
یہ محض ایک کتاب نہیں!
ہفتہ 18 جون 2016

عارف محمود کسانہ
(جاری ہے)
صرف قرآن حکیم واحد مثال ہے جو اس سے مبرا ہے اور منجانب خدا ہونے کے لیے صرف یہی دلیل کافی ہے۔
قلب نبوی پر جو قرآن اترتا تھا وہ محفوظ ہوتا جاتا تھا اور کاتبین وحی لکھتے جاتے تھے۔ وہی حتمی اور آخری ورژن تھا اور کسی کانٹ چھانٹ کا سوال ہی نہیں تھا۔ اس کتاب کاا دبی حسن بھی اپنی مثال آپ ہے اور اس میں بیان کیے گئے حقائق کے سامنے دور جدید کی سائنسی تحقیق سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہے۔ نہ اس میں بیان کی گئی پیشین گوئی میں سے کوئی غلط ثابت ہوئی ہے اور نہ اس میں بیان ہوئے حقائق کو جھٹلا سکا ہے۔ یہ عظیم کتاب قرآن حکیم ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود خالق کائنات نے لی ہے۔ اس کا ہر حکم ہر دور کے لئے ہے اور اس کا کوئی حکم معطل یا منسوخ نہیں ہے ۔ خدا نے جو کہنا تھا اس کتاب عظیم میں کہہ دیا اور وحی صرف قرآن حکیم میں ہے۔ یہ بندے اور رب کے درمیان تعلق پیدا کرتی ہے اور انسان کو اس کے مقام سے آگاہ کرتی ہے۔ مختلف موضوعات اور مضامین بیان کرنے کے باوجود اس میں ربط بھی ہے انداز بیان بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہی وہ معجزہ ہے کہ عرب کے اُس دور کے عظیم شاعر لبید کو بھی کہنا پڑا کہ یہ کسی بشر کا کلام نہیں۔یہ خود نور ہے اس لیے اسے کسی اور روشنی کی ضرورت نہیں۔یہ اپنی تفسیر خود کرتی ہے ۔ اس کی سورتیں اور آیات ایک مربوط حسابی نظام کے تحت ہیں۔اس میں دئیے احکامات بہت واضح اور سمجھنے میں آسان ہیں۔ صاحب قرآن کی پوری زندگی اس کی عملی تفسیر تھے۔ ارشاد ربانی ہے کہ اسوہ حسنہ تمھارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ قلب جتنا عشق مصطفےٰ ﷺ کی شمع سے فروزاں ہوگا اسی قدر قرآن سے گہرا تعلق ہوگا اور زندگی اس کی پیروی میں ہوگی۔سورہ حم سجدہ کی آخری دو آیات میں کیا زبردست دعویٰ کیا اور وہ بھی اُس وقت جب مکہ میں مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہ تھی۔اس وقت کے مخاطبین نے اسے اہمیت نہ دی لیکن تاریخ نے ثابت کیا ور دور حاضر بھی اس کی سچائی پر گواہ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ہم عنقریب اُن کو نفس انسانی کے اندر اور خارج کی دنیا میں اپنی نشانیاں دیکھائیں گے کہ اُن پر ثابت ہوجائے کہ قرآن ایک سچی کتاب ہے۔ یہ لوگ قرآن کی صداقت سے اِس وقت انکار کرتے ہیں لیکن ہم ایسے حالات پیدا کرتے جائیں گے کہ جب یہ نظامِ عرب سے آگے بڑھ کر اور علاقوں میں پھیل جائے گا اور ہمارے قانون کی صداقت کی محسوس نشانیاں نظر آجائیں گی۔ حتیٰ کہ یہ حقیقت ان کے سامنے نکھر کر آجائے گی کہ قرآن نے جو کچھ ان سے کہا تھا وہ حق پر مبنی تھا۔ جوں جوں علم انسانی بڑھتا جائے گا اور دنیا پر نئے نئے حقائق منکشف ہوتے جائیں گے، حیاتایات، طبعیات،علم طبقات الارض، نفسیات اور دوسرے علوم سے حقائق واضح ہوتے جائیں گے اور یوں دنیا رفتہ رفتہ دیکھ لے گی کہ قرآن کی ہر بات حقیقت پر مبنی ہے۔ یہ اس لئے کہ یہ کتاب اْس خدا کی طرف ہے جو کائنات کی ہر شے پر نگران ہے۔ لیکن اس کے باوجودکچھ لوگ خدا کے قانونِ مکافات کا سامنا کرنے کے متعلق شک کرتے ہیں اور اُس کے حضور پیش ہونے پر یقین نہیں رکھتے ۔ اْس خدا کا علم اور قانون کائنات کی ہر شے کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ان واضح حقائق کے باوجود جو اس کا انکار کرتے ہیں ان کے بارے میں اسی سورہ کی آیات ۴۱ اور ۴۲ میں ہے کہ و لوگ اس قرآن سے انکار کریں ،جب وہ ان کے سامنے پیش کیا جائے تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے اس انکار سے قرآن کے قوانین پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ ایک ایسا ضابطہ حیات ہے کہ آخرالامر اسی کو غالب آنا۔ باطل کی تخریبی قوتیں اس سے براہ راست ٹکراؤ پیدا کریں یا دَر پر دہ سازشیں کریں اِس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں کیونکہ یہ اْس خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے جو بہترین تدابیر کا مالک ہے ۔
قرآن کا رمضان کے ساتھ خصوصی تعلق ہے کیونکہ یہ اس کے نزول کا مہینہ ہے۔ روزہ کے لئے عربی میں صوم کا لفظ آیا ہے جس کا معنی رک جانا ، ضبط کرنا اور غلط رستوں پر نہ چلنا ہے۔ روزے کے بہت سے طبی اور دوسرے فائدے ہوسکتے ہیں لیکن قرآن حکیم نے سورہ بقرہ میں تین مقاصد بیان کیے ہیں۔اوّل تقویٰ کا حصول یعنی اللہ کے احکامات کی پیروی کے قابل ہوجاؤ، اس کے لئے پختہ عزم پیدا ہو اور غلط راستوں سے بچنے کی جدوجہد کرو۔ دوم ولتکبروا اللہ علی ماھدایکم یعنی ہدایت اور قوانین خداوندی کو سب پر غالب کرسکو اور سوم تشکرون یعنی اس سے حاصل ہونے والی جدوجہد بھر پور نتائج کی حامل ہو اوراس پر بارگاہ ایزدی میں شکر ادا کرو۔ اپنے عظیم مقاصد کے لیے یہ روزے فرض کئے گئے ہیں اور جو قوم سخت گرمی میں بیس گھنٹے سے زائد بھوک اور پیاس کا سامنا کرسکتی ہے وہ دنیا کا ہر کام کرسکتی شرط یہ ہے کہ وہ اس کی روح سے آگاہ ہو لیکن ہمارا حال یہ ہے روزے رکھنے کے باوجود اس کے مقصد اور روح سے دور ہیں جیسا کہ حکیم الامت نے فرمایا تھا کہ
یہ سب باقی ہیں ، تْو باقی نہیں ہے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.