" آدمی کو صرف چاپلوس ہونا چاہئے‘‘

اتوار 28 جون 2020

Aneem Chaudhry

انعیم چوہدری

میرے دوست نے مجھے ایک ویڈیو بھیجی ویڈیو کا متن مذاق پر مبنی تھا لیکن اس کے اختتام نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کیوں کہ یہ ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت تھی ویڈیو میں دکھایا گیا کہ ایک ملازم اپنے افسر کے پاس جاتا ہے اور بولتا ہے سر اس دفعہ پھر میری تنخواہ باقی لوگوں سے کم بڑھی ہے حالانکہ میں وقت پر اتا ہوں اپنا کام پوری ایمانداری سے کرتا ہوں پھر ایسا کیوں.

افسر بولتا ہے اپ کے اندر ایک سکل کی کمی ہے جب تک اپ اپنی اس سکل کو بہتر نہیں کرتے اپ اگے ترقی نہیں کر سکتے ملازم بڑی حیرانگی کے ساتھ پوچھتا سر اپ بتائے میں وہ سکل بہتر بنتا ہوں تو افسر کہتا ہے اپ کو خوشامد کرنا نہیں اتی . بس ایک یہ ہی سکل اپ کی ترقی میں رکاوٹ ہے. باقی لوگ کام میں بھی نکمے ہیں وہ لوگ دفتر بھی دیر سے اتے ہیں لیکن وہ خوشامد والی سکل سے مالامال ہیں.


کیا واقعی ہی یہ سکل ہے؟ تو پھر اس کو جاب سی وی میں لکھا جانا چاہئے اور اگر یہ سکل نہیں تو ایماندار اور محنتی اور مخلص لوگوں کو اس کا تنا کیوں دیا جاتا ہے.
خوشامد کا دوسرا نام چاپلوسی ہے ہم ایک اسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں خوشامد ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے . اور اس کو سکل بولا جاتا ہے. خوشامد کرنے والے اس طرح خوشامد کرتے ہیں کے وہ دوسرے کو حقیقت لگتی ہے لیکن اصل میں اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.

جسے کے اپ اس شہر کے بہترین ڈاکٹر ہیں. اپ اس علاقے کے بہترین استاد ہیں اپ اس شہر کے بہترین کھلاڑی ہیں وغیرہ وغیرہ.
 اپ کسی بھی شعبے میں چلے جائیں یہ لوگ اپ کو ہر شعبے میں ملنے گئے یہ ایک اسی برائ اور بیماری ہے اس کا شکار ہر قسم کے لوگ ہیں. ہمارے ملک پاکستان کے موجودہ وزیراعظم بذات خود اچھے اور ایماندار آدمی ہیں لیکن وہ بھی اس ملک کو معاشی مسائل سے نہ نکال سکے کیونکہ ان کی موجودہ ٹیم میں زیادہ تر لوگ خوشامدی ہیں جو نہ تو خود کام کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو کرنے  دیتے ہیں.

خوشامد کرنے والوں میں ایک خامی یہ بھی ہے کہ وہ لوگ دوسروں کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں. یہ لوگ دوسروں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں ان کو تکلیف پہنچا کر آخر ان کو کیا ملاتا ہے اور رات کو ان کو پتہ نہیں نیند کسے ا جاتی ہے  کیا آن کا ضمیر مردہ ہو چکا ہے کیونکہ کہ زندہ ضمیر لوگ دوسروں کو تکلیف نہیں پہنچتے.ان جسے لوگوں کے لیے ہمارے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" تم میں سے کوئی شخص ایماندار نہ ہو گا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ نہ چاہے جو اپنے نفس کے لیے چاہتا ہے"۔

(جاری ہے)

(صحیح بخاری حدیث نمبر 13)
  میرا ان خوشامدی لوگوں سے سوال ہے کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے ؟جیسا یہ دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں.

اگر نہیں تو خدا کے لئے دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھے . مجھے خوف آتا ہے ان لوگوں کی حالت پہ کیوں کہ اگر یہ لوگ اپنی ان حرکتوں سے باز نہ آئے تو یہ بھی کسی دن خود اس کا شکار ہو جائیں گے کیونکہ کے یہ دنیا مکافات عمل ہے اپ جو دوسروں کے ساتھ کرنے گئے وہ ہی اپ کے ساتھ ہو گا . میں اپنی تحریر کو ان الفاظ سے ختم کرنا چاہوں گا خوشامد ایسا تیر ہے جو سیدھا کبھی نہیں جاتا ،ہمیشہ گھوم پھر کر ہدف پر پہنچتا ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :