احمد نوارنی لڑکیوں کو چھیڑتا ہے

اتوار 5 نومبر 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

لو جی قصہ ہی ختم ہو گیا۔ بیچ چوراہے میں بھانڈا ہی پھوٹ گیا۔ بہت دنوں سے میڈیا میں احمد نورانی پر ہونے والے حملے کے حوالے سے چرچا تھا۔ جس نے سنا دل جوئی کے لیے ہسپتال پہنچ گیا۔ جس نے تصویر کھنچوا کر چینلوں پر چلانی تھی دو سو روپے کا گلدستہ لے کر بیمار پرسی کو جا پہنچا۔ صحافی تنظیموں نے بھی موقع سے خوب فائدہ اٹھایا ۔ دل کھول کر بھڑاس نکالی۔

جس کو جہاں چار لوگ میسیر ہوئے اس نے بینر پر نوارنی کی تصویر لگا کر آذادی صحافت کا چورن بیچا۔ حکومت کے خلاف دل کھول کر نعرے لگائے گئے۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی توم ڈالا ۔ اصل میں آج کل آذادی اظہار کا نعرہ باقاعدہ فیشن بن گیا ہے ۔ اتنے اخبارات ، چینلز ، ریڈیو سٹیشنز اور مجلوں کے دور میں آذادی صحافت کا علم بلند کرنا ویسے بھی ایک سہل کام ہے۔

(جاری ہے)

ہر کوئی منہ اٹھا کہ صحافیوں کے حق میں گفتگو شروع کر دیتا ہے۔ بھئی ،اس ملک میں کوئی چیز مشہور ہو جائے بس پھر سب اندھا دھند پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ وزیر اعظم نے عیادت کا پیغام کیابھیجا سب کو پر لگ گئے۔ چھوٹے چھوٹے وزیر تک اس کار نیک میں شریک ہو نے کے خواہشمندبنے رہے۔ وزیر ختم ہوئے تو اپوزیشن کی باری آگئی۔ اس سے نجات ملی تو ایم این اے اور ایم پی اے میدان میں اترے۔

گلدستے لے کر ، پریس فوٹو گرافر کی مٹھی گرم کر کے آذادی صحافت کی شمع روشن کرنے لگے۔آخر میں تو معاملات یونین کونسلر کی سطح تک پہنچ گئے۔ احمد نورانی نے اپنی خود ساختہ قربانی کا یہ حشر دیکھا تو بغل میں بسترا باندھا اور ہسپتال سے رخصت ہو لیئے۔
بات احمد نوارنی پر حملے کی وجوہات سے شروع ہوئی تھی جانے بیچ میں جملہ معترضہ کہا ں سے آن آ ٹپکا۔

ذکر ہو رہا تھا ایک فاضل مقامی روزنامے کا جس نے احمد نوارانی کا سارا کچا چٹھا کھول کر بیان کر دیا ۔ جیسا کہ دشمنوں کو پہلے ہی شک تھا وہی ہوا۔ قصہ عشق کا نکلا۔ کہانی نظرکچھ اور آرہی تھی معاملہ کچھ اور نکلا۔ اس فاضل مقامی روزنامے کے مطابق احمد نوارنی کے ساتھ مار پٹائی کا موجب مقامی یونیورسٹی ایک حسینہ تھی۔ جس کے نشیلے نینیوں کے صاحب دیوانے تھے۔

جس کی زلفوں کے بارے میں رشک قمر جیسے بیہودہ اشعار پڑھتے تھے۔ بکر ے کی ماں کب تک خیر مناتی ایک دن دوشیزہ جو حسن و جمال کا مرقع تھی اس کے برداران خورد نے سرعام انتقام کی آگ ٹھنڈی کی۔بہادر برادر خوردد اس موقعے پر تنہا نہیں تھا ۔ اس نے اس نیک کام میں اپنی معاونت کے لیئے پانچ اور غیرت مند بھائیوں کا انتظام کیا اور زیرو پوائنٹ کے قریب موقع غنیمت جان کر سرعام غیرت کا مظاہرہ کیا اور مذکورہ نام نہاد صحافی کومار پیٹ کربحالی غیرت کے مشن میں کامیاب رہے۔

سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ کام مکمل ہونے پر ملزمان نے بحالی غیرت سے سرشار ہو کر چادر اور چار دیواری کے تحفظ کے حق نعرے بھی لگائے۔جیسا کہ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ ایسے نام نہاد صحافی جو اس طرح کی قبیح حرکتوں مشغول رہتے ہیں وہ فورا آذادی اظہار کا دامن تھام لیتے ہیں۔ جمہویت کا ڈھول بجانا شروع کر دیتے ہیں۔ عوام کے حق حاکمیت کا ماتم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

احمد نوارنی نے بھی یہ ہی کیا ۔ دیکھا دیکھی خواتین کو چھیڑنے والے دیگرصحافی بھی اس جرم میں علی اعلان شامل ہو گئے۔
آج کل صحافیوں ، روزناموں اور اینکروں میں تحقیق کا شدت سے فقدان ہے۔ ایسے ہی سنی سنائی بے پر کی اڑا دیتے ہیں۔ اگر چہ مجھے یقین کامل ہے احمد نوارنی کے بارے میں یہ خبر شائع کرتے ہوئے فاضل مقامی روزنامے نے بھرپور تحقیق کی ہو گی۔

لیکن اس خبر کو پڑھ کر دل میں شک سا رہ گیا کہ کہیں پیشہ ورانہ رقابت میں کسی راہ چلتے رپورٹر نے یہ بہتان تراشی نہ کی ہو۔ اس لیئے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیئے خاکسار نے خود تحقیق کا بیڑہ اٹھایا۔ اگر چہ فربہی کے عالم کی بناء پر راقم خود کو اٹھانے میں لیت و لال سے کام لیتا ہے کسی اور کا بیڑہ تو اٹھانا دور کی بات ہے۔لیکن جہاں معاملہ ہو آذادی صھافت کا تو احقر سے رہا نہیں جاتا ۔

اس لیئے اس مشکل کام میں ہاتھ ڈال ہی دیا۔ ابھی تک اس تحقیق کے ہوشربا نتائج سامنے آچکے ہیں۔ بس سمجھیں ایسے ایسے انکشافات ہوئے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ خاکسار خود شرم سے کئی دفعہ ڈوبتے ڈوبتے بچا۔
یہ قصہ احمد نوارنی کے بچپن سے شروع ہو تا ہے۔جرم کی ابتداء تو بچپن سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ابھی یہ صاحب کم سن ہی تھے کہ اپنے گاوں میں ایک بڑے درخت کی چھاوں تلے ایک اوپن ائیر سکول میں تختی پر ایک مقامی سکول کی طالبہ کا نام لکھتے پکڑے گئے۔

گاوں میں غیر ت مند موٹر سائیکل سوار تو دستیاب نہیں تھے اس لیئے ماسٹر صاحب نے چھڑی کی شدید ضربات سے عشق کا بھوت اتار دیا۔ عشق کا بھوت کیا اترنا تھا صاحب، ڈھٹائی مزید بڑھ گئی۔ جناب والا۔ یہی وہ مجرم ہے جو عین عالم شباب میں گاوں کی ٹوٹی بھوٹی گلیوں میں موٹر سائیل پر بارہا ون ویلنگ بھی کرتے پایا گیا ہے۔ جرم کی شدت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فساد خلق خدا کے لیئے موٹرسائیکل پر سے سائلنسر بھی اتار دیا گیا۔

اس خبر کی تحقیق ایک مقامی بزرگ نے بھی کی ہے۔ایک اور بزرگوار نے کان میں بتایا کہ بات بے سائلنسر موٹر سائیکل تک محدود نہیں رہی بلکہ اس زمانے یہی قومی مجرم ٹوٹے پھوٹے شعر بھی کہنا شروع ہو گیا تھا۔ جو وزن اور اخلاق دونوں سے گرے ہوئے تھے۔موصوف اس زمانے میں مضروب تخلص کیا کرتے تھے جس کی زندہ و جاوید تصویر آج خود بنے ہوئے ہیں۔ایک مبینہ ڈائری کا بھی سراغ ملا ہے جس میں فراز ، فیض اور جالب جیسے شاعروں کے عاشقانہ اور فاسقانہ اشعار کی بھرمار تھی۔

اخلاق باختگی کا یہ سلسلہ یہاں پر رکا نہیں بلکہ کچھ نیم مصدقہ ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ مضروب نے جوانی میں اپنی کلائی پر ایک دل اور اس میں پیوستہ تیر کا نشان بھی کھدوا لیا۔جس کو مقصد گاوں کی باپردہ خواتین پر ڈورے ڈالنے کے علاوہ مغربی طرز محبت کو فروغ دینا بھی تھا۔ اسی طرح ایک قریبی تعلق دار نے نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر یہ بھی بتایا کہ چھپ چھپ کر بے ہودہ انگریزی فلمیں دیکھنا، دشمن ملک کی فلموں کے عشقیہ گانے گانا، اونچی اونچی آواز میں ہیر وارث شاہ کے ذومعنی شعر پڑھنا بھی ملزم کا وہ طرہ رہا ہے جس پر بالکل امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔

ایک قریبی دوست نے یہ بھی بتایا کہ نوارنی دوستوں کو فون پر کثیفے بھی فارورڈ کیا کرتا تھا۔ کثیفے دراصل لطیفے کی اس شکل کو کہتے ہیں جس کی اجازت تحریر کی طہارت نہیں دیتی۔مبینہ دوست نے ان چند کثیفوں میں سے چند ایک راقم کو دکھائے ۔ خاکسار پہلے تو مشرقی رویات کے مطابق بہت محظوظ ہوا اور پھر دل بھر کر توبہ توبہ بھی کی۔ اس کے علاوہ اگر آپ احمد نوارنی کے فیس بک اکاونٹ پر جائیں تو بہت سی خواتین بھی فرینڈزلسٹ میں ملیں گی جو کہ کردار کے اس غازی کی دیدہ دلیری کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

احمد نوارنی کے جرائم کی فہرست تو بہت طویل ہے۔لیکن یہ سب اس زمانے کا ذکر ہے کہ جب احمد نوارنی ایک لفافہ صحافی نہیں بنا تھا۔ جب اس کے اکاونٹ میں اربوں ڈالر اور ہر ہاوسنگ سوسائٹی میں اس کے پاس پانچ سو گز کا پلاٹ نہیں تھا۔
اب جو ہوا ہے وہی ہونا چاہیئے تھے۔ برے کاموں کا برا نتیجہ ہی ہوتا ہے۔اس وضاحتی تحریر کا مقصد عوام الناس کو یہ بتانا تھا کہ جو کچھ ہوا یہ احمد نوانی کی حرکتوں کا شاضسانہ تھا۔

ماضی میں جید صحافیوں حامد میر، عمر چیمہ اور مطیع اللہ جان پر بھی آذادی اظہار کا الزام لگا لیکن تحْقیق نے نتائج کچھ اور ثابت کیئے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان واقعات کا جمہوریت سے ، اداروں کی جنگ سے، عوام کے حق حاکمیت سے، آذادی صحافت وغیرہ وغیرہ سے کوئی دور پار کا بھی تعلق نہیں ہے۔ مزید یہ کہ سچ لکھنے کی خواہش، حق کا علم اٹھانے کے نظریئے، حقائق کے بیان سے ان واقعات کا رشتہ جوڑنا بھی غلط ہے۔ یہ بے پر کی دشمنوں نے اڑائی ہے۔ بات سامنے کی ہے۔ احمد نوارنی لڑکیوں کو چھیڑتا ہے اور ایسے ناہنجاروں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :