خدا کی تلاش !!!

ہفتہ 6 مارچ 2021

Aneem Chaudhry

انعیم چوہدری

ماں نے بارہ سال کے بیٹے کو سکول کے لیے تیار کیا ناشتہ کرنے کے بعد اسکا لنچ اسکے بیگ میں ڈالا جو ایک جوس اور دو ڈبل روٹی پہ مشتمل تھا،، بچے نے بیگ اٹھایا اور ماں نے زمین پہ بیٹھ کر اسکو سینے سے لگا کر پیار کیا،،، اس نے ماں کے کان میں ہلکے سے کہا
 مما آج میں لیٹ آئونگا   وہ کیوں میرے چندا
ماں نے اسکے چہرے پہ بوسہ دیتے ہویے مسکرا کر پوچھا  مما میں نے آج خدا کو ڈھونڈنا ھے اسلیے میں دیر سے آونگا میرے جگر کے ٹوٹے خدا کو تم کیسے ڈھونڈوں گے وہ تو نظر نہیں آتا ماں نے شفقت سے اپنے معصوم بچے کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہویے کہا،، لیکن بچے نے کوئی جواب نہیں دیا اور دوڑ کر باہر گیٹ کی طرف چلا گیا،، سکول سے واپس کے بعد بچے نے ایک بینچ پہ ایک غریب بوڑھی اماں جی کو دیکھا جو پریشان بیٹھی ہوئی تھی،، بارہ سال کا بچہ اسکے پاس بینچ پہ بیٹھ گیا اور اپنا لنچ نکال لیا ،،اس بوڑھی مسکین اماں جی نے ترستی ہوئ نگاہوں سے  روٹی کی طرف دیکھا بھوک اپنی داستان اپنا درد اپنی تکلیف آنکھوں کے زریعے چیخ چیخ کر بیان کررہی تھی کہ وہ بوڑھی اماں جی بھوکی ہیں ،بارہ سال کے معصوم نونہال نے ڈبل روٹی کو ہاتھ میں پکڑا اور کچھ سوچا پھر اس نے ڈبل روٹی بڑھا کر بوڑھی مسکین لاچار اور غریب اماں جی کی طرف بڑھا دی،، ڈوبتے کو تنکے کا سہارہ ، بوڑھی اماں جی نے مسکرا کر وہ قبول کرلی،، ڈبل روٹی کے بعد بارہ سال کے معصوم فرشتہ نما بچے نے بیگ میں ہاتھ ڈالا اور ہنستے مسکراتے ہویے جوس کی بوتل بیگ سے برآمد کرلی جیسے آلہ دین کے چراغ سے جن برآمد ہوتا تھا ،، اس نے ننھے ہاتھوں سے پورا زور لگا کر جوس کا ڈھکن کھولا اور بڑھا کر اس مسکین عورت کو مسکراتے ہویے دیکھا، بوڑھی عورت بھوکی بھی تھی اور پیاس کی ستائی ہوئی بھی اس نے ایک ہی سانس میں سارا جوس پی لیا،، دونوں ڈبل روٹی کھاتے جاتے اور ہنستے مسکراتے جاتے،کھانا ختم کرنے کے بعد بچے نے اپنا بیگ اٹھایا اور گھر کی طرف چلتا بنا،دروازے پہ گھنٹی بجایی تو ماں نے مسکرا کر اسکو بانہوں میں بھر لیا ماں نے اسکے گال پہ پیار کیا اور پوچھا " میرے لال کو اج خدا ملا کہ نہیں ،، تو معصوم سے بچے نے اپنی بڑی ہی معصومیت سے جواب دیا جی مما خدا ایک عورت ہے وہ بہت اچھی ہے اور جب وہ مسکراتی ہے تو اپ کی طرح لگتی ہے بلکہ اپ سے بھی پیاری, اس واقعہ کے دو پہلو ہیں ایک ہمارے معاشرے کی بہ حسی اور دوسرا مدد کرنے والے لوگ, اگر ہم اپنے معاشرے کا بہ غور جائزہ لیں تو میں بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہوں ہم جس معاشرے میں زندہ ہیں اور سانس لے رہے ہیں یہاں پر اپ کو ہر طرف بہ حسی اور خود غرضی کا مظاہرہ نظر آئے گا ,,, کیا ایسا نہیں ہے ؟ امیر اپنی دولت غریبوں پر خرچ کرنے کو تیار نہیں کیا یہ بہ حسی نہیں ؟ غریب کا بچہ سکول جانے کی بجائے کم اجرت میں کسی کے ہاں کام کرنے پر مجبور ہے اور اس کے ہمسائے کے بچے اعلیٰ سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو پھر میں اس کو بہ حسی نہ کہوں تو کیا کہوں؟ غریب کا بچہ محنت اور مشقت سے تعلیم حاصل کرے کے  نوکری کی تلاش میں جب کمپنیوں کے مالکان  کے ہاتھوں ذلت کا شکار ہوتا ہے کبھی سوچا ہم نے کے اس پر کیا گزرے گی  تو پھر میں اس کو کیا کہوں ؟ اپ کو اگر دنیا کا خوف نہیں کم سے کم اس دنیا بنانے والے خالق سے ہی ڈر جائیں .

..  قربان جاؤں اپنے پیارے نبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپ نے فرمایا قیامت کے روز اللہ پاک ایک انسان کو بلایے گا اور اللہ پاک اس سے شکوہ کرے گا " میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا میں بیمار تھا تم نے میری عیادت نہیں کی میں حاجت مند تھا تم نےمیری حاجت پوری نہیں کی " تو انسان جواب دے گا "یا اللہ آپ کی عیادت یا بھوک یا حاجت میں کیسے پوری کرسکتا تھا آپ کو کہاں ڈھونڈتا آپ تو خود حاجت پوری کرنے والی ذات ہیں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ۔

(جاری ہے)

۔۔۔ میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو اسکی عیادت کرتا تو مجھے وہاں پاتا میرا فلاں بندہ بھوکا تھا تو اسکو کھانا کھلاتا تو مجھے وہاں پاتا میرا فلاں بندہ حاجت مند تھا تم نے اسکی حاجت پوری کی ہوتی تو تم مجھے اسکے پاس پاتے تم مجھے کھبی ڈھونڈنے کی کوشیش ہی نہیں کی میں تم سے بڑا ناراض ہوں .

.. اج بھی موقعہ ہے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا بس اج ہی اپنے اردگرد ضرورت مندوں کا خیال رکھیں کسی بھوکے کے ساتھ کھانا کھا کر تو دیکھیں,  کسی مصیبت زدہ کی مدد کر کے تو دیکھیں,  ہمسایوں سے اچھے تعلقات اور ان کا خیال رکھ کر تو دیکھیں,  کسی بچے کی سکول فیس ادا کر کے تو دیکھیں , اپ کو واقعی ہی ایسا لگے گا بلکہ اپ کا دل خود گواہی دے گا کہ اللہ ہم سے راضی ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ راضی ہوں اس کو کسی چیز کی کمی نہیں ہو سکتی ... اور کامیاب لوگوں کو پھر خدا کو ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیوں کہ پھر ان کو ہر جگہ صرف وہی نظر اتا ہے اور بس وہی نظر آتا ہے ...

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :