامنے آیا۔ یہ شعبہ نظرا انداز تھا اور نظر انداز ہی رہا۔
پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں ایک بہت اہم قدم انیس سو چوہتر میں اٹھایا گیا جب ذوالفقار علی بھٹو جیسے زیرک سیاستدان نے پاکستان میں پیپلز اوپن یونیورسٹی کا آغاز کیا۔ اس وقت یہ ایشیاء میں اپنی نوعت کی پہلی اور دنیا میں دوسری اوپن یونیورسٹی تھی۔ انیس سو ستتر میں اسکا نام تبدیل کر کے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی رکھ دیا گیا۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں درسگاہوں کی کمی، اساتذہ کی عدم دستیابی اورتحقیق کا فقدان ہے وہاں اس سے بہتر حل پیش نہیں کیا جا سکتا تھا۔ گھر بیٹھے تعلیم حاصل کرنے کا یہ منصوبہ ابتداء میں تو ٹھیک کام کرتا رہا مگر رفتہ رفتہ اس کا حال ہر سرکاری شعبے والا ہو گیا۔ جدت اور ندرت مفقود ہو گئے اور گریڈ اور سرکاری بھرتیاں تعلیم کے نظریئے پر حاوی ہونے لگیں۔معیار پست ہونے لگا اور طلبہ کی تعداد گھٹنے لگی۔ دو سال پہلے اس یونیورسٹی کے وائیس چانسلر کے منصب پر ڈاکٹر شاہد صدیقی کو تعینات کیا گیا۔ یہ وہی ڈاکٹر شاہد صدیقی ہیں جنہوں نے گارڈن کالج سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے لسانیات میں پی ایچ ڈی کی۔ ڈاکٹر صاحب دنیا بھر کی بہت سی یونیورسٹیوں میں بے شمار تعلیمی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ انکے ریسرچ پیپرز دنیا بھر کے معروف تحقیقی جریدوں کی زینت بن چکے ہیں۔ انکی بہت سی تحقیقی کتب بھی شائع ہو چکی ہیں۔ ادب کے میدان میں بھی انکا ناول آدھے ادھورے خواب اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ دو سال قبل جب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا نظام و نسق ڈاکٹر صاحب کے حوالے کیا گیا تو صورت حال ابتر تھی اور چلینج بہت دشوار تھا۔ورلڈکالمسٹ کلب کو دی جانے والی ایک پریزنٹیشن میں گذشتہ دو سالوں میں ہونے والی مثبت تبدیلیاں کے بارے میں جب بتایا گیا تو یقین مانیئے بے پناہ فخر کا احساس ہوا۔ گزشتہ دو برسوں کا سب سے بڑا کارنامہ تو یہ ہے کہ ان دو برسوں میں طلباء کی تعداد چھ لاکھ سے تیرہ لاکھ ہو گئی۔ سائینس کے نو نئے شعبے متعارف کروائے گئے۔آرٹس میں ان شعبوں کی تعداد پندرہ تک پہنچ گئی۔تحقیق کے کلچر کو فروغ دیا گیا۔سلیبس پر نظر ثانی کر کے مثبت تبدیلیاں کی گئیں۔۔ متعدد انٹر نیشل کانفرنسز منعقد کروائی گئیں۔لائیبریری کو وسعت دی گئی۔ آن لائن کتب کی سہولت ہر فرد تک پہنچائی گئی۔معذور افراد کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔ طلباء کی شکایات فوری طور پر دور کرنے کا انتظام کیا گیا۔ مستحق طلباء کی مفت تعلیم کا اہتمام کیا گیا ۔ دور دراز کے علاقوں میں تعلیم کے فروغ کو سہل بنایا گیا۔ طلباء کو تعلیم دینے کے جدید طریقے اپنائے گئے۔ ماڈرن ٹیکنالوجی کے جدید نظام کو تعلیم کے لیئے استعمال کیا گیا۔ یہ سب ایک ایسے ادارے کے کارنامے ہیں جو ایک سفید ہاتھی کے طور پر مشہور تھا۔ جس میں ترقی خواب ہو چکی تھی۔ جس میں بہتری کی خواہش سراب ہو چکی تھی۔
ہم اپنی ابتدائی گفتگو کی طرف واپس آتے ہیں کہ فرد زیادہ اہم ہے یا نظام؟ ہمارا ہمیشہ سے ووٹ نظام کے حق میں رہا ہے مگر ڈاکٹر شاہد صدیقی کے کارہائے نمایاں دیکھ کر بخوبی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ذہن رسا اور حسن نیت میسر ہو تو ایک شخص بھی انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ تما م تر نفی کو اثبات میں بدل سکتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمار مسعود کے کالمز
-
نذرانہ یوسفزئی کی ٹویٹر سپیس اور فمینزم
پیر 30 اگست 2021
-
گالی اور گولی
جمعہ 23 جولائی 2021
-
سیاسی جمود سے سیاسی جدوجہد تک
منگل 29 جون 2021
-
سات بہادر خواتین
پیر 21 جون 2021
-
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے نام ایک خط
منگل 15 جون 2021
-
تکون کے چار کونے
منگل 4 مئی 2021
-
نواز شریف کی سیاست ۔ پانامہ کے بعد
بدھ 28 اپریل 2021
-
ابصار عالم ہوش میں نہیں
جمعرات 22 اپریل 2021
عمار مسعود کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.