قرآن حکیم کو سمجھنے کے بنیادی اصول

اتوار 10 مئی 2020

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

اس حقیقت سے ہر ذی شعور اتفاق کرے گا کہ جب تک قرآن حکیم کو سمجھ کر نہ پڑھا جائے اس کتاب عظیم سے راہنمائی حاصل نہیں جاسکتی اور نہ ہی نزول کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ قرآن مجید خود حکم دیتا ہے کہ حتی تعلموا ما تقولون کہ جو تم پڑھ رہے ہو وہ تمہیں سمجھ بھی آنا چاہیے۔قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے نیت کی پاکیزگی، تدبر، غوروفکر اور اسے برتر کلام سمجھتے ہوئے اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کا عزم مصمم ضروری ہے۔

قرآن حکیم نے اپنی آیات کی دو اقسام بتائی ہیں ایک آیات محکمات اور دوسری آیات متشابہات۔ قرآن فہمی کے لئے ان دونوں قسم کی آیات کی تقسیم کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اس وضاحت سورہ آل عمران آیت 7 میں ہے کہ وہی خدا ہے، جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے اِس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں; ایک محکمات، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات۔

(جاری ہے)

جن لوگوں کے دلو ں میں کجی اور ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اْن کو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں، تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان کی تاویل نکالیں، حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ ہم ان سب پر ایمان رکھتے ہیں۔

یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حقائق کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو عقل و بصیرت والے ہیں۔
اس آیت کریمہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جن آیات میں واضح طور پر احکامات اور اصول و ضوابط دئیے گئے ہیں انہیں آیات محکمات کہتے ہیں۔ ان آیات میں لفظوں کے حقیقی معانی ہی لیے جاتے ہیں اور ان کا کوئی اور مطلب نہیں ہوتا مثلا سورہ نسا کی آیت 23 میں نکاح کے ضمن میں کہا ہے کہ تم پر تمہاری مائیں حرام ہیں۔

اس آیت جو لفظ ام یعنی ماں ہے تو یہاں جنم دینے والی ماں ہی مراد ہے لیکن سورہ آل عمران کی آیت 6 میں جہاں ام الکتاب آیا ہے وہاں ام کے معنی جنم دینے والی ماں کے نہیں بلکہ اس کے مجازی معنی لئے جائیں گے۔ یہاں قرآن نے تشبیہ کے ذریعہ سمجھایا ہے اس لئے ایسی آیات کو متشابہات کیا گیا ہے۔ ایسی آیات کا انداز تشبیہی ہے جیسے سورہ عراف کی آیت 54 میں ہے کہ خدا عرش پر متمکن ہے۔

یہاں عرش سے مراد سچ مچ تخت نہیں بلکہ خدا کا اقتدار ہے۔ یہ حقیقت پپیش نظر رہے کہ اگر آیات متشابہات میں تشبیہ کے لئے آنے والے الفاظ کے اگر حقیقی معنی لئے جائیں تو مفہوم بالکل بدل جاتا ہے۔ قرآن میں انسانی راہنمائی کے لیے قوانین و ضوابط دئے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان احکام و قوانین کے الفاظ ایسے ہونے چاہئیں جن کا مطلب ان الفاظ سے محکم طور پر متعین ہو جاتا ہولیکن اس کے ساتھ ہی قرآن میں ایسے حقائق کا بھی ذکر ہے جن کا تعلق ا ُ س عالم سے ہے جو ہمارے فہم وِ ادراک سے باہر ہے۔

مثلاً اللہ کی ذات اور اس کی صفات، مرنے کے بعد کی زندگی اور اْس میں اعمال کے نتائج، آخرت اور وہاں کی جنت اور جہنم وغیرہ۔ صاف ظاہر ہے کہ اس قسم کے مجرد حقائق کو جب بھی بیان کیا جائے گا تو تشبیہ و استعارہ اور تمثیلات کے انداز میں ہی کیا جائے گا۔جو حقائق ہمارے عالمِ محسوسات سے باہر ہیں، اْن کی حقیقت، ماہیت، یعنی ان کی تَاوِیل کا سمجھنا ہمارے بس کی بات نہیں۔

البتہ جس قسم کی مثالوں سے انہیں سمجھایا گیا ہے ان پر غور و فکر کرنے سے ہم ان کے متعلق کچھ ایسا اندازہ اپنے ذہن میں لگا سکتے ہیں جو اس حقیقت کا مفہوم سمجھادے۔مثلاً لفظ عَرش سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اس کا مفہوم قوت و اقتدار ہے۔
 اس قسم کی آیات کے متعلق دو قسم کی ذہنیتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جن کے پیش نظر فتنہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔

یعنی لوگوں کو زندگی کے بنیادی حقائق اور عملی نتائج سے دور ہٹا کر محض نظری تصورات میں الجھا کر ان کی قوتوں کو تخریبی راستوں میں ضائع کرتے چلے جانا۔ قرن کریم اسے فتنہ قرار دیتا ہے جو انسان کو عملی زندگی سے بیگانہ بنا دیتا ہے۔ اس کے برعکس، دوسری ذہنیت کے لوگ وہ ہیں جنہیں قرآن کریم رَاسِخْونَ فِی العِلمِ اوراْولِی الاَلبَابِ کہہ کر پکارتا ہے یعنی وہ جو عقل و فکر سے کام لے کر علم میں پختہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔

ان کے متعلق کہا ہے کہ وہ اپنی فکر کی عمارت کو ایمان کی بنیاد پر استوار کرتے ہیں۔ یعنی وہ کہتے ہیں کہ یہ تمام حقائق اس خدا کی طرف سے بیان ہوئے ہیں جو ہر شے کا علم رکھتا ہے اس لیے ان کے حقائق ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں لیکن ہم ان کی کنہ و حقیقت کو پا نہیں سکتے البتہ ان سے جو انسانی راہنمائی مقصود ہے اس تک ہم عقل و فکر سے اس تک ضرور پہنچ سکتے ہیں۔

چونکہ قرآن کریم ہر سطح کے انسانوں کے لیے راہنمائی کا ضابطہ ہے اور ہر زمانہ کے انسانوں کے لیے ہے اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی زمانہ میں مختلف انسان مختلف علمی اور عقلی سطح رکھتے ہیں۔ اگر قرآن کریم کسی ایک سطح کے انسانوں کو سامنے رکھ کر ہی اپنے حقائق بیان کرتا تو نہ وہ عالمگیر ہو سکتا تھا نہ ابدی۔ جوں جوں انسانی علم میں وسعت آتی جائے گی یہ حقائق مزید واضح ہوکر سمجھے جائیں گے۔


 قرآن کریم سمجھنے کے حوالے سے اہل ایمان میں بھی دو قسم کے لوگ ہوں گے۔ ایک وہ عام لوگ جو وحی پر ویسے ہی ایمان رکھتے ہیں اور دوسرے صاحبان علم و بصیرت جو عقل و فکر کی رو سے وحی کے حقائق پر غور وخوض کرتے ہیں۔ عام لوگوں کی طرف سورہ لقمان میں وَالمْوٴمِنْونَ کہہ کر پکارا کیا گیا ہے جبکہ سورہ مدثر میں اس دوسرے گروہ کو الَّذین َ اْوتْوا الکتب کہہ کراشارہ گیا ہ۔

قرآن حکیم نے اپنے احکامات کو آیات محکمات میں بیان کیا ہے اور یہ بنیادی نوعیت رکھتے ہیں اور جن کے حقیقی معنی ہی لئے جائیں گے جیسے نکاح، طلاق، حلال حرام، نماز، روزہ، زکوٰة، حج، جہاد، راہ خدا میں مال خرچ کرنا،لین دین، وراثت کے اصول اور سماجی و خانگی امور شامل ہیں۔ ایک عام مسلمان کو ضرورت بھی انہی احکامات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی ہوتی ہے۔

قرآن حکیم پر تحقیق کرنے والے کچھ اہل علم نے ان آیات کی نشاندہی کی ہے تاکہ عام لوگوں کے لئے احکام قرآنی کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے میں آسانی ہو۔ قرآن حکیم اور اسوہ حسنہ ہمارے لئے زندگی گزارنے کا ذریعہ ہے اور یہ انسانیت کے لئے خدا کا آخری پیغام ہے۔ حکیم الامت کے الفاظ میں
آں کتاب زندہ قرآن حکیم
حکمت او لایزال است و قدیم
نوع انسان را پیغام آخریں
حاصل او رحمتہ اللعالمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :