ایک مریض کی " زندہ در گور " تعزیت

جمعرات 18 فروری 2021

Azhar Azmi

اظہر عزمی

ہمارے ہاں کسی بیمار کی عیادت اور اس سے ہمدردی میں ، ہم  وہ کچھ کر جاتے ہیں کہ مریض کی رہی سہی جان بھی نکال دیتے ہیں ۔ گفتگو سے لگتا ہے کہ مزاج ہرسی کے بجائے پرسے کے لئے آئے ہیں ۔ مریض کو " قریب القبر " کی خبر دینے  کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیتے ہیں ۔ اسے اس درجہ آمادہ موت کرتے ہیں کہ مرض سے نہ مرے تو کم از کم خودکشی کو  "خودخوشی" جانتے ہوئے ایک چانس تو لے ہی لے ۔

مریض کے کھانے کے لئے پھل ساتھ لاتے ہیں مگر سینے میں ایسے ایسے پھل اتار جاتے ہیں کہ وہ خود کہہ اٹھے ۔
آج کی رات بچیں گے تو سحر دیکھیں گے
کل اسپتال میں داخل اپنے ایک دوست ریاض بھائی کی عیادت کو گیا تو اس دوران ان  کے سسرال کی دو خواتین اور ایک مرد آگئے ۔

(جاری ہے)

میں نے اٹھنا چاھا تو ریاض بھائی نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا اور بولے : تم ہو گئے تو جلدی چلے جائیں گے ۔

میں نہ چاھتے ہوئے بھی کرسی کھسکا کر دیوار کے ساتھ بیٹھ گیا ۔ کچھ دیر بعد دو خواتین چادر اوڑھے اور ان کے ساتھ ایک صاحب کمرے میں داخل ہوئے ۔ دونوں خواتین جو کہ 50 کے پیٹے میں ہوں گی اور صاحب ان سے کچھ سال بڑے ہوں گے ۔ دونوں خواتیں نے میری موجودگی کو عیادت جیسی عبادت میں مخل ہونے  کا تاثر دیا بلکہ ریاض بھائی  کے ساتھ ذرا سا ترچھی کرسیوں کے ساتھ بیٹھیں بلکہ ایک نے تو اپنی چادر کا پلو دانت میں ہی دبا لیا تھا تاکہ میرے دیکھنے کے امکانات ہی ختم ہوجائیں ۔

اب انہیں کوئی بتائے کہ ایسی صورت حال اور عمر کے اس حصے میں آواز سے بھی ایک تصویر بنتی یے جو کبھی دھوکا نہیں دیتی چاھے ظاہری شکل کیسی ہی کیوں نہ ہو ۔ وہ تو جب انہوں نے عیادتی جملے بولنے کے لئے زبان کھولی تو چادر دانتوں سے نکل بھاگی اور لگا جیسے مجھ سے کہہ رہی یو " آپ سے کیا پردہ " ۔ خیر پھر انہوں نے میرے ہونے نہ ہونے کو خاطر میں کہاں رکھا ۔

  سیانوں کا کہنا ہے کہ موت سے پہلے عیادت کے نام پر سب سے زیادہ تعزیتی قبریں خواتین کھودتی ہیں ۔
کمرے میں آتے ہی ایک خاتون نے پھلوں کا شاپر بیڈ کے ساتھ والی ادویات کے لئے مخصوص ٹیبل ہر رکھ دیا تھا ۔ شاپر میں آج کل کے موسمی پھلوں کا  منہ تک قبضہ تھا ۔ شاپر میں جگہ جگہ پھوڑے نکلے ہوئے تھے ۔ کینووں کی بہتات نے کیلوں کی سانس روک کر انہیں آدھ موا کردیا تھا ۔

دو کیلے شاپر کی منڈیر پر جاں بلب تھے اور شاپر پھاڑ کر نکلنے کو تیار تھے ۔ امرود نظر تو آرہے تھے مگر صاف لگ رہا تھا امرود اپنی سخت مزاجی کے کینووں کی بالادستی بلکہ چیرہ دستی سے بہت تنگ ہیں ۔
۔دوسری خاتون نے دس روپے کے نوٹ سے ریاض بھائی کے  ہاتھوں ، ماتھے اور کاندھوں کو چھلانے کے بعد سر پر اس نوٹ کو گھما کر صدقہ نکالا اور کچھ پڑھ کر ان پر پھونکا ۔

کچھ دیر میں اندازہ ہوگیا کہ دونوں نند بھاوج ہیں اور ساتھ آنے والے نند کے بڑے بھائی اور بھاوج کے شوہر نامدار ہیں گو کہ انہوں نے اپنا نام نہیں بتایا ۔ ویسے نام کچھ بھی رکھ لیں شوہر سے زیادہ  بے ضرر اور ہضم کوئی اور نام نہیں ۔  آئیں ! ذرا عیادت کا حال بھی سن لیں ۔
نند ریاض بھائی سے کسی قدر خفگی سے گویا ہوئیں اور بولتی چلی گئیں  :
ریاض بھائی ۔

حد ہوگئی غیریت کی ۔ کسی نے بتایا ہی نہیں کہ آپ اسپتال میں ہیں ۔ وہ تو کل ثریا سے بات ہوئی تو پتہ چلا ۔ میں تو ڈر گئی ۔ میں نے سوچ لیا تھا کل ضرور جاوں گی اسپتال ، ورنہ کل کلاں کو کچھ ہوگیا تو کہنے کو بات رہ جائے گی ۔ رات سے آپ کے لئے دعائیں کر رہی ہوں ۔ انہوں نے محلے کی مسجد میں بھی اعلان کرادیا یے ۔ ہر نماز میں آپ کے لیے دعائے صحت ہورہی ہے ۔


اس کے بعد مریض کے چہرے ہر ایسی افسوسانہ اور قبرانہ نظر ڈالی کہ ریاض بھائی کو لگا کہ سامنے موت کا فرشتہ بیٹھا ہے ۔
بھاوج کہاں پیچھے رہنے والی تھیں ۔ رہی سہی کسر انہوں نے  ہوری کردی بلکہ دو ہاتھ آگے نکل گئیں : نہیں بھیا ، احتیاط بہت ضروری ہے ۔
نند کو مخاطب کرتے ہوئے  : وہ میں نے بتایا تھا ناں مشفق بھائی کا ۔ رات سوئے اور صبح آنکھ ہی نہیں کھلی ۔


پھر ریاض بھائی سے مخاطب ہوئیں : رات کو کوئی گھر والا رکتا یے کہ نہیں ؟
ریاض بھائی نے کہا : یہاں رکنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ باھر بیٹھنا پڑتا ہے ۔
نند نے پھر آگے بڑھ کر ریاض بھائی کے اوسان خطا کرنے کی پوری کوشش کی : اے بھیا ، اب یہ اسپتال والے بتائیں گے کہ فائدہ نقصان کیا ہے ۔ یاد نہیں آپ کی شادی کے تورس سال صداقت خالو کا کیا ہوا تھا ۔

رات اسپتال سے بیوی بچے گئے ۔ رات کو ان کی طبیعت خراب ہوئی ۔ لونڈے لپاڑے ڈاکٹر تھے اسپتال میں ۔ سنبھالا ہی نہیں گیا ان سے ۔ چٹ ہوگئے صداقت خالو  ۔ صبح بڑا لڑکا آیا تو مرے باپ کی شکل دیکھی ۔
اسی دوران راونڈ پر ڈاکٹر آگیا ۔ اس کے ساتھ نازک اندام ، آنکھوں میں شرارت بھری نرس کمرے میں آگئی ۔ ڈاکٹر ہاوس جاب پر تھا ۔ دونوں خواتین نرس کو دیکھ کر جلی مری جا رہی تھیں ۔

چیک اپ کے بعد دونوں چلے گئے ۔ نند نے پھر گند گھولنے کی کوشش کی ۔ اب یہ جو اسپتال والے چھوکرے چھوکرے سے سستے سستے سے ڈاکٹر رکھ لیتے ہیں اوپر سے یہ چلبلی نرسیں ۔ مریض کو انہوں نے خاک دیکھنا ہے ۔ خاک ہی ڈالتے ہوں گے ۔
ریاض بھائی کو اب اپنی بیماری کی شدت اور موت سے قربت کا اندازہ ہو چلا تھا ۔ ڈاکٹر کا آپریشن ، صبح شام  کے وزٹ اور اس پر یہ یقین دلانا کہ آپ کچھ دن بعد گھر ہوں گے ۔

سب بیکار تھا ۔ ہفتوں کا علاج پر خرچہ ، اہل خانہ کی تیمارداری سب ان نند بھاوج کی دس منٹ کی عیادت سے ہلکے  نکلے  ۔ جاتے جاتے بھاوج بولیں : فکر نہ کرنا بھیا ، اللہ تنکے میں جان ڈالنے والا ہے لیکن لکھی کو کون ٹال سکتا ہے بھلا ۔ پریشان بالکل بھی نہ ہونا ، اللہ بہتر کرے گا ۔ اور ویسے بھی ایک بات بتا دوں بچے سب کے پل جاتے ہیں ۔ وہ سب کا پالن ہار ہے ۔

تم اس کی بالکل بھی فکر نہ کرنا ۔
اس پوری تیمارداری میں صاحب نے ایک لفظ نہ بولا ۔ بس آتے جاتے مصافحہ کیا ۔ جب عیادت گزار چلے گئے تو ریاض بھائی کی حالت قابل دید تھی ۔ میں نے پوچھا کیسی لگی عیادت ؟ بولے : عیادت کے نام ہر زندہ تعزیت وہ بھی اپنی ، آج دیکھی ہے ۔ مجھے اندازہ ہو چلا تھا کہ مریض کس درجہ موت آگاہ ہو چلا ہے ۔ میں نے جاتے جاتے کہا : بس تم دیکھنا کل صبح تمھیں اسپتال والے ڈسچارج کردیں گے ۔ ریاض بھائی نے کہا : دیکھیں ڈسچارج  کرانے کون آتا ہے ۔ گھر والے یا فرشتہ !
میں  نے حوصلہ دیا تو گنگنائے لگے :
 آج کی رات بچیں گے تو سحر دیکھیں گے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :