ورلڈ کینسر ڈے - عافیہ سلام کی بلند ہمتی اور نبرد آزمائی کو سلام

جمعرات 4 فروری 2021

Azhar Azmi

اظہر عزمی

عافیہ سلام پر لکھنے کا ارادہ تو بہت پہلے سے تھا مگر میں 4 فروری کے انتظار میں تھا ۔ 4 فروری عافیہ سلام کا یوم پیدائش نہیں ہے بلکہ ورلڈ کینسر ڈے ہے ۔ کینسر سے آگاہی کا دن ہے ۔ مرض سمجھنے کا دن ہے ۔خوف پر غالب آنے کا دن یے ۔ فوری تشخیص و بروقت علاج ( treatment ) کی اہمیت جاننے کا دن یے تو پھر جو اس مرض کو شکست دے کر آئے اس سے بہتر اس کی علامات ، تجربات اور اس کے بعد کی احتیاط کون بتا سکتا ہے ۔

عافیہ سلام نے قابل اعتماد ڈاکٹرز ، ہمت بندھانے والے دوستوں اور اپنے بے پایاں عزم و حوصلےسے کینسر کو شکست دی اور اب 20 سال سے ایک بھرپور کینسر فری زندگی گزر رہی ہیں ۔
عافیہ سلام کی شخصیت کا رعب جمانے کے لئے میرے پاس بتانے کو بہت کچھ ہے ۔
۔ پاکستان کی پہلی کرکٹ جرنلسٹ
۔

(جاری ہے)

پاکستان میں کسی کرکٹ رسالے ( کرکٹر ۔ انگلش) کی پہلی خاتون ایگزیکٹیو ایڈیٹر
۔

ہاکستان میں خواتین کے پہلے بیج کی ائیر ٹریفک کنٹرولر
۔ ہاکستان میں ایوی ایشن اور ڈیفنس میگزین ( ونگز)     کی خاتون ایڈیٹر
۔ انڈس ارتھ ٹرسٹ کی چیئر پرسن
- جاوید جبار کی قائم کردہ بانھ بیلی کی صدر
۔  گوگل کلچرل انسٹی ٹیوٹ کی پروجیکٹ مینجر برائے پاکستان
۔ ایڈورٹائزنگ کی مشہور تخلیق کار
۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں انگریزی اور اردو میں یکساں دسترس کے ساتھ لکھنے والی
۔

ماحولیات کے تحفظ اور صنفی مساوات کی تحریک کی سرگرم رکن
۔ اسپیکر ، ٹرینر وغیرہ وغیرہ
اس کے علاوہ بھی بتانے کو بہت کچھ ہے مگر یہ سب وہ کچھ ہےجو انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے حاصل کیا ۔ زندگی بڑے سکھ سے گزر رہی تھی ، راوی چین لکھ رہا تھا  لیکن 1997 کی ابتدا میں ایک انتہا کی مصیبت کا آغاز ہوا اور انہیں ایسے مقام پر لا کھڑا کیا کہ جسے سنتے ہی سانس رک سی جاتی ہے ، قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور وہ تھا عورتوں میں پائے جانے والے دو مخصوص کینسر میں سے ایک کی علامات کا ظاہر ہونا ۔

عافیہ سلام کی یہ کہانی صرف سنانے کے لئے نہیں ہے بلکہ کینسر جیسے موذی مرض سے نبردآزما ہونے اور فتح یاب ہونے کی مانگ پیدا کرنے کے لئے ہے ۔ بالخصوص خواتین کے لئے یہ مضمون انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔
چلیں ! سب سے پہلے عافیہ سلام سے اپنا تعارف بتا دوں ۔ میری عافیہ سلام سے سلام دعا اور تعلق 1992 میں ہوا ۔جب انہوں نے میری جائے ملازمت پر پہلے بطور کریٹیو فری لانسر اور اس کے بعد کل وقتی ملازمت کا آغاز کیا ۔

محض 3 ماہ بعد ہی ، میں نے اس ملازمت کو خدا حافظ کہہ دیا لیکن اب 30 سال ہونے کو آئے ہیں اور میں عافیہ سلام کی بااعتماد  شخصیت کے اثر سے نکل ہی نہیں پا رہا ۔ میں نے شخصیت میں متانت ، گفتگو میں اپنائیت ، پیشہ ورانہ زندگی میں تنوع و انفرادیت اور مزاج میں استقامت اور ہار نہ ماننے کی بے مثل صلاحیت کا ایسا امتزاج کسی میں نہیں دیکھا ۔
1992 سے 1997 تک عافیہ اسی جگہ ملازمت کرتی رہیں اور اس کے بعد ماہنامہ کرکٹر انگریزی کی پہلی خاتون ایگزیکٹیو ایڈیٹر بن گئیں۔

عافیہ ایک ورکنگ وومین ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے 3 چھوٹے بچوں کی پرورش بھی کر رہی تھیں ۔ سب سے چھوٹی بیٹی اس وقت 3 سال کی تھی ۔ ایک دن عافیہ کو احساس ہوا کہ کینسر کی بہت ابتدائی علامت ظاہر ہورہی ہیں ۔ عافیہ اس سلسلے میں زیادہ باخبر اس لئے بھی تھیں کہ ان کے ننھیال کی خواتین میں اس مرض کی ایک ہسٹری تھی ۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ انہی دنوں ان کی والدہ بھی ان کے گھر قیام پذیر تھیں اور دوسری مرتبہ کینسر کےنمودار ہونے کے بعد صحت یابی کی جانب گامزن تھیں ۔


عافیہ سلام اتنی معلومات ، تعلیم ( کراچی یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ماسٹرز ) اور ورکنگ لیڈی ہونے کے باوجود سخت پریشان اور تذبذب کا شکار تھیں ۔ بتاتی ہیں کہ وہ بھی معاشرے میں دوسری خواتین کی طرح  فطری شرم و حیا کے باعث سوچتیں کہ کس سے کہوں اور کسے دکھاوں ۔ روز راستے سے گزرتے ایک بریسٹ کینسر کلینک کا بورڈ دیکھتیں اورسوچتیں کہ کل دکھاوں گی ۔

بہر حال عافیہ نے ایک دن ہمت کی اور اکیلی اس کلینک جا پہنچیں ۔ معائنہ ہوا ، بائی ایپسی ہوئی تو ٹیسٹ پازیٹیو آ گیا ۔ اب آگے ابتلا ء و مصیبت کے پہاڑ کھڑے تھے  مگر عافیہ نے مصمم ارادہ کر کیا تھا کہ جو کچھ بھی ہو وہ آخری سانس تک یہ جنگ لڑیں گی ۔
بائی ایپسی کے بعد فورا سرجری کا کہا گیا جس میں آپریشن اور احتیاط کے تین دن لازمی تھے ۔ والدہ کو بتایا نہیں جا سکتا تھا کیونکہ وہ تو خود اس مرض سے صحت یاب ہو رہی تھیں ۔

ویسے بھی اسی مرض کا شکار ہونے والی ماں کے لئے یہ بات کا قدر تکلیف دہ ہو گئی کہ ان کی بیٹی کو اس عمر  میں اسی مرض نہ آلیا ہے ۔ ایک دن سرجری اور اس کے بعد  دو دن احتیاط کے لئے ضروری تھے جس کے لئے گھر سے غیر حاضری کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا ۔ مرض اپنی جگہ لیکن یہ صورت حال خود بڑی اعصاب شکن تھی ۔ ذرا سوچیں ! وہ مریض جسے خود مکمل ذہنی سکون ، دلجوئی اور آرام کی ضرورت ہے وہ اپنے گھر سے دور رہنے کی ترکیبیں سوچ رہا ہے ۔

3 چھوٹے بچے اور کینسر سے صحت یاب ہوتی ماں ۔ صورت حال خاصی گھمبیر تھی ۔
گھر سے تین دن کی عدم موجودگی کو بغیر کسی ابہام کے یقینی بنانے کے لئے کرکٹر کے ایڈیٹر انچیف اور مالک ریاض منصوری نے بھر پور تعاون کیا ۔ عافیہ دفتر میں تھیں اور اس دوران ریاض منصوری نے عافیہ کے گھر فون کر کے ان کی والدہ کو بتایا کہ عافیہ کو ملتان میں تعمیر شدہ نئے اسٹیڈیم میں منعقدہ ٹیسٹ میچ کو کور کرنے جانا ہے اور واپسی تین دن کے بعد ہوگی ۔

عافیہ شام کو گھر آئیں ۔ والدہ نے فون کا بتایا ۔ عافیہ نے  ملتان جانے کے لئے بیگ پیک کیا ۔ بچوں کو سمجھایا کہ دادی کو تنگ نہ کرنا ، اہل خانہ سے رخصت لی اور اسپتال جا پہنچیں ۔ صبح آپریشن ہوا ۔ اس کے بعد عافیہ اپنے شوہر کے ایک فیملی فرینڈ کے گھر چلی گئیں ۔ تیسرے روز ڈاکٹر کو دکھایا ۔ اس مرض میں سرجری کتنی دور انگیز و اذیت ناک ہے اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جو اس مرحلے سے گزرا ہو ۔

عافیہ سلام بتاتی ہیں کہ اس دوران ان کے دوستوں ، دفتر کے افراد اور ڈاکٹرز کا رویہ نہایت حوصلہ و امید افزا رہا ۔ ہر مرحلے پر ان کی ہمت بندھاتے رہے ۔ گھر واپسی پر ملتان کی کہانی میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے ، عافیہ نے کراچی سے ملتانی کھسے اور سوہن حلوہ خریدا اور نہایت اعتماد کے ساتھ گھر پہنچ گئیں ۔
 یہ سرجری رمضان کے دنوں میں ہوئی تھی ۔

گھر آئیں جس حد تک ممکن ہوا گھر کے روزمرہ کاموں میں مصروف ہو گئیں ۔ سرجری سے منسلک ہاتھ کی احتیاط بڑی اہم تھی ۔ عافیہ اس احتیاط کا بھی پورا خیال رکھتیں اور والدہ کو شبہ تک نہ ہونے دیتیں ۔ عافیہ بتاتی ہیں کہ ایک موقع پر مجھے ایسا لگا کہ اب یہ بات چھپ نہ پائے گی لیکن وہاں میری حاضر دماغی کام آ گئی ۔ عافیہ نے ہوش سنبھالنے کے بعد سے کبھی رمضان کے روزے نہیں چھوڑے تھے  لیکن اس بار روزے رکھنا ممکن نہ تھا ۔

والدہ کو شک گزرا اور انہوں نے  پوچھ ہی لیا : ایسا کیا ہو گیا کہ تم روزے نہیں رکھ رہی ہو ۔ عافیہ کے لئے یہ سوال انتہائی غیر متوقع تھا ۔ کچھ لمحے تو گم صم رہیں پھر بولیں : اماں آج کل میرا گلا خراب ہے ۔ اینٹی بائیوٹک لے رہی ہوں ناں ۔ اس لئے روزے نہیں رکھ پا رہی ۔ اب عافیہ دوبارہ دفتری کاموں میں مصروف ہو گئیں ۔
عافیہ دوبارہ اہنے دفتری کاموں میں مصروف ہوگئیں لیکن  ابھی کیموتھراپی کے عذاب انگیز دور سے گزرنا تھا ۔

اس عمل میں بال گر جاتے ہیں اور اب والدہ سے یہ بات چھپانا ممکن نہ تھی ۔ عافیہ تردد کا شکار تھیں کہ یہ خبر کس طرح والدہ کو سنائیں ۔ عافیہ کا کہنا ہے کہ سارا مرض ایک طرف اور والدہ کو یہ بتانا میری زندگی کا مشکل ترین مرحلہ تھا ۔ عافیہ نے والدہ کو بتایا تو انہوں نے بھی کمال ضبط و صبر کا مظاہرہ کیا جس سے عافیہ کو بہت حوصلہ ملا ۔ کیموتھراپی سے پہلے ہی عافیہ نے اپنے بال چھوٹے کرا لئے ۔

عافیہ کے سیاہ گھنے بال اس وقت کمر سے نیچے تک ہوا کرتے تھے ۔ عافیہ نے بتایا کہ کسی بھی عورت کے لئے اپنے بال کٹوانا مشکل ترین کام ہوتا ہے کیونکہ اس سے آپ کی ظاہری شخصیت مکمل طور ہر تبدیل ہو جاتی ہے ۔ ان کا کہنا ہے متعدد عورتیں صرف بال نہ کٹوانے کی خاطر کیمو تھراپی نہیں کراتی ہیں اور پھر اس کی بھاری قیمت اپنی زندگی سے ادا کرتی ہیں ۔
 کیموتھراپی کا عمل خاصا تکلیف دہ ہوتا یے اور اس کے بعد کچھ گھنٹوں تک احتیاط ازحد ضروری ہوتی ہے ۔

عافیہ بتاتی ہیں کہ وہ آفس کے بعد آخری پیشینٹ کے طور پر اپنی کیموتھراپی رات میں کراتیں ۔ اس طرح انہیں رات آرام و احتیاط کے گھنٹے میسر آجاتے اور پھر وہ دن میں دفتر چلی جایا کرتیں ۔ جیسے جیسے کیمو تھراپی بڑھی ۔ بال بالکل غائب ہو گئے ۔ انہوں نے وگ بنوا لی لیکن بتاتی ہیں کہ یہ کراچی میں شدید گرمیوں کے مہینے تھے ۔ وگ پہننا عذاب تھا ۔  ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ 14 اگست 1997 کو پاکستان کرکٹ کی گولڈن اور ماہنامہ کرکٹر کی سلور جوبلی آپہنچی ۔

لاہور میں غیر ملکی ٹیموں کے ساتھ قذافی اسٹیڈیم میں فیسٹیول میچز شروع ہو گئے ۔ کرکٹر کا خاص شمارہ شائع ہونا تھا ۔ عافیہ کو لاہور جانا تھا تاکہ میچز کور کرنے کے ساتھ ساتھ کرکٹرز سے انٹرویوز کرسکیں ۔
عافیہ نے بتایا کہ وہ چاھتیں تو لاہور نہ جاتیں مگر میں جس طرح بیماری سے لڑ کر بااعتماد ہورہی تھی ۔ میں نے اسے بھی ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور ویسے بھی جب آپ با حوصلہ ہوں اور مثبت انداز فکر اپنائیں تو آپ کی قوت مدافعت بڑھ جاتی ہے ۔

میں اپنی چھوٹی ببیٹی کو لاہور ساتھ لے گئی کیونکہ میری ایک خالہ وہاں رہتی تھیں ۔ بیٹی دن بھر وہاں رہتی اور میں دن بھر میچز اور انٹرویوز میں مصروف رہتی ۔ یہ دن بھی عجیب تھے ۔ کیموتھراپی  کے باعث میرے منہ میں چھالے تھے ۔ میں صرف جوس پیتا کرتی تھی ۔  مکیموتھراپی سے End Nerves بہت حساس ہو جاتی ہیں ۔ اس لئے پیروں میں تکلیف رہتی اور انہیں چوٹ اور رگڑ سے بچانا ہوتا ہے ۔

سو قدم قدم ہر احتیاط لازم تھی ۔
عافیہ نے کیمو تھراپی کے دن بہت عزم و استقامت سے گزارے اور تھرڈ اسٹیج کے کینسر کو شکست دے کر صحت مند زندگی کی طرف پیش قدمی شروع کردی ۔ پہلے سال ہر ماہ ، دوسرے سال ہر دو ماہ ، تیسرے سال یر چھ ماہ ، تیسرے سے پانچویں سال سالانہ اور پانچ سے دس سال ، دو سال میں ایک مرتبہ چیک اپ کراتی رہیں اور دس سال کے بعد انہیں کینسر فری قرار دے دیا گیا ۔

اب 20 سال سے عافیہ بھرپور صحت مند اور متحرک زندگی گزار رہی ہیں ۔ جس زمانے میں عافیہ اس مرض کا شکار ہوئیں ۔ اس زمانے میں اس مرض سے آگاہی بہت کم تھی ۔ سپورٹ گروپ کا کوئی تصور نہ تھا کہ جس کے اراکین کینسر کے مریض اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کر سکیں اور اس ضمن میں پھیلی بے سروپا باتوں ، مفروضوں اور غلط فہمیوں کو دور کر سکیں ۔

عافیہ سلام  آج بھی اپنی انفرادی حیثیت اور سپورٹ گروپس کے ساتھ کینسر سے آگاہی کے لئے ترجیحی بنیادوں ہر وقت نکال کر مریضوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کرتی ہیں ۔
عافیہ کا کہنا ہے کہ خواتین کا صحت مند طرز زندگی جس میں متناسب غذا اور کھیلوں میں شرکت لازمی ہے کے ذریعے کینسر سے بچاو ممکن ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین  اپنی فطری شرم و حیا اور معاشرتی رویوں کے باعث  اس مرض کو ایسے چھپاتی ہیں کہ جیسے اس میں ان کا کوئی قصور ہو جب کہ اس میں ان کا ذرا ہراہر قصور نہیں ہوتا ۔

کینسر کی بروقت تشخیص اور فوری  treatment  سے کامیابی کے  امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں کیونکہ کینسر کو treatable  مرض قرار دیا گیا اور اب تو اس کے treatment میں بہت جدت اور آسانیاں آچکی ہیں ۔ عافیہ سلام کہتی ہیں کہ جیسے ہی جسم میں کوئی غیر معمولی تبدیلی واقع ہو ۔ وزن گرے ، بال جھڑیں یا جسم ہر ایک مخصوص رنگ کے تل نمودار ہوں تو بتانے میں تاخیر نہ کریں کیونکہ اس مرض میں معمولی سی تاخیر کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ۔
عافیہ سلام آپ کے حوصلے کو داد ہے ، سلام ہے ۔
سنگ  گراں  ہے  راہ   میں  حائل  تو  کیا  ہوا
منزل چھپی ہوئی تو میرے حوصلوں میں ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :