اخوت کا بیاں ہو جا

ہفتہ 23 فروری 2019

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

اپنا نام ہمیشہ زندہ رکھنے کی آرزو ہر انسان میں ہوتی ہے اور اس کے لیے وہ ہر طرح کے جتن کرتا ہے اور وہ بڑی بڑی یادگاریں بناتا ہے تاکہ رہتی دنیا تک اس کا نام رہے۔ ممکن ہے کچھ عرصہ کہ ایسی نشانیاں قائم رہیں لیکن ان کا ہمیشہ کے لیے قائم رہنا ممکن نہیں ہوتا۔خالق کائنات نے انسانیت کے نام اپنی آخری کتاب میں واضح طور بتا دیا کہ بقا محض یادگاریں قائم کرنے سے حاصل نہیں ہوگی بلکہ یہ انسانی فلاح و بہبود کے کام کرنے سے ملتی ہے۔

یہ بہت عظیم اور سنہرا اصول ہے اور جن لوگوں نے انسانیت کی خدمت کے لئے کام کئے ہیں ان کے نام آج بھی زندہ ہیں جبکہ بڑی بڑی یادگاریں زمانے کی دھول میں گم ہوجاتی ہیں یا پھر کھنڈروں کی صورت میں بے بسی کی تصویر بن جاتی ہیں۔ کتاب ہدا کے آغاز میں ہی اہل ایمان کی نشانی کی بتاتے ہوئے کہا کہ وہ خدا کے دئیے ہوئے رزق سے خرچ کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

سورہ بقرہ میں فرمایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اسی سورہ میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی مثال کو یوں سمجھایا کہ جو اپنے مال کو خرچ کرتے ہیں یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے ایک دانہ اس سے سات بالیں اگیں اور ہر بال میں سو سو دانے ہوں بلکہ خداللہ اس سے بھی زیادہ اجردے سکتا ہے ۔

جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان رکھتے ہیں اور نہ ستاتے ہیں ان ا کے لئے اپنے رب کے یہاں بہت اجر ہے اور انہیں کوئی خوف اور ڈر نہیں ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ سورہ الانفال میں یہ بھی فرمایا دیا کہ جو بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا، اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا اور کوئی ناانصافی نہیں ہوگی ۔ جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں سخت تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے عذاب الیم ہے ۔

قرآن حکیم میں کم از کم نو بارمومن کی یہ خوبی بیان کی ہے کہ جو کچھ بھی اللہ نے رزق دیا ہوتا ہے وہ اسے دوسروں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کھلا رکھتے ہیں۔قرآن حکیم نے تین مقامات پر ان لوگوں کو جہنمی قرار دیا ہے جو مال کو جمع کرکے رکھتے ہیں اور دوسروں کو ضرورت ہونے پر بھی اپنا مال انہیں دیتے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے شہریوں کو ضروریات زندگی کی فراہمی ایک ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

خوشحال اور فلاحی معاشرہ ریاست کی سطح پر ہی تشکیل پاتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ خیراتی ادارے کوئی مستقل حل نہیں لیکن تصویر دوسرا رخ یہ بھی ہے کیا ہمارا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ ہر وقت حکومتوں کا رونا رویا جائے اور خود کچھ نہ کیا جائے۔ مانا کہ یہ حکومت کی ہی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن اگر حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہی تو ہر وقت اسے کوسنے سے کیا حاصل ہوجائیگا۔

شکوہ ظلمت شب سے کہیں بہتر ہے کہ ہر کوئی اپنے حصہ کی شمع جلاتا جائے۔ دنیا کے کئی اور ممالک کو پاکستان جیسی صورت حال کا سامنا تھا لیکن وہاں کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کوشش کا آغاز کیا اور آج بہت بہتر حالات میں رہ رہے ہیں۔ پاکستان میں اخوت فاؤنڈیشن کا ویام آمد بہار ہے کیونکہ اس کی بنیاد مواخات مدینہ کی تعلیمات کی بنیاد پر ہے۔ اخوت کی کوشش نے واقعی تبدیلی لا کر دکھائی ہے۔

رنگ ونسل، مذہب و ملت، زبان و علاقہ غرض ہر قسم کی تفریقات اور تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف انسانیت کی بنیاد پر خدمت کرنے والی یہ تنظیم دنیا کی سب سے بڑی فلاحی تحریک ہے۔ اخوت غربت اور جہالت کے اندھیرے دور کرنے کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ اب تک ایک کروڑ سے زائد لوگوں میں ستر ارب روپے کے بلاسود قرضے دئیے جاچکے ہیں۔ خواجہ سراؤں کو باعزت کام دے کر انہیں معاشرے میں مقام دلایا ہے۔

مستحق لوگوں کو پہننے کے لئے مفت کپڑے ان کی دہلیز پر دیئے جاتے ہیں۔ بے گھر لوگوں کو چھوٹے گھر بنا کر دیئے ہیں تاکہ انہیں سر چھپانے کی جگہ مل سکے۔ کم آمدنی والے لوگوں کو ٹورسٹ ہٹس بنانے کے لئے بلا سودی قرضے دیئے ہیں تاکہ ان کی آمدنی کا ایک معقول ذریعہ پیدا ہو۔ ملک کو سرسبز بنانے لئے اب جسے بھی قرض دیتے ہیں ساتھ تاکید کرتے ہیں وہ کم از ایک پودہ لگائے۔

شجر کاری مہم ے تحت لاکھوں پودے لگائے جارہے ہیں۔ ذہنی مریضوں کو در بدر کی ٹھوکروں سے بچانے اور ان کی بحالی کے لئے فاوٴنٹین ہاوس لاہو ر کی خدمات سے سب آگاہ ہیں اور ایسے ہی اور کئی کام ہیں جن کی تفصیل اس کالم میں دینا ممکن نہیں لیکن قارئین ان کی کتاب اخوت کا سفر پڑھ کر ضرور حاصل کرسکتے ہیں۔
ان سب کارناموں کے ساتھ ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ اخوت یونیوسٹی کا قیام ہے۔

ڈاکٹر امجد ثاقب کا کہنا ہے کہ تعلیم حاصل سب کا حق ہے اور کوئی مالی دشواریوں کی وجہ سے کیوں اعلیٰ تعلیم سے محروم رہے۔ بین الاقوامی معیا ر کی اخوت یونیورسٹی نے لاہور میں کام شروع کردیا ہے۔ اس یونیوسٹی کے اساتذہ دنیاکی بہترین جامعات سے تعلیم یافتہ ہیں۔ پاکستان بھر اور آزادکشمیر سے ذہین بچے اس درسگاہ میں زیور تعلیم سے آراستہ ہورہے ہیں۔

یہاں ہر علاقہ، زبان، مذہب اور رنگ و نسل کے طلبہ موجودہیں۔ میرے نزدیک اس یونیوسٹی کا سب سے بڑا وصف تعلیم کے ساتھ تربیت دینا ہے جو ہمارے تعلیم اداروں میں مفقود ہے۔ اخوت یونیورسٹی کے قیام سے مستحق طلبہ پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھل گئے ہیں اور وقت دور نہیں جب اخوت یونیوسٹی کا دنیاکی عظیم جامعات کے ساتھ طلبہ کے تبادلے کا پروگرام ہوگا اور اخوت یونیوسٹی کا شمار دنیا کی بہترین جامعات میں ہوگا۔

ہر درد مند پاکستانی کو اس جامعہ کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینا چاہیے اور کم از کم ایک ہزار روپیہ ایک اینٹ اس یونیورسٹی میں ضرور لگانی چاہیے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب 8مارچ کو اوسلو، 9کو اسٹاک ہوم اور 10کو کوپن ہیگن تشریف لارہے ہیں تا کہ اسکینڈے نیویا کے لوگوں کو اخوت یونیورسٹی کی تعمیر اور دوسرے فلاحی منصوبوں کی تفصیلات بتا سکیں اور ان سے اپیل کریسیں وہ بھی ان میں عملی طور پرحصہ لیں۔

پاکستان کے مایہ ناز اینکر، اداکار اور ڈائریکٹر جناب حمزہ علی عباسی بھی ان کے ساتھ ہوں گے۔ ناروے، سویڈن اور ڈنمارک کے لوگ ان کی آمد کا بے تابی سے انتظار کررہے ہیں۔ اللہ کے پیارے بندے وہ ہوتے ہیں جو خدا کی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں۔ ہم اللہ کے محبوب لوگوں کو نجانے کہاں تلاش کرتے پھرتے ہیں حالانکہ وہ ہمارے درمیان ڈاکٹر امجد ثاقب کی صورت میں موجود ہیں۔وہ نہ صرف خود انسانی فلاح و بہبود کے لئے دن رات کوشاں ہیں بلکہ ہماری توجہ علامہ کے اس پیغام کی طر ف بھی مبذول کروا رہے ہیں کہ
 ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو
 اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :