
نظریہ پاکستان ہے کیا
جمعہ 14 اگست 2015

عارف محمود کسانہ
(جاری ہے)
چنانچہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد کلمہ طیبہ ٹھہری یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان کے دنوں ہر طرف ایک ہی آواز گونجتی تھی کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ ۔ یہ کوئی بچوں کا نعرہ نہیں تھا بلکہ بانی پاکستان نے خود اس کی وضاحت کی تھی۔
پنجاب اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے پھر کہا۔میں نہیں سمجھتا کہ کوئی دیانتدار آدمی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ مسلمان بجائے خود ہندوؤں سے ایک الگ قوم ہیں۔ہم دونوں میں صرف مذہب کا فرق نہیں بلکہ ہماری تاریخ اوثقافت بھی ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ایک قوم کے ہیرو دوسری قوم کے ولن ہیں۔مسلمان دیگر مذہب کے ماننے والوں سے الگ قوم ہیں۔اس کا عملی اعلان رسول پاک نے اعلان نبوت کے بعد کر دیا تھا۔کہ ابو جہل اور ابو لہب زبان و نسل ،وطن ثقافت اور کئی ایک جیسی چیزوں کے اعتبار رسول پاک سے الگ قوم کے افراد تھے۔جبکہ سلمان فارسی صہیب رومی اور بلال حبشی مختلف زبان و نسل اور کلچر رکھنے کے باوجود اسی قوم کے فرد تھے۔جس کے ابو بکر اور حضرت علی تھے۔اسی دو قومی نظریہ کا اظہار جنگ بدر کے موقع پہ ہوا۔اور یوم فرقان نے واضع کر دیا کہ دنیا میں قوم کی بنیاد رنگ نسل اور کلچر پہ نہیں بلکہ مشترکہ نظریات تصور حیات اور دین پر ہے۔ اسی تصور کو سر سید احمد خان نے بر صغیر میں واضع کیااور قیام پاکستان کی پہلی اینٹ انہوں نے 24 مئی 1875 میں رکھی ۔ پھرسرسید نے یہ شمع سیالکوٹ کے فرزند اقبال کے ہاتھوں میں دی۔یہ وہی اقبال تھا جو پہلے خاک وطن ہر ذرے کو آفتاب کہتا تھا۔اور اپنے نیشنلسٹ ہونے پر نازاں تھا پھر اسی اقبال نے اس نظریے کو رد کردیا اور کہا کہجو پیرہن اسکا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
غارت گر کا نشانہ دین نبوی ہے
بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑکٹتی ہے اس سے
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
زدیوبند حسین احمدایں چہ بوالعجبی است
سرود برسرملت کہ منبراز وطن است
چہ بے خبر از مقام محمد عربی است
مصطفی برساں خویش راہ کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است
11 اگست 1947 میں انہوں نے اقلیتوں کے حقوق کا کرتے ہو ئے انکے تحفظ کایقین دلایا تھا مگر اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ وہ اپنے اس نظریہ سے رو گردانی کر چکے تھے جس کے تحت انہوں نے جدو جہد کی۔بعض ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے حصول پاکستان کی خاطر اس نظریے کو اپنایا اور بعد میں اسے ترک کر دیا۔یہ بھی حقائق کے منافی ہے۔ چودہ اگست انیس سو اڑتالیس کو پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر اپنے پیغام میں انہوں نے پاکستان کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کہا۔پھر اس سے پہلے جو لائی انیس سو اڑتالیس میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں قرآن سے رہنمائی لے کر مملکت کا نظام چلانے کی پالیسی بیان کی اور یہ تقریر آج بھی اپنے الفاظ کے ساتھ محفوظ ہے۔سیکولر ازم کے پیامبروں سے میری یہ درخواست ہے کہ کیا وہ کوئی ایسی تحریر یا اسٹیٹ منٹ پیش کر سکتے ہیں جس میں جناح نے یہ کہا ہو کہ وہ ایک سیکولر اسٹیٹ کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں یا یہ کہ پاکستان ایک سیکولر اسٹیٹ ہے۔ دراصل ان لوگوں کو سیکولرازم کے معنی ہی معلوم نہیں۔انہیں چاہیے کہ پہلے لغت میں سیکولرازم کے معنی پڑھیں۔ سیکولرازم میں وحی ، رسالت اور حدود اللہ نہ کوئی تصور ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی اہمیت تو پھر ایک مسلمان کیسے سیکولر ہوسکتا ہے۔ مشہور مسیحی رہنماء مسٹر جوشو افضل دین نے اپنے پمفلٹ Rational of pakistan constitution میں قائد اعظم کی گیارہ اگست انیس سو اڑتالیس کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کہہ دینا کہ تخلیق پاکستان کے بعد قائد اعظم نے کوئی ایسی بات کہہ د ی ہے کہ جس سے اس بات کا مکان ہے کہ پاکستان کی بنیاد مہندم ہو جائے گی بالکل پاگل پن ہے قائد اعظم نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ پاکستان میں بلا لحاظ مذہب و ملت ہر ایک کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔مختصر الفاظ میں نظریہء پاکستان اور قائد کے اقوال کے مطابق ایسی مملکت تھی جس میں آزادی اور پابندی کی حدود قرآن کی رو سے معین ہوں گی۔جس میں کوئی قانون قرآن کے منافی نہ ہو اور نہ ہی مذہبی پیشواؤں کی اجارہ داری ہوگی اور نہ ہی تھیا کریسی۔مملکت کا جمہوری اور معاشی نظام سچے اسلامی اصولوں اور اسوہء حسنہ کے مطابق ہوگا۔ قوم کے جس تصور کی تشریح سر سید ، اقبال، چوہدری رحمت علی اور جناح نے کی اس کے مطابق قوم کی بنیاد خطہ زمین کی نسبت سے نہیں بلکہ مشترکہ نظریہ ء حیات کی بنیاد پر بنتی ہے۔ لہٰذا پاکستانی قوم کی اصطلاح بھی دو قومی نظریہ اور نظریہء پاکستان کے منافی ہے۔ پاکستان میں رہنے والے اس کے شہری ہونے والے اس کے حقوق اور مراعات تو لے سکتے ہیں۔وہ پاکستان کے شہری تو ہیں لیکن تمام پاکستانی ایک قوم کے فرد نہیں۔اگر ہم آج تمام پاکستانیوں کو ایک قوم مان لیں تو نظریہء پاکستان خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ نوجوان نسل کو قومیت کی بنیاد اور مملکت خداد کے نظریہ سے آگاہ کیا جائے تاکہ ان عناصر کا سد باب کیا جاسکے جو حقائق اور تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.