سینیٹر لالہ عثمان کاکڑ سے ایک ملاقات

اتوار 18 مارچ 2018

Ammar Masood

عمار مسعود

چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے عمل میں اس ملک میں جس طرح جمہوریت کے چہرے پر سیاہی پھینکی گئی اس پر تما م جمہوریت پسند رنجیدہ ہیں۔ جس طرح راتوں رات وفاداریاں تبدیل کی گئیں،جس طرح غیر سیاسی قوتوں کی پشت پناہی پر ارکان کی خرید و فروخت ہوئی، جسطرح مینڈیٹ کا مذاق اڑایا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ اس سلسلے میں ہر فورم پر بہت تبصرے ہو چکے ہیں ، بہت سے پروگرام کیئے جا چکے ہیں، بہت سے کالم لکھے جا چکے ہیں۔

لیکن جمہوریت کی اس ہزیمت پر کہے کچھ لفظ تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔ چیئرمین سینٹ کے انتخابات مکمل ہونے کے بعد سینیٹرحاصل بزنجو اور سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کی تقاریر نے اس بات کی قلعی کھول دی کہ اس ملک میں کس قسم کی بھی جمہوریت ہے یا عوام کی منتخب کردہ حکومتوں کا فیصلوں میں کوئی بھی عمل دخل ہے۔

(جاری ہے)

ان دو تقاریر کا ایک ایک لفظ سونے کے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔

خصوصا سینیٹر عثمان کاکڑ نے جس طرح جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کی تقسیم بتائی، اس حوصلے اور جرات سے بات کرنے کی استطاعت کم ہی لوگوں میں ہے۔ اس سماج میں،اس فیصلہ کن طریقے سے بات کرنے کے لئے شیر کا جگر درکار ہے۔ عثمان کاکڑ اگر چہ پرانے سیاسی کارکن ہیں لیکن اس ایک تقریر سے یکدم سارے ملک کے ہیرو بن گئے ہیں۔ ان کا تعلق پختونخواہ ملی عوامی پارٹی سے ہے۔

پشتونوں کے حقوق کا علم اٹھائے ، یہ نظریاتی لوگ ہیں ۔ دہائیوں سے جمہوریت کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اعلی ترین عہدوں پر رہنے کے باوجود نہ ان پر کرپشن کا کوئی الزام ہے نہ ہارس ٹریڈنگ انکی سرشت میں ہے نہ لائسنسوں اور پرمٹوں کی سیاست کے یہ روادار ہیں۔ ان پر ہمیشہ سے الزام جمہوریت پسند ہونے کا ہے اور آج تک یہ بڑی خوشدلی سے اس جرم کی سزا بھگت رہے ہیں۔

گزشتہ دنو ں سینیٹر عثمان کاکڑسے ایک ملاقات ہوئی ،ان کی مہمان نوازی کا لطف دیر تک قائم رہا۔ جس وثوق ، تیقن اور اٹل انداز کے ساتھ ملکی مسائل پر سینیٹر صاحب نے گفتگو کی وہ انہی کا خاصہ ہے۔اس ملاقات میں کی گئی چند باتیں ہی آج کا کالم ہیں۔ چونکہ یہ ملاقات کوئی باقاعدہ انٹرویو نہیں تھی اس لئے اگر بیان میں کوئی زیر زبر ہوجائے تو معذرت خواہ ہوں۔


عثمان کاکڑ اس بات پر بڑی شدت سے قائم ہیں کہ ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد سے آج تک اس ملک میں انتقال اقتدار نہیں ہوا ہے اسکے بعد جو کچھ ہوا ہے اس کو شراکت اقتدار ضرور کہا جا سکتا ہے، انتقال اقتدار نہیں۔ امریکہ کی اس جنگ میں ہم نے خود کو جھونک کر برباد کر لیا ہے۔ دہشت گردی کو پنپنے کا موقع دیا ہے۔ اس سارے کھیل میں نہ پارلیمان کی کوئی حیثیت تسلیم کی گئی نہ عوامی رائے کو کوئی اہمیت دی گئی۔

انکے بقول اس جنگ میں ہمارے پاس ڈالر بوریوں میں نہیں کنٹینروں میں بھر بھر کر آئے تھے۔ جنگ کو کاروبار سمجھنے والے دنوں میں کڑوڑوں ، اربوں میں کھیلنے لگے۔یہ جنگ نظریات کی نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے بنیادی حرص ، زر کی تھی۔ اس جنگ میں بے وجہ کود جانے نے اس سماج کو تباہ کیا ہے۔ شدت پسند مذہبی عناصر کو اس معاشرے میں جگہ دی۔ اس دن سے آج تک ہم اسی جنگ کے اثرات بھگت رہے ہیں۔

اس دن کے بعد سے جمہوریت میں آمرانہ عناصر کسی نہ کسی شکل میں کارفرما رہے ہیں۔ جمہوریت آج تک ضیاء الحق کے قبضے سے آذاد نہیں ہوئی۔
سینیٹر عثمان کاکڑ نے حکومت وقت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کے دھرنا ون میں جب غیر جمہوری قوتوں کی شمولیت کا انکشاف ہو گیا تھا تو حکومت کو بھرپور احتجاج کرنا چاہیے تھا۔کسی طرح بھی غیر جموری عناصر کے اس جرم کو معاف نہیں کرنا چاہیے تھا۔

چاہے اس کے لئے اقتدار کی بھی قربانی دینی پڑ جاتی۔ لیکن حکومت نے سمجھوتے کی پالیسی اپنائی اور پھر ان غیر جمہوری قوتوں کے آگے سرنگوں ہوتی ہی رہی۔ کبھی ڈان لیکس پر سر جھکایا ، کبھی سینیٹر پرویز رشید کو برخواست کیا، کبھی طاہر لقادری کو برداشت کیا ، کبھی خارجہ پالیسی پر غیر جمہوری قوتوں کو من مانی کرنے دی، کبھی راحیل شریف کو ملکوں، ملکوں دورے کرنے کی اجازت دی،کبھی اپنے وفاداروں کی قربانی دی اور حتی کہ خاد م رضوی تک سے مفاہمت کی راہ تلاش کرتے رہے۔

حکومت کو ان باتوں پر کبھی مفاہمت کی پالیسی اختیار نہیں کرنی چاہیے تھی بلکہ پوری شدت سے غیر جمہوری قوتوں کے ایک، ایک اقدام پر مزاحمت کرنی چاہیے تھی۔ پارلیمنٹ کی بالا دستی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ راجہ ظفر الحق کی نامزدگی بھی ایک طرح کا سمجھوتہ ہی تھا۔ پرویز رشید، مشاہد اللہ خان اور حاصل بزنجو بہت بہتر امیدوار تھے۔ ہم آخری لمحے تک رضا ربانی کو چیئرمین بنانے کے لئے کوشش کرتے رہے مگر اس جمہوریت پسند چیئرمین کی تعیناتی کے راستے میں پیپلز پارٹی آڑے آ گئی۔

بے نظیر شہید کے پاس بھی 1988 میں موقع تھا کہ وہ عوام کا حق حاکمیت منوا سکتی تھیں مگر انہوں نے بھی اقتدار کی خاطر غیر جمہوری قوتوں سے سمجھوتے کیے اور پھر اس کا خمیازہ اس سارے ملک کو بھگتنا پڑا۔ ا نہوں نے میاں نواز شریف کے موجودہ نعرے ” ووٹ کو عزت دو“ کی تائید کی اور کہا کہ یہی راستہ بہتر مستقبل کا جاتا ہے اسی سے عوام کو حق حاکیت ملے گا۔


جنرل مشرف کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک ایساشخص جس نے اس ملک کے آئین کو پامال کیا، عوامی اداروں کی توہین کی، عوامی مینڈیٹ کا مذاق اڑایا، غیر آئینی طریقوں سے خود کو پارلیمنٹ سے بالا دست ثابت کیا ، ایسے شخص کو عبرتناک سزا ملنی چاہیے ۔ ایسے ڈکٹیٹر کو سارے ملک میں عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے ۔ میرے استسفار پر کہ بات تو درست ہے لیکن کیا ایسا ہو سکے گا؟ تو عثمان کاکڑ نے جواب دیا کہ حالات کی موجودہ روش کو دیکھتے ہوئے یہ ممکن نظر نہیں آتا لیکن جب تک ایسا ہو گا نہیں یہ ملک سدھرے گا نہیں۔


آئیندہ آنے والے انتخابات کے بارے میں خدشات کا ظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا ابھی الیکشن میں بہت سے مرحلے باقی ہیں۔ نگران حکومتوں کے قیام سے پہلے بہت ضروری ہے کہ ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے جس میں صرف تین نکاتی ایجنڈا ہو۔ پارلیمان کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، عوام کے حاکمیت پر کوئی مفاہمت نہیں ہوگی۔ غیر جمہوری قوتوں سے کسی قسم کی شراکت داری نہیں ہوگی، نگران حکومتوں کو صرف شفاف انتخابات کروانے کا پابند کیا جائے گا۔

جو پارٹیاں اس کانفرنس میں شامل ہو کر اس ایجنڈے پر عمل کریں گی وہی سیاست کے لائق کہلائیں گی اور جو اسطرح کے ایجنڈے کا بائیکاٹ کریں گی وہ کھل کر سامنے آ جائیں گی۔ عوام خود ان کو مسترد کر دیں گے۔ انہوں مزید بتایا کہ آئندہ انتخابات میں مینڈیٹ کو تقسیم کرنی کی جغرافیائی اور نظریاتی کوشش کی جائے ۔ جیسا کہ بلوچستان میں ابھی سے خفیہ طاقتیں دھمکیاں دے رہی ہیں کہ انکی پارٹی کو کامیابی حاصل کرنے سے ہر ممکن حد تک روکا جائے گا لیکن ہم ان دھمکیوں کی پرواہ نہیں کرتے ہم پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔


سینیٹر عثمان کاکڑ اس المیئے پر شدید غم کا اظہار کیا کہ اب جو کچھ جمہوریت کے نام پر ہو رہا ہے وہ جمہوریت نہیں ہے۔ کہنے کو سینٹ کے انتخابات آئین کے مطابق ہوئے ہیں مگر ان میں پوشیدہ قوتوں کے کارناموں کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ کہنے کوتو کیس عدالتوں میں چل رہے ہیں مگر عدالتوں پر اثر انداز ہونے والی غیر جمہوری قوتوں کو کون نظر انداز کر سکتا ہے۔

جمہوریت اس وقت قائم ہو گی جب پارلیمان کو سب سے بالا دست تسلیم کیا جائے گا۔ اس کی حکمرانی کو اٹل مانا جائے گا۔ اس کے فیصلوں کو توقیر دینے کی روایت پڑے گی تو ہم جمہوری کہلا سکیں گے۔ دنیا کے سات ارب لوگ اور 193ممالک مدتوں پہلے اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ جمہوریت میں راہ نجات ہے اور ہم ابھی تک تک اس مسئلے پر تذبذب کا شکار ہیں۔ہم اس صدی میں رہ ہی نہیں رہے۔

غاروں کے زمانے کی باتیں ہم پر تھونپی جا رہی ہیں۔ اب نیا دور آچکا ہے ، یہ نیا زمانہ ہے اگر ہم نے آگے بڑھنا ہے تو ووٹ کی تقدیس ہی رستہ ہے۔ عوام کا حق حاکمیت ہی ارفع ہے۔ہمارے علاقے میں دہائیوں سے اس منزل کو پانے کے لیے جدوجہد ہو رہی ہے پہلی دفعہ ہے کہ پنجاب بھی اس جدوجہد میں ہم آواز ہوا ہے۔
ملاقات کا وقت کم تھا لہذا جلدی میں ایک آخری سوال کیا کہ جس ملک میں غیر جمہوری قوتیں اپنی جڑیں اس حد تک مضبوط کر چکی ہوں وہاں کیا ایک تقریر سے ، ایک جماعت سے ، ایک حکومت سے، ا ن غیر جمہوری قوتوں کو یکدم شکست دی جا سکتی ہے؟ میرے سوال پر سینیٹر صاحب خاموش ہو گئے۔

میں نے بھی سلام کیا اور اجازت چاہی۔
سینیٹر عثمان کاکڑ جیسے بااصول لوگ اس ملک میں جمہوریت کے علمبردار ہی نہیں ،اس ملک میں عوام کی جمہوری امنگوں کے آئینہ دار بھی ہیں۔ ان سے مل کر ، ملاقات کا تاثر بہت دیر تک قائم رہا۔اس ایک ملاقات میں کچھ تو گتھیاں سلجھ گئیں کچھ سوال ابھی باقی ہیں۔ خیر یار زندہ ، صحبت باقی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :