شیرو دودھ والا ۔۔۔ جانے کہاں گئے یہ لوگ !

جمعہ 29 اکتوبر 2021

Azhar Azmi

اظہر عزمی

" ان کا فل ٹائم کاروبار تو پانی کا ہے لیکن کمائی ساری دودھ سے ہوتی ہے ۔ "  یہ اور اس طرح کے جملے میں اپنے دودھ والے کو جز بز کرنے کے لیے اکثر کہا کرتا تھا ۔ کبھی ہنس کر رہ جاتا تو کبھی قسمیں کھاتا اور جب زیادہ چڑ جاتا تو کہتا : تو کیا تو خود پانی نہ پیئے ہے ۔ میں کہتا : خود پیتا ہوں ۔ تیری طرح دودھ میں ملا کر دوسروں کو نہیں پلاتا ۔

جب کبھی دودھ گرم کرنے پر زیادہ بالائی آجاتی تو کہتا : لگتا ہے کل نسوڑے کا پاوڈر زیادہ ملا دیا تھا ۔
ہمارا یہ دودھ والا شیر علی تھا لیکن ہم سب اسے شیرو کہا کرتے تھے ۔ لہجے سے وہ ہریانہ کا لگتا تھا ۔ لگتا تھا اسے مغلوں کے زمانے میں آنا تھا لیکن دیر سے دنیا میں بھیجا گیا ۔ اس کے خمیر میں تیزی طراری نہ تھی ، سادگی تھی جو دل موہ لیا کرتی تھی ۔

(جاری ہے)

اسی وجہ سے میں اسے Late Arrival کہتا تو ہنس دیتا : یہ انگریجی ونگریجی مجھے نہ آوے ۔
شیرو عمر میں مجھ سے کوئی دس سال بڑا ہوگا مگر میں نے کبھی اس فرق کو محسوس نہ کیا ۔ وہ میرا دوست تھا ۔ سہ پہر میں جب وہ دودھ والا کی آواز لگاتا تو میں بھگونا  لے کر گیٹ کی طرف دوڑ لگاتا کیونکہ مجھے چائے جو پینی ہوتی تھی ۔ والدہ لاکھ کہتیں :
اس وقت چائے پینے کی کیا تک ہے ۔

پوری طرح شام تو ہو لینے دو ۔
اب میں والدہ کو کیا بتاتا کہ تک کا تو مسئلہ ہی نہیں ۔ میں تو چائے کا رسیا ہوں اور حال یہ ہے کہ:
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چائے بنی ہوتی ہے
ہائے  کیا  چیز  غریب الوطنی  ہوتی ہے
رات سوتے وقت بھی پلا دیں تو پی لوں گا ۔ چائے کے رسیا تھے تو شیرو سے دوستی لازمی تھی ۔ شیرو سے روز ہی ہلکا پھلکا ہنسی مذاق ہو جایا کرتا ۔

شیرو گٹھے ہوئے جسم کے ساتھ اوسط قد کا تھا ۔ بال شاید وہ صبح ہی بناتا تھا ۔ بعد میں لوگ اس کے بالوں پر باتیں بناتے تھے ۔ منہ بھی صبح دھلتا تھا ۔ شیو ہمیشہ بڑی ہی دیکھی ۔  مونچھیں ایسی کہ آپ انہیں بے ترتیب بالوں کا گچھا بھی کہہ سکتے تھے ۔ میں نے زندگی میں اتنی آوارہ مونچھیں کبھی نہیں دیکھیں ۔
ہمارے گھر آتے آتے دن بھر کی گرد اس کے چہرے پر ہوتی ۔

   قمیض پر پاپڑی جیسا سفید پسینے کے دھبے کہہ رہے ہوتے : اتار دے بھائی اور کس کس کے دروازے پر ذلیل کرائے گا ۔ شلوار ازاربند سے ہلکی سی اوپر کی طرف اڑسی ہوئی ہوتی ۔  پہلے سائیکل پر آتا بعد میں موٹر سائیکل پر آنے لگا ۔ میں تو اس سے مذاق کے بہانے ڈھونڈتا تھا ۔ ایک دن میں نے پوچھا : شیرو عقل بڑی ہوتی ہے کہ بھیبس ؟ ہنس کر بولا : بھائی ہمارا کاروبار تو چلے ہی بھینس سے اس لئے بڑی تو وہی ہوئے ہے ۔


والدہ اور شیرو ۔۔۔ روبرو
مہینے کے آخر میں وہ ایک روز بے وقت آتا اور تیس دن کے روزانہ کے حساب سے مع وزن دودھ کی رسید دے جاتا ۔ اب والدہ ایک ایک دن کا حساب لگاتیں اور دوسرے دن شیرو اور والدہ روبرو ہوتے ۔ والدہ کہتیں :
شیرو لگتا ہے تیرا دماغ قابو میں نہیں ۔ پچھلی سنیچر تو ہم گھر پر تھے ہی نہیں ۔ دودھ کیا تو گیٹ پر بلیوں کو پلا گیا ؟
شیرو کچھ نہ کہتا بس مسکرا کر کہتا : ارے خالہ وہ میں تھوڑی لکھو ہوں ۔

نذیر لکھے یے رسیدیں ۔ جو تم ٹھیک سمجھو وہ دے دو ۔
جب شیرو دودھ کے پیسے بڑھاتا تو والدہ اور شیرو کی گفتگو سننے والی ہوتی :
یہ تو نے دودھ پر ایک روپیہ بڑھا ایک دم ۔ خوف خدا نہیں تجھے ؟
شیرو : خالہ ، مہنگائی بھی دیکھو ۔ آسمان سے باتیں کر رہی ہے ۔
والدہ : مہنگائی کو چھوڑ ۔ میں تجھ سے بات کر رہی ہوں ۔ اور ایک بات بتا پہلے تو ۔ تو ڈونگے سے دودھ میں پانی ملاتا تھا ۔

اب کیا نل کھلا چھوڑ دیتا ہے ؟ کسی کام کا نہیں دودھ ۔ بالکل پانی جیسا ۔ بتا رہی ہوں اگلے مہینے سے شکور کو کہہ دوں گی دودھ دینے کو ۔
والدہ کا آخری جملہ کام کر جاتا ہے ۔ شیرو بڑی معصومیت سے کہتا : اچھا یہ بتاو کتتے پیسے بڑھاو گی ؟
والدہ : ( دو ٹوک انداز میں ) آدھے ۔۔۔ وہ بھی اگلے مہینے سے
اور ڈیل بن جاتی ۔
ہماری فلم بینی کے فروغ میں شیرو کا کردار
شیرو کا تعلق دودھ کے کاروبار سے تھا لیکن فلم بینی کے فروغ  کے لیے اس کی خدمات بلائی والے دودھ سے لکھی جائیں گی ۔

وی سی آر پر کتنی فلمیں اس کی دکان سے کبھی واپس نہ کیے گئے ادھار کے پیسوں سے دیکھیں ۔ ہمارے اسکول / کالج کے زمانے میں  محلے کے دو تین دوست فلمیں اور  وی سی آر کرائے پر لیا کرتے تھے  ۔ ہمارے پاس جب کبھی اپنے حصے کے پیسے نہ ہوتے یا سودے سے بچائے گئے پیسے کم پڑتے تو قدم بلا کھٹکے شیرو کی دکان کی جانب آٹھ جاتے ۔
پہلے تو اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرتے ۔

ایک دو باتوں کا جواب دینے کے بعد صاف صاف پوچھتا : یہ تجھے فلمیں دیکھنے سے کیا ملے ہے ؟ پڑھتا وڑھتا بھی ہے کہ نہیں ؟ یہ وہ موقع ہوتا جب ہم شیرو کی عزت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے ۔ اب شیرو ، شیرو بھائی کے رتبے پر فائز ہو جاتے : شیرو بھائی یار نئی فلم آئی ہے ۔
شیرو :  ایک بات تو مجھے بتا ۔۔۔ تئیں بھائی اور یار دونوں ساتھ لگا دیوئے ہے ۔

ہجم ( ہضم ) نہیں ہوئے ۔ کھٹی کھٹی ڈکاریں آوئے ہیں ۔
میں چڑ جاتا ہے اور سارے بھائی اور یار ایک طرف رکھ دیتا : شیرو صاف صاف بتا پیسے دینے ہیں کہ نہیں ۔ ادھار مانگ رہا ہوں ۔ جب دودھ کا مہینے کا حساب دے تو اس میں لگانا لینا ۔
شیرو : خالہ اتتی سیدھی نہیں کہ میں لکھوں اور وہ دے دیویں ۔
میں بھی کہاں دبنے والا ہوتا : چل ٹھیک ۔ ہمارے دودھ میں پانی کے ایک دو ڈونگے اور ملا دینا ۔


شیرو : تو سمجھے ہے کہ میں دودھ میں پانی ملاووں ؟
میں کہتا :  مجھے کیا پتہ ۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی والی بات بس کہنے کو ہے ۔ آج تک کوئی دودھ سے پانی کو کوئی الگ نہیں کر سکا ورنہ تیری اسٹوری کھل جاتی ۔
اسی طرح کی جملے بازی کے بعد جب مجھے جلدی ہوتی اور وہ بور ہو جاتا تو پیسے دے دیتا ۔جاتے جاتے اونچی آواز میں کہتا : حساب میں لگا لوں گا ۔


میں جاتے جاتے کہتا : ہاں ہاں لگا لیجو ۔ میں نے کبھی اس بات کی پروا ہی نہیں کی کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ وہ یہ پیسے کبھی بھی مہینے کے حساب میں نہیں لگائے گا .
مانا اس نے حساب نہ رکھا مگر میرے ذمے تو حساب باقی ہے ۔ ہم غم روزگار میں لگ گئے اور پتہ نہیں شیرو کب چپکے سے دکان بند کر کے کہیں اور چلا گیا مگر اس کی سادہ اور بے ریا باتوں کی دکان تو آج بھی میرے پاس کھلی ہے ۔۔۔ کبھی کبھی دل کہنے کو چاھتا ہے : کام تو ان کا پانی کا ہے لیکن بیچتے دودھ ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :