اللہ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے

پیر 8 فروری 2021

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

ایک مسلمان کے لئے سب بڑی خواہش اور زندگی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہو جائے۔ دنیا اور آخرت میں کامیابی اور سرخروئی اسی سے ہوتی ہے کہ اللہ کی رضا اور خوشنودی مل سکے اور اگر اللہ کسی کو اپنا دوست قرار دے تو اس کا نصیب تو اوج ثریا پر ہوگا۔ یہ وہ مقام ہے جسے علامہ اقبال نے یوں کہا کہ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ۔

اگر ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ خدا کنہیں اپنا دوست قرار دیتا ہے اوراُن میں کون سی خوبیاں ہوتی ہیں تو ہمارے لئے بہت آسانی ہوجائے گی۔ پھر ہم وہی خوبیاں اپنے اندر پیدا کرکے اللہ کے دوستوں میں شمار ہوسکتے ہیں۔ قرآن حکیم میں آٹھ مقامات پر ان لوگوں کی خصوصیات کا ذکر ہے جنہیں خدا پسند کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں اس کے لئے صراحت کے ساتھ "یُحب" کا لفظ آیا ہے یعنی اللہ انہیں اپنا دوست رکھتا ہے۔

(جاری ہے)

خدا نے کسی خاص گروہ یا طبقہ کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ان آیات میں ان لوگوں کی خوبیوں، کردار اور عمل کا ذکر ہے جنہیں خدا اپنا دوست قرار دیتا ہے۔ لہذا جو بھی یہ خوبیاں اپنے اندار پیدا کرلے گا، خدا کے دوستوں کی فہرست میں شامل ہوگا۔
سب سے پہلی خوبی کا ذکر سورہ بقرہ کی آیت 195 میں ہے کہ خدا نیکی کرنے والوں کو اپنا دوست رکھتا ہے۔

نیکی کیا ہوتی ہے؟ ہمارے ہاں جو شخص نماز روزہ کا پابند اور پرہیز گار ہو اسے نیک آدمی سمجھا جاتا ہے لیکن اس کی بہترین وضاحت سورہ بقرہ کی آیت 177 میں یوں کی ہے کہ " نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ خدا پر اور روز آخرت پر اور فرشتوں پر اور خدا کی کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور غلاموں کے آزاد کرنے میں خرچ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں۔

اور جب عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں اور سختی اور تکلیف میں اور معرکہ کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں، یہی لوگ ہیں جو ایمان میں سچے ہیں اور یہی ہیں جو خدا سے ڈرنے والے ہیں"۔ اس آیت جلیلہ سے نیکی کا مفہوم واضح ہوجا تا ہے۔
 دوسری آیت بھی سورہ بقرہ کی 222 ہے جس میں فرمایا کہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ یہاں توبہ کی وضاحت بہت ضروری ہے اور اس کا معنی محض زبانی "یااللہ میری توبہ" کہنا نہیں بلکہ غلط اور گناہ کا احساس ہونے پر اس راہ کو چھوڑ کر درست راستے پر چلنا یعنی یو ٹرن لینا ہے۔

گویا تویہ صرف زبانی نہیں بلکہ عملی کام ہے۔ اسی طرح "پاک صاف" کا مطلب صرف جسم اور لباس کو پاک اور صاف رکھنا نہیں بلکہ قلب و ذہن اور نگاہوں کا پاک صاف رکھنا بھی شامل ہے۔ پردے کے احکامات کی آیات میں اس کا ذکر وضاحت سے کیا گیا ہے۔ تیسری آیت سورہ آل عمران کی 146 میں جس کا عام ترجمہ یوں کیا جاتا ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور پھر صبر کا مطلب ہر قسم کے ظلم و زیادتی پر بے چارگی سے خاموشی اور برداشت لیا جاتا ہے۔

حالانکہ قرآنی اصطلاح کے مطابق صبر کا معنی حق پر ثابت قدمی سے کھڑا رہنا اور مشکلات کے باوجود استقلال سے جدوجہد کرنا ہے۔ سورہ آل عمران کی اس آیت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں "اور بہت سے نبی ہوئے ہیں جن کے ساتھ ہو کر اکثر اہل اللہ دشمنوں سے لڑے ہیں تو جو مصبتیں ان پر راہِ خدا میں واقع ہوئیں ان کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری اور نہ بزدلی کی نہ کافروں سے دبے اور خدا صبر یعنی استقلال رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے" اس سے صبر کی وضاحت ہوجاتی ہے۔

چوتھی آیت بھی سورہ آل عمران کی آیت 159 ہے جس میں ارشاد ربانی ہے کہ اللہ تعالیٰ توکل یعنی بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ہمارے ہاں توکل کا مفہوم بھی درست نہیں لیا جاتا اور عمومی طور پر اسباب اور کوشش کو نظر انداز کرنا " اللہ توکل" کہلاتا ہے حالانکہ اللہ توکل کا مفہوم یہ ہے کہ خدا کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کرتے ہوئے اور اس کے بنائے اصولوں کے مطابق کام کرنا اور ان پر یقین رکھنا کہ وہ بالکل درست ہیں۔

لہذا توکل کا مطلب کوشش اور محنت کا ترک نہیں ہے۔
خدا جنہیں اپنا دوست رکھتا ہے اس حوالے سے پانچویں آیت سورہ مائدہ کی 42 ہے جس میں فرمایا کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ چھٹا مقام سورہ توبہ کی آیت 7 ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ تقویٰ رکھنے والوں کو پسند رکھتا ہے۔ یہاں تقویٰ کا مفہوم سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔ اکثر اس سے مراد نیک اور پرہیزگار سمجھا جاتا ہے۔

قرآن نے ابتدا میں سورہ بقرہ کی دوسری آیت میں جب یہ کہا کہ "یہ ہدایت ہے پرہیزوں یعنی متقین کے لئے" اس سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ برائیوں اور غلط کاریوں سے بچنے کی آرزو رکھتے ہیں اور قرآن کی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کے لئے عزم مصم رکھتے ہیں یہ کتاب ان کے لئے راہنمائی کا کام کرتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچا دے گی۔ اس سے تقویٰ اور متقیٰ کی وضاحت ہوجاتی ہے۔

ساتویں آیت سورہ توبہ کی کی 108 ہے جس میں پھر کہا کہ اللہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ آٹھواں مقام سورہ الصف کی آیت 4 ہے جس میں فرمایا کہ " اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اْس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں" َ َ اسی طرح سورہ آل عمران کی آیت 31 میں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو ارسول اکرم ﷺ کی تم پیروی کرو ، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔


قرآن حکیم کی ان آیات میں نے ان لوگوں کی خوبیوں اور خصوصیات کا ذکر کیا ہے جنہیں اللہ اپنا دوست رکھتا ہے۔ ان خوبیوں میں نیکی کرنا، توبہ کرنا، پاک صاف رہنے ، توکل اور بھروسہ کرنا ، تقوی اور پرہیزگاری اختیار کرنا ، راہ خدا میں ثابت قدمی سے کھڑے رہنا اور اسوہ حسنہ کی پیروی شامل ہیں۔ اگر ہم بھی ان خوبیوں اور اعمال کو اپنے کردار میں شامل کرلیں تو ہم بھی اللہ کے دوست بن سکتے ہیں۔ یہ سعادت دنیا و مافی ہا سے کئی درجہ بہتر ہے۔ خدا ہمیں اس کی توفیق دے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :