
گلگت بلتستان کس کے شمالی علاقے
ہفتہ 20 فروری 2016

عارف محمود کسانہ
(جاری ہے)
پاکستان کے 1956، 1962اور 1973کے آئین میں کہیں بھی گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ نہیں تسلیم کیا گیا۔ موجود 1973کے آئین کی دفعہ ایک کی ذیلی شق دو میں پاکستان کن علاقوں پرمشتمل ہے اس کی تفصیل دی گئی ہے اور اُن میں گلگت بلتستان شامل نہیں ہے اور پاکستان کی سپریم کورٹ کے فیصلوں میں بھی یہی تسلیم گیا ہے۔ چونکہ گلگت بلتستان ، ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے اور یہ بھی پوری ریاست کی طرح ابھی تک متنازعہ ہے جس کا ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے اس لیے اس کا حتمی فیصلہ بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت ہی ہوگا اور کسی ایک جماعت، فرد یا کچھ لوگوں کے جانب سے از خود کئے گئے کسی بھی فیصلہ کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی کسی کو اس کا اختیار حاصل ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی نے بخشی غلام محمد کے دور میں جب 15 فروری 1954 ء کو بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا اور پھر 26جنوری 1957ء کو مقبوضہ کشمیر کے آئین میں کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا جس پر پنڈت نہرو نے 29مارچ 1956ء میں لوک سبھا میں کہا کہ کشمیر اب آئینی طور پر بھارت سے الحاق کر کے اس کا حصہ بن گیا ہے اور اب رائے شماری کی باتیں فضول ہیں۔جو لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ گلگت بلتستان کا 16 نومبر 1947ء کو پاکستان کے ساتھ الحاق ہوگیا تھا انہیں مقبوضہ کشمیر کا بھارت سے الحاق بھی تسلیم کرلینا چاہیے ۔ گلگت بلتستان کے الحاق کہ نہ کوئی دستاویز ہے اور ہی یہ کوئی قانونی طور پر کسی اسمبلی نے کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے بھارت کے الحاق کو مسترد کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ نے 24جنوری 1957کو قرارداد نمبر 122منظو ر کی جس میں اپنی سابقہ قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوے واضع کیا کہ ریاست کے کسی بھی حصہ کو اپنے طور پر مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی حیثیت ہے۔ اس قرارداد کا اطلاق ریاست جموں کشمیر کے تمام علاقوں بشمول گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر بھی ہوتا ہے۔ پاکستان کا موقف ہی اقوام متحدہ کی قرارد اد یں ہیں جن کی بنیاد پروہ پوری دنیا میں کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کو چیلینج کرتا ہے۔ ریاست جموں کشمیر میں تعینات اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین جو حد متاکہ یا کنٹرول لائن پر موجود ہیں ان کے گلگت اور سکردو میں موجود دفاتر بھی اسی حقیقت کا نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ علاقے ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہیں۔ 1954ء تک گلگت بلتستان کے لوگ اپنا ڈومیسائل مظفر آباد آزادکشمیر سے حاصل کرتے تھے ۔ آزاد کشمیر کی ہائی کورٹ نے 1992میں اپنے ایک فیصلہ میں گلگت بلتستان کو ریاست جموں کشمیر کا حصہ قرار دیا تھا جس کی بعد میں آزاد کشمیر کی سپریم کورٹ نے توثیق کی تھی۔ آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں خود عملی طور پر گلگت بلتستان کے خطہ سے عرصہ دراز سے لا تعلق ہو چکی ہیں۔ اِن جماعتوں نے وہاں اپنی نہ تو تنظیم سازی کی ہے اور نہ آزاد کشمیر کے کسی سیاسی رہنما نے وہاں کا دورہ کیا ہے۔ یہ سیاسی جماعتیں منافقت کا شکار ہیں، ان کی آزادکشمیر کی شاخوں کا موقف اور ہے اور گلگت بلتستان کی شاخوں کا کچھ اور جبکہ جن کی یہ شاخیں ہیں انہوں نے چپ سادھ رکھی ہے۔ آزاد کشمیر کے اکثر سیاسی رہنما یورپ اوبرطانیہ کا دورہ کرتے رہتے ہیں مگرریاست جموں کشمیر کے شمالی علاقوں کی طرف رخ نہیں کرتے۔ آج اگر وہاں کے باشندے الگ تھلگ ہیں تو اس کے ذمہ دار بھی آزاد کشمیر کے سیاستدان ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام کو جمہوری حقوق اور اختیار ضرور ملنا چاہیے ۔ اِن علاقوں کو آزادکشمیر کے ساتھ ملا کرایک بڑا انتظامی یونٹ بنانا چاہیے۔ اس طرح کے معاملات میں احتیاطبہت ضروری ہے تاکہ کشمیر پر اصولی موقف متاثر نہ ہو اور تقسیم کشمیر کی افواہیں جنم نہ لیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.